اسلام میں عورت کا مقام ومر تبہ

سلمان کبیر نگری

اسلام اللہ کا نازل کر دہ وہ مکمل دن ہے جس میں انسانی فطرت اور اس کے تقاضوں کو ہر حال میں ملحوظ رکھا گیا ہے چونکہ انسان اور اس کی فطرت کا خالق اللہ ہے اور دین اسلام کا نازل کرنے والا بھی وہی ہے اس لئے فطرت کے تقاضوں سے جینا آگاہ وہ ہے کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا، جنسی، نفسانی خواشات، مرد عورت کا باہمی جذب وانجذاب یہ ایک فطر ی جذبہ ہے اللہ تعالی نے انسانی زندگی کو مرد عورت کے دوخانوں میں تقسیم کیا ہے اور فرمایا ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجالتسکنوالیہا وجعل بینکم مود ۃ ورحمتہ، ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون (سورہ الروم 21)اللہ تعالی نے مرد سے عورت کی تخلیق فر ما کر باہمی محبت ومودت اور سکون وطمانیت عطا کیا اور ــ۔۔خلق منہا زوجہا۔۔کے ذریعہ جہاں خلقت نسواں کے اصل کی رہنمائی کی ہے وہیں اس کی عظمت وبرتری کو بھی اجاگر کیا ہے، جب مرد سے عورت کی تخلیق ہو ئی تو خلقت کے اعتبار سے مرد کو عورت پر تفوق وبر تری حاصل نہ ہو گی کیوں کہ سماج کے لئے جس طر ح مرد ضروری ہے اسی طرح عورت کا وجود بھی ناگزیر ہے اور اسی لئے مردعورت میں سے ہرایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے اور ادھورے ہو تے ہیں اور دونوں سے مل کر ہی سماج کی گاڑی آگے بڑھتی ہے گویا کہ مرد وعورت انسانی زندگی کی گاڑی کے دو پہئے ہیں جن میں سے اگر کو ئی متاثر یاخراب ہوجائے تو ز ندگی کی گاڑی اپنے طبعی انداز میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔

اسلام آیا تو اس نے عورت کو مرد کے ہم پلہ قرار دیا اور دونوں کو حسن عمل سے آراستہ ہو نے کی تاکید کی، اوردونوں کوحسن عمل پر جنت کی بشارت اور بد عملی جہنم کی وعید سنائی جب کہ اسلام سے قبل دنیا کے تمام مذاہب میں عورت ایک بے وزن اور بے وقعت شئے تھی، اور اسے سامان تجارت کی طر ح خریدو فروخت اور ہبہ و وراثت میں استعمال کیا جا تا تھا، دنیا کے تما م تمدن ہائے حیات میں اسے ایک ناکارہ گناہ سے آلودہ اور شیطان کے کارندے کے طور پر دیکھا جاتا تھا، نتیجتاًعصمتوں کی پا مالی، عفتوں کی بے حرمتی اور آبروئوں سے کھلواڑ چند باعث تشویش نہ تھی، مگر اسلام انسانی نسب اور انسانی آبرو کی حفاظت جس کا نصب العین ہے، اس نے ایک طرف تو بدکار ی، فحاشی اور زناجیسے جرائم کو حرام قرار دیا اوردوسر ی طرف اس کے جملہ اسباب پرپابندی لگاکر عورت کی نسوانیت اور اس کے مقام بلند کی حفاظت فرمائی، گھروں میں ٹھہر نے کا حکم دیا بے پردہ باہر گھومنے سے منع کیا، بلا محرم سفر کرنے پر پابندی لگائی، غیر مردوں کے ساتھ خلوت سے روکا، نا محرموں سے لچک دار آواز میں گفتگوممنو قرار دیا، خوشبو سے معطر ہو کر مردوں کے درمیان گذرنے کو جرم قرار دیا، شرمگاہوں کی حفاظت کی تاکید کی، نظروں کو نیچی رکھنے پر ابھارا، شوہر کی اطاعت کا حکم دیا اور اس کی نافرمانی سے روکا، بچوں کی تر بیت اور ان کی نگہداشت کی تر غیب فر مائی، حجاب اور پردہ کا تاکیدی حکم دے کر جمال وآرائش کی نمائش پر قدغن لگائی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ عورت گھر کی چہار دیواری میں ایک فر مانبردار بیوی، ایک اطاعت شعار بیٹی اور لائق اطاعت ماں بن کر مسرت وسکون سے لبریز زندگی کی راہیں طے کر نے لگی اور اسلامی سماج کی ہر جگہ جنت نشاں بن گئی مگر اغیار کو اسلامی سماج کی یہ بر تری اور اس کی مامونیت ذرا بھی پسند نہ آئی اور انہوں نے اس کے خلاف سازش رچنا شروع کیا اور مسلمان عورت کو گھر سے باہر نکالنے، پردہ سے آزاد کرنے، اور مرد سے بغاوت کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے ایک لمبے عرصہ تک سازشوں کے جال بنے گئے اور دام ہمرنگ زمیں میں عورت کو شکار کر لیا گیا، احمد امین، طہ حسین، محمود ابوریہ، سعد زغلو ل نجیب محفوظ، ہد ی شعراوی، اور مصطفے کمال جیسے لوگ اسی سازشی ٹولہ کے چشم وچراغ تھے، عورتوں کے ان کے طبی میدان عمل گھر سے نکال کر دفتروں اور آفسوں میں اس لئے بٹھایا گیا تاکہ مردوں کی ہوس رانی کی تسکین کا سامان فراہم ہو سکے مگر اس کم فہم صنف کو سمجھایا یہ گیا کہ اس طر ح تم مرد کی گرفت اور اس کی حاکمیت سے چھٹکارا تو پا گئی مگر آفسوں میں اپنے پاس اور دیگر ساتھیوں کی گرفت میں تڑپ کر رہ گئی، اور جنبش لب کی جرات نہ کر سکی، کیوں کہ خود کر نے والے کا کوئی علاج نہیں ہے، پہلے صر ف شوہر کی تھی اب بہت سے لو گوں کی ہو گئی ہے، پہلے مامون ومحفوظ تھی، کوئی سرپھرا اس کی طرف للچائی نظر نہیں اٹھا سکتا تھا مگر اب چوراہوں، نائٹ کلبوں، پارکوں، رقص گاہوں اور انجمنوں کی زینت بن چکی ہے، گزر گاہوں اور عوامی مجمعوں میں شیطانی نمائندوں کی نگاہیں اس کا پیچھا کر تی ہیں، نہ عورت محفوظ ہے نہ اس کی آبرو، نہ اس کی عزت محفوظ ہے اس لئے بڑے بڑے شہروں میں اغوا، زنا بالجبر، اور اجتماعی عصمت دری جیسے واقعات مسلسل رونما ہوتے رہے ہیں جس کا آئے دن ہم اخبار کی سرخیوں پرمشاہدہ کرتے رہتے ہیں، آج کل حال یہ ہے کہ ایک شخص خواہ وہ بازار کا تاجر ہو، کار خانہ کا ملازم، کالج کا طالب علم ہویا آفسوں کا کا افسر، وہ کسی ہو ٹل میں بیٹھا ہو یا پارک میں سیرو تفریح کر رہا ہو، ہر جگہ صنف نازک معصیت کا پیغام لئے موجودہوتی ہے، زندگی کا کو ئی گو شہ ایسا نہیں ہے جس میں مو جودہ تہذیب نے عورت کا مرد کے ساتھ کام کر نا لازم نہ کر دیا ہو، یہی نہیں بلکہ مر دو زن کی اس یکجائی کو اس قدررنگین اور جاذب نظر بنا دیا کہ قدم قدم پر نگاہیں بھٹکنے لگتی ہیں اور بے راہ روی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے پر جنسی بھوک اور فاقہ کی کیفیت طاری ہے یوں محسوس ہو تا ہے کہ شہوانیت ہر طرف بھوک کا پیالہ لئے گھوم رہی ہے ۔

اسی لئے اسلامی تعلیمات میں فطرت سے ہم آہنگی اور فطری تقاضوں کی موافقت پائی جاتی ہے اوردین میں صرف اسلام وہ مذہب ہے جو ہ دعوی کر سکتا ہے اس کا کوئی حکم اور کوئی قانون فطرت کا مخالف نہیں ہے، اس لئے عورت کی ناموس اور اس کی عصمت کاتحفظ صرف اسلامی سماج میں ہے، سماج کو بے حیائی، بد کرداری، فحاشی، جنس پرستی، اغوا، بد کار ی، اور زنا بالجبر جیسے واقعات جرائم سے پاک کرنے کی ضمانت صرف اسلام میں ہے، دنیا کی تمام تحریکات اور تمام نظریات فطرت سے بغاوت کی وجہ دم توڑ چکے ہیں، اسی لئے دنیا کو ایک بار اسلام کا تجربہ بھی کر نا چاہئے ۔

عافیت چاہو تو آئو دامن اسلام میں        

 یہ وہ دریا ہے کہ جس میں ڈوبتا کو ئی نہیں

اللہ تعالی سے دعاہے کہ ہمیں مکمل طور سے اسلام کو سمجھنے اور اس کو سماج میں برتنے کی تو فیق عطافر مائے، آمین

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    جناب سلمان صاحب کی بات بہت حد تک درست ہے .کیونکہ جہان اسلام عورت کو پردے کا حکم دیتا ہے وہاں مرد کو نیچی نگاہ رکھنے کا بھی حکم دیتا ہے,
    پر بد قسمتی کہی جائے یا صرف تصویر کا ایک رخ کہ ھم مرد صرف ایک ہی طرف رخ کیے ہوتے ہیں,,
    قرآن مجيد میں سورہ نور کی آیت نمبر 30 /31

    قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۳۰﴾

    مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے ، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالٰی سب سے خبردار ہے ۔

    وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۱﴾

    مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سےr پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے ، اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔

تبصرے بند ہیں۔