اب ہمیں کون سمجھائے !

وصیل خان

تعلیم انسانی ضرورت ہے اس کا حصول مہذب سماج اور معاشرے کیلئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کسی بھی انسان کیلئے خوراک، جس طرح انسان کھائے پیئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح کسی بھی صحت مند سماج کیلئے تہذیب و تمدن ضروری عناصر ہیں اس کے بغیر سماج زندہ تو رہے لیکن اس طرح کہ اس کے اندر انسانیت نہیں بلکہ حیوانیت و و وحشت کا راج ہوگا۔ جہاں سے ظلم و ابر،  لوٹ کھسوٹ،  حق تلفی اور دیگر تمام محرکات شر ہی جنم لیں گے اور انسانی سماج حیوانوں کی آماجگاہ بن جائے گا، جس کا مشاہدہ ہم بہ آسانی اپنے چاروں طرف کرسکتے ہیں ۔ صدیوں کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ انسان کو غیر مہذب بنانے والے وہ سارے حیوانی عوامل کا خاتمہ تعلیم ہی کرسکتی ہے۔ تعلیم انسان کو مہذب اور متمدن بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہے لیکن اس کے لئے ضرور ی ہے کہ اس کے حصول کیلئے ایک صالح اور اچھا انسانی بننے کو مشروط کرلیا جائے۔ تعلیم کا مقصد اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس کے ذریعے ہم زیادہ سے زیادہ اپنے سامان تعیش اکٹھا کرلیں تو معاف کیجئے یہ تعلیم کا مقصد ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ خیال اور یہ انتخاب آپ صرف اور صرف حیوان کاسب ( کمانے والاانسان ) ہی بنا سکتا ہے ایک اچھا انسان ہرگز نہیں ۔ تعلیم کا  اصل مقصد خدمت انسانیت اور ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہے۔

گذشتہ روز ہماری ملاقات ایک عزیز دوست سے ہوئی جو عمر میں ہم سے نصف ہیں چونکہ وہ ہم سے بے حد عقیدت و محبت رکھتے ہیں اس لئے ہم بھی ان سے انسیت رکھتے ہیں وہ کوئی بھی کام کرتے ہیں تو مشورہ ضرور لیتے ہیں۔ انہوں نے ابھی دوسال قبل ہی گریجویشن مکمل کیا ہے وہ کہنے لگے کہ میں سول سروسیز امتحانات کی تیاری کررہا ہوں، کوچنگ کیلئے حج ہاؤس اور ہمدرد یونیورسٹی کے زیر انتظام چلائے جانے والے کورسیز میں داخلے کیلئے کوشاں ہوں، ابتدائی ٹیسٹ ہوچکے ہیں اور رزلٹ کا انتظار ہے میرے حق میں دعا کریں کہ میں ٹیسٹ میں کامیاب ہوجاؤں اور دونوں سینٹروں میں کہیں بھی کوچنگ کیلئے منتخب کرلیا جاؤں میں نے انہیں نیک خواہشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ امتحانات کٹھن ضرور ہیں لیکن ان افراد کیلئے نہیں جو حوصلہ مند اور طالع آزماہوں ۔ یہ ایسا مشکل کام نہیں جو انسانی طاقت اور دسترس سے باہرہو، یہ امتحانات انسان ہی لیتے ہیں اور انسان ہی اسے حل بھی کرتے ہیں ۔ انسان اگر ٹھان لے تو وہ پہاڑ چیرکر بھی دودھ کی نہریں نکال سکتاہے۔

ایسے افراد کیلئے راجستھان کی وہ معذور اور انتہائی غریب و پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والی جانباز لڑکی ام الخیر نہ صرف ایک مثال بلکہ نمونہ ٔ عمل بھی ہے جس نے ابھی حال ہی میں یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ 2011میں ایک اسلامک سینٹر کے ذریعے اپنی تعلیم مکمل کرنے والی ام الخیر کے گھریلو حالات انتہائی مخدوش تھے اس کے والد نے اس کی ما ں کو چھوڑکر دوسری شادی اس وقت کرلی تھی جب وہ بہت چھوٹی تھی، ماں نے دن رات ایک کرکے اس معذورلڑکی کو تعلیم دلائی لیکن خو د زندگی کی جنگ ہار گئی۔ ام الخیر باپ اور سوتیلی ماں کی بدسلوکیا ں برداشت نہ کرسکی اور ایک دن گھر چھوڑ دیا۔ زندگی کے ایام ٹیوشن وغیرہ کے سہارے گزرنے لگے لیکن تعلیمی پیش رفت جاری رہی اور ایک دن آہی گیا کہ وہ یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیاب ہوگئی۔ اس کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ زندگی میں آنے والے سارے نامساعد اور حوصلہ شکن حالات کو اس نے کبھی اہمیت ہی نہیں دی، اس کی نظریں صرف اور صرف اپنے نشانے پر مرکوز رہیں بالآخر حوصلہ فاتح رہا اور وہ سارے عوامل شکست کھا گئے جو اس کے قدموں کی زنجیر بن سکتے تھے۔

ایک واقعہ اور سنتے چلیں ، کلکتہ کے رہنے والے ایک نوجوان کو علم دین کے حصول کی بے حد تڑپ تھی دور دراز کا سفر کرکے وہ سہارنپور کی مشہور دینی درسگاہ مظاہر علوم پہنچا اور باقاعدہ داخلہ لے کر پڑھائی شروع کردی، اسے معلوم ہوا کہ عالمیت کے مکمل کورس کیلئے تقریباً آٹھ سال درکار ہیں ، اس نے سوچا کہ اتنی دور آنے بعد اگر اس کی توجہ والدین،  گھراور اعزا و اقربا کی طرف مبذول رہی تو ممکن ہے کہ ان کی محبت میں وہ اپنے نشانے سے ہٹ جائے اور اس کی تعلیم ادھوری رہ جائے، اس نے ایک سخت فیصلہ کیا،  اس دوران والد کے لکھے گئے خطوط کو وہ پڑھے بغیرکہیں محفوظ کرلیا کرتا تھا، آٹھ سال گزرگئے اسے عالمیت کی سند مل گئی اور اس کا دیرینہ خواب پایہ ٔ تکمیل کو پہنچ گیا، اب اسے گھر کی یاد آئی تو رخت سفرباندھنا شروع کردیا، اسی دوران اس کی نظر ان خطوط پر پڑی،  ایک ایک خط ترتیب وار کھولتا گیا، والد نے لکھا تھا تمہاری دادی بیمار ہیں دوسرے خط میں بیماری کے شدید ہونے کی خبر اور آکر مل لینے کی درخواست تھی ۔ اگلے خط میں درج تھا کہ ان کا انتقال ہوگیا تو اس کی آنکھیں برس پڑیں اور دیر تک روتا رہا، اسی طرح سارے خطوط پڑھتا رہا، کبھی خوشی کبھی غم کے بادل آتے اور جاتے رہے۔

اس کا یہ عمل مناسب تھا یا غیر مناسب اس بحث میں پڑے بغیر اس واقعے سے جو انتہائی اہم سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مطلوبہ نشان کو چھونے کیلئے بہت کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ وہ نوجوان نہ صرف عزم و ارادے کا دھنی تھا بلکہ اس کی تڑپ اور لگن انتہائی قابل تعریف ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں میں اسی جذبہ ٔ صادق اور اسی بے چینی اور جد و جہد کی ضرورت ہے جو رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ مسلم محلوں اور علاقوں کا جائزہ لیں گے تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بیکار اور گلی کوچوں میں فحش ہنسی مذاق، لڑائی جھگڑوں اور دیگر شیطانی حرکتوں میں مصروف نظر آئے گی، محلے ٹولے کے لوگ بھی پریشان ہیں اور گھر کے افراد بھی عاجز آچکے ہیں اور انہیں ان کے حال پر ہی چھوڑ رکھا ہے آخر کریں بھی کیا اور کہاں تک انہیں سمجھائیں اور کیا سمجھائیں کیونکہ وہ کسی کی سنتے ہی کہاں ہیں ۔ رہی سہی کسر موبائل نے پوری کردی ہے، دن ہو یا رات بس اسی میں مصروف رہتے ہیں ان کے پاس وقت ہی کہاں ہے کہ وہ کالج جائیں اور مستقبل سازی کریں ۔

 آپ دور نہ جائیں اپنے آس پاس کے کسی ہندو علاقے میں چلے جایئے وہاں شب میں دس گیارہ بجے ہی سنا ٹا ہوجاتا ہے وہ جلدی سوجاتے ہیں اور تڑکے ہی اٹھ جاتے ہیں اور پھر پہاڑ جیسے طویل دن کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں ، کاروبار ہویا حصول تعلیم ہر جگہ کامیابی ان کے قدم چومتی ہے، اس کے برعکس ہم رات بھر جاگتے ہیں اور دن بھر سوتے ہیں اور زندگی کی ہر دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ اس سے بھی بڑا المیہ تو یہ ہے کہ اپنے پیچھے رہ جانے کا احساس بھی کہیں گم ہوتا جارہا ہے، آخر یہ کون سی بے خبر ی ہے۔ آپ سن رہے ہیں نا !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔