تاکہ جوانی رہے تیری بے داغ۔۔۔!

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اگر آج نوجوانوں کے مسائل ومشکلات کا جائزہ لیا جائے اور اس کے پس پردہ وجوہات واسباب کے پتہ لگانے کی کوشش کی جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جن اہم مسائل سے آج کا نوجوان دوچارہے وہ جنسی بے راہ روی اور شدوذہے۔

اللہ عزوجل نے انسان کی فطرت میں یہ داعیہ اورجذبہ رکھا ہے کہ وہ بے ساختہ اپنے غیر جنس کی طرف میلان اور رجحان رکھتا ہے اور یہ بھی اللہ عزوجل کا قاعدہ اور قانون ہے کہ مرد وعورت دو جنس کی آپسی قربت ورفاقت ہی پر انسانیت کے بقااور استمرارکا دارومدار ہے، اس لئے اسلام انسان کے اندر موجود اس جنسی ہیجان اورفطری داعیہ اور جذبہ پر بالکل بند نہیں لگاتا اور نہ ہی اس پر بالکل پابندی عائد کرتا ہے؛بلکہ اس جنسی ہیجان اور فطری داعیہ کی تکمیل کی صحیح راہیں متعین کرتا ہے اور اس کے حدود وقیود کا تعین کرتا ہے، جو حدود اسے دیگر حیوانات سے بھی امتیاز عطا کرتے ہیں، اس لئے اسلام جنسی شدوذ اور بے راہ روی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا، امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک جہاں مرد وعورت کے آپسی رضامندی کے ساتھ اختلاط اور قربت کو حکومتی سطح پر سندِجواز حاصل ہے، اسکے بھیانک نتائج کا خودآج وہ اپنے آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور معاملہ اس حد کو پہونچ چکاہے کہ اس پر بندلگانا اب ان کے بس کا نہیں رہا۔ اب یہ واقعات خود ہمارے ملک میں بھی آئے دن پیش آرہے ہیں۔ اسی تناظر میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس جنسی بے راہ روی کے اسباب اور علاج کو قیدِ تحریر میں لایا جارہا ہے۔

امریکہ کی ورازت صحت نے   1991ء میں اس جنسی بے راہ روی کے حوالے سے جو رپوٹ جاری کی ہے اس میں اس نے بیس سال کے دوران جو غیرشادی شدہ لڑکیاں اس بے راہ روی کی شکارہوچکی ہیں، ان کے اعدادوشمارذکرکئے ہیں، ان لڑکیوں کی عمرجو 15؍سے 19؍سال کے درمیان کی ہے، ان کی تعداد  1970ء میں 28؍ فیصدتھی،  1990ء میں ان کی تعداد بڑھ کر51؍فیصدہوگئی ہے۔ یہ امریکی وزارتِ صحت کی مخفی رپورٹ ہے، انہوں نے اس رپورٹ کے نتیجے میں ایڈزجیسے بھیانک مرض کے بڑھ جانے کے خدشات کا بھی اظہارکیاہے(جریدۃ الأمۃ الاسلامیہ، شمارہ 80؍محرم 1409)

پھر آگے اس رپورٹ میں یہ ذکر کیا ہے کہ ان میں سے پندرہ سال کی لڑکیاں  1970 میں 4؍فیصد اس انحراف اور جنسی بے راہ روی کا شکارہوئی تھی، ان کی تعداد  1990ء میں 25؍فیصد ہوگئی ہے، سترہ سال کی لڑکیاں 32؍فیصد انحراف کا شکارتھی  1990ء میں ان کی تعداد51؍ فیصد ہوگئی اور 19؍سال کی عمرکی لڑکیوں کا تناسب جو 48؍فیصد تھا  1990ء میں بڑھ کر 75؍فیصد ہوگیا۔ امریکہ کی وزارت صحت کی ایک اور رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کہناہے کہ ہرگورے سو امریکیوں میں چار ایڈس کے شکارہیں اور ہر کالے سومیں 17؍فیصد اس بیماری میں مبتلاہیں (جریدۃ المسلمون، شمار:30، رجب: 1406ھ)امریکہ ’’دن فر‘‘نامی شہر کے اعدد و شمار کے مطابق وہاں کی ثانوی(سکنڈری) کے 48؍فیصد طالبات ہرسال بغیرشادی کے حاملہ ہوتی ہیں۔ انگلینڈ کے ’’ویلز‘‘ نامی علاقے میں صرف تین مہینے کے دوران 17 ؍ ہزار 745؍کو حمل گرائے گئے۔ فرانس میں صرف ایک سال 1981ء میں ناجائز بچوں کی پیدائش کی تعدادایک لاکھ تھی، جن کی مجموعی شکل ہرسوبچوں میں 12؍حرامی بچوں کی ہوتی ہے۔ امریکہ میں ناجائز اورحرامی بچوں کی پیدائش کا  تناسب ہر سال 447؍ہزاراور 900 بچوں کا ہے جن کی مجموعی آبادی میںتناسب ہرسو میں چودہ بچوں کا ہوتاہے، ان میں سے گیارہ ہزارناجائز بچے غیرشادی شدہ ۱۵؍سال کی بچیوں سے تولد ہوتے ہیں۔ اورصرف کیلفورنیا ریاست میں ہر20؍منٹ میں ایک لڑکی کا اغواء کیا جاتا ہے(جریدۃ المسلمون، جمادی الأخری:1412)مغرب اور امریکہ میں جنسی بے راہ روی اور شدوذاس قدربڑھاہے کہ خود وہاں کی عورتیں برجستہ یہ کہتی ہیں کہ انھوں نے شادی سے پہلے اوربعدبھی کئی ایک غیرشرعی اور ناجائز تعلقات قائم کئے ہیں، ان کے اس بے راہ روی میں کوئی رکاوٹ نہ قانونی طورپر تھی اورنہ خاندانی اور ازواجی طورپر(الأخبار:2؍مئی 1990۔ شوال :1410)مغربی ممالک میں باوجودیکہ ان کے یہاں جنسی بے راہ روی کے دروازے بالکل کھلے ہوئے ہیں، اسکے باوجود بھی لڑکیوں کے اغواء کے واقعات اس قدرپیش آتے ہیں۔

یہ تو پرانی اعدادوشمار ہیں اس وقت جب کہ اس رپورٹ پربیس سال کاعرصہ گذرچکاوہاں کی جنسی بے راہ روی کی حالت کیا ہوگی، اللہ عزوجل ان کے اس انحراف اورشدوذکو کیسے برداشت کررہاہوگا۔ اس قدربے راہ روی کے ساتھ ان کا خاندانی نظام، میل ومحبت والے جذبات، ماں باپ، بھائی بہن، میاں بیوی، بیٹابیٹی، وغیرہ میںپیارااور مضبوط رشتہ کہاں باقی رہتا ہوگا، ؟وہاں کس قدرافراتفری ہوگی؟۔

دراصل اس تحریر اور رپورٹ کے ذریعے توجہ اس بات کی دلاناہے کہ الکٹرانک اور پرنٹ میڈیاکے ذریعے آج کل ہماری مشرقی معاشرے کو بھی اس مغربی معاشرے کے رنگ میں رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جو کہ نہایت پرخطراور پر کھٹن اور دنیاوآخرت کو تباہ کرنے والی، بیماریوں اور عذاب خداوندی کو دعوت دینے والی راہیں ہیں۔ اسلام نے تو ان جنسی بے راہ روی کے چور دروازوں پر پہلے سے پہرے لگا دیئے ہیں کہ اسلام نہ ہی ان جنسی جذبات کو بالکل دبائے رکھنے کا حکم کرتاہے اور نہ ہی ان کو بے مہاروبے لگام چھوڑدیتا ہے، اس نے درمیانی ایک ایسی راہ اس بارے میں متعین کی ہے، عزت بھی محفوظ رہی، خاندانی نظام بھی قائم رہیں، نسب بھی محفوظ ومامون ہو، اوربرائیوں اور منکرات پر بھی قدغن لگارہے۔

جنسی بے راہ روی سے حفاظت کیوں کر ممکن ہے ؟

          1۔       ان برائیوں اور جنسی بے راہ روی کے چور دروازے بندہی رہیں اسکے لئے اسلام نے نگاہ نیچے رکھنے کا حکم کیاہے، کیونکہ بے راہ روی اور گمراہی کا چور دروازہ یہیں سے کھل جاتاہے، یہ زہر آلودتیریہیں سے جسم وجان میں پیوست ہوتے ہیں، ارشادباری عزوجل ہے:’’آپ فرمادیں مومن مردوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریںیہ ان کے لئے زیادہ ستھرا ہے بیشک اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں‘‘۔ (النور:30)

    اورآگے عورتوں کو بھی مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’اورآپ فرمادیں مومن عورتوں کو کہ وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں، اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی زینت(کے مقامات)کو ظاہر نہ کریں،  مگر جو اس میں سے ظاہر ہو (جس کا چھپانا ناگزیرہے)اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں‘‘۔ (النور:31)

2۔       شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ جب لڑکیاں بالغ ہوجائیں تو کشادہ اورطویل لباس پہناکریں، کہ ان کا جسم جھلکنے نہ پائے، اعضاء جسمانی نمایاں نہ ہوں، اوربرائی کو دعوت دینے والے دروازے بندرہیں۔ نبیٔ کریم انے حضرت اسماء ؓبنت ابوبکرؓسے فرمایا:اے اسماءؓ!جب لڑکی بالغ ہوجاتی ہے، تو اسکے سوائے ان اعضاء کے کسی اور کو دیکھنے کی اجازت نہیں’’انّ المرأۃ اذابلغت المحیض‘لم یصلح أن یری منھاالّاھذا‘‘اور حضوراکرم انے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی جانب اشارہ فرمایا:(ابوداؤد:باب فیما تبدی المرأ ۃ من زینتھا، حدیث:4104)

آج کل کی لڑکیاں لباس کے پہننے میں ان امورکا کس قدراہتمام کرتی ہیں؟؛بلکہ وہ تو اپنے آپ کو نمایاں کرنااور اپنے حسن کا اعلان کرنا چاہتی ہیں، خصوصاًبرقع کا استعمال جو پردے کے لئے ہوتاہے، اس میں اس قدرزیب وزینت اور میناکاری کی جاتی ہے کہ بجائے پردہ کے وہ خودکشش اوربری نظروں کودعوت دینے والا ہوگیاہے۔ جہاں آج کل اس حوالے سے مرد کو جس قدر مجرم گردانا جاتا ہے،  اس سے کہیں بڑھ کر عورتیںخود اس قسم کے واقعات اور حادثات کے پیش آنے کا پیش خیمہ اور سبب ہیں

3۔       اوریہ بھی فرمایاکہ:اپنی زینت اورپازیب وغیرہ کی جھنکارکا اظہارکرتی ہوئیں، سوئے ہوئے شہوانی جذبات اُبھارتے اوراکساتے نہ پھریں، ارشادِباری عزوجل ہے:اوروہ اپنے پاؤں (زمین پر)نہ ماریں کہ وہ جو اپنی زینت چھپائے ہوئے ہیں پہچان لی جائیں۔ (النور:31)

4۔       اورعورتوں کو نرم لب ولہجہ کے اختیارکرنے لوچ ولچک کے ساتھ بات کرنے سے بھی منع فرمایا کہ اس روحانی امراض میں مبتلادل لالچ کرنے لگیں گے۔ ارشادباری عزوجل ہے:ائے نبی کی بیویوں!تم کسی عام (عورتوں) کی طرح نہیںہو، تم پرہیزگاری اختیارکرو تو گفتگو میں ملائمت نہ کروکہ تاکہ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ لالچ (خیال فاسد)نہ کرے۔ (الأحزاب32)

مطلب یہ ہے کہ جب عورتیں اجنبی مردسے مخاطب ہوںتوگفتگوکا اندازنرم نہ ہو؛کہ اس کی وجہ سے مردوں کی شہوت بھڑکے گی، اور ان کے دل برائی کی تمناکرنے لگیں گے، جب لہجہ اور تخاطب میں اجنبی کے ساتھ نرم رویہ اختیارکرنے کو اسلام نے منع کیا ہے تو اسے برائی اور خباثت کے دروازے کھول دینے کے مترادف کہا ہے، جو لڑکیاں اجنبی لڑکوں سے اشاروںکنایوں میں بات کرتی ہیںآپس میں مزاج ومذاق ہوتاہے، آپس میں چھیناچھپٹی ہوتی ہے، دیرسویریہ چیزیں بدکاری کی راہوں پر لے جائیں گی، کہاں گئی امت مسلمہ کی ماں بہنوں کی وہ غیرت وعفت جو ہر جگہ اجنبیوں کے ساتھ اپنی مسکراہٹیں بکھیرتی اور دعوت ِگناہ دیتی نظرآتی ہیں۔ حضرت اسماء ؓبنت ابوبکرؓایک دفعہ پیدل ایک کھیت سے واپس آرہی تھیں، تو راستے میں حضوراکرم اسے سامناہوا، تو آپ انے ان سے فرمایا:سواری پر پیچھے سوارہوجاؤ، تو انہوں نے حضوراکرم اسے معذرت کی؛چونکہ ان کے شوہر عبداللہ بن زبیرؓنہا یت ہی غیرت اور حیاء دارشخص تھے، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے جذبات کو کسی بھی طرح ٹھیس پہونچے؛ بلکہ انہوں نے حضوراکرم اسے چہرے سے چہر ہ ملانااور بات کرنا تک گوارہ نہیں کیا، جن سے کسی طرح گفتگوکا موقع مل جائے یہ حضرات صحابہ کرام کی تمنا ہواکرتی تھی، ایک طرف تو یہ عفت وحیاء کی مجسمِ پیکر ہماری مائیں او ربہنیں ہیں، اوردوسری ہماری آج کل کی مائیں بہنیں ہیںجو بے محابااجنبی مردوں سے اختلاط رکھتی ہیں، ان سے دل لگیاں کرتی ہیں۔

آج کل نوجوان اجنبی لڑکے اور لڑکیاں پارکوں میں ناشائستہ حرکات وسکنات میں ملوث نظرآتے ہیں یا کسی جگہ محوگفتگونظرآتے ہیں، اگر اسلامی قانون کا نفاذہوتا اوراسلامی سزائیں جاری کی جاتیں تو وہ اس بے محابااختلاط اور میل جول میں ہر گزنظرنہ آتیں۔ حضرت امام مالک ؒفرماتے ہیں:اگر دواجنبی مردوعورت کے مابین خلو ت غیرشرعیہ ہوجائے اور دونوں ایک بندکمرے میں پائے جائیں اور وہ دونوں اپنے کپڑوں میں موجودہوں تو ان کو تیس کوڑے مارے جائیں گے، اور ایک اجنبی مردوعورت کسی راستے میں ایک دوسرے سے محوگفتگونظرآئیں تو دونوں کو بیس کوڑے مارے جائیں گے اور اگر کوئی شخص کسی لڑکی کے پیچھے چلتاہوانظرآئے اور وہ اس لڑکی کو اشارہ کررہا ہو، اور وہ اس کی جانب اشارہ کررہی ہو، تو ان دونوں کو دس کوڑے لگائے جائیں گے، اور اگر زناکے شروع کرتے ہوئے نظر آئیں، تو ساٹھ کوڑے مارے جائیں(اور زنامیں ملوث نظرآئیں سوکوڑے غیر دی شدہ کواوررجم شادی شدہ کو)

5۔       اسلام نے عفت و عصمت کی حفاظت، برائی اوربدکاری کے دروازوں کوبندکرنے کے لئے نکاح کی ترغیب وتعلیم دی ہے، اسلام نے تجردوتنہائی اور غیرازواجی زندگی کو ناپسند کیا ہے اسلئے مسلمان کو اگر شادی کی قدرت اوراستطاعت ہوتو اس سے ہرگزاعراض نہیں کرناچاہیے، صرف یہ کہتے ہوئے کہ میں عبادت کے لئے فارغ ہونا چاہتا ہوں، بالکل دنیاسے الگ تھلگ ہوکر یکسوئی کے ساتھ متوجہ الی اللہ ہوناچاہتاہوں، اس راہبانہ اورتجردانہ زندگی اور اس کی کارگذاریوں کو ملاحظہ کیجئے:برطانیہ کے ’’ڈیلی میل‘‘اخبارکے مطابق  80فیصد پادری اور نن انحراف اور بے راہ روی کے شکارہیں اور 20فیصد توبری طرح جنسی شدوذمیں مبتلا ہیں، (جریدۃ المسلمون: شمارہ 357، جمادی الآخر1412)جب بعض صحابہ کرام میں اس قسم کی راہبانہ، زاہدانہ زندگی کے رجحانات نظرآئے تو آپ ا  سختی سے منع کیااور فرمایا یہ دراصل اسلام کے طریقہ کاراورسنتِ نبوی اسے انحراف کے مترادف ہے۔ آپ ا نے ان سے فرمایا:میں تم میں اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ جاننے والااور اس سے ڈرنے والا ہوں،  لیکن میں نماز بھی پڑھتاہوں اور سوتابھی ہوں، روزہ بھی رکھتاہوں، افطاربھی کرتا ہوں، عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔ (بخاری:باب الترغیب فی النکاح: حدیث506)اسی لئے نبی کریم انے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا:ائے نوجوانوں کی جماعت!جو تم میں سے نکاح کی استطاعت رکھے نکاح کرلیں،  چونکہ نکاح نگاہوں کو نیچی کرتاہے اور شرمگاہ کی عفت وعصمت کاضامن ہے۔ ( باب من لم یستطیع الباعۃ فلیصم:حدیث 40261)اس لئے علماء نے کہا ہے کہ:نکاح اگر انسان کرسکتاہو تو اس پر نکاح کرنا فرض ہے، محض تنگیٔ معاش، اخراجات کے نا کافی کو بہانابنا کر نکاح سے رکا نہیں جاسکتا، اللہ عزوجل نے عفاف وپاکیزگی کے طالب نکاح کرنے والے اپنی جانب سے رزق کے مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ارشادباری عزوجل ہے:اورتم نکاح کرو اپنی بیوہ عورتوں اور اپنے نیک غلاموں اور اپنی کنیزوں کا، اگر وہ تنگ دست ہوتواللہ انہیں غنی کردے گا اپنی فضل سے۔ (النور:32)اور ایک دفعہ رسول اکرم  انے ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ نے تین اشخاص کی امدادکا اعلان کیا ہے، ایک پاکیزگی اور عفت کے لئے نکاح کرنیوالے کی دوسرے مکاتب جو ادائیگی کاارادہ رکھتاہواور تیسر ے اللہ عزوجل کے راستہ میں جہادکرنے والے کی۔ (ترمذی:باب ماجاء فی المجاہد :حدیث:1655)

بہرحال اگر جنسی اس بے راہ روی کے سیلاب پر بند لگانا ہے تو مسلم معاشرہ کوبھی آگے آنا ہوگا جونوجوان معاشی کمزوری کی وجہ سے نکاح کی استطاعت نہ رکھتے ہوں ان کی امدادواعانت کرنی ہوگی، زکاۃ اور دیگر اسلام کے مالی واجبات کے ذریعہ ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرناہوگا، ان کوآمادۂ نکاح کرنا ہوگا، اسطرح معاشرہ عفیف اور پاکیزہ ہوگا، جس کے اچھے اثرات نہ صرف اس فردِواحد سے وابستہ ہونگے، بلکہ سارامعاشرہ ان اچھے اثرات سے مستفید ہوگا، خودمسلمانوں کی فلاحی اور رفاہی تنظیموں کوبھی اجتماعی شادیوں کے نظم کے ذریعے سماج اور معاشرہ کی ایک بڑی ضرورت کو پوراکرناہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔