تبصرہ کتاب – نکات و جہات

نام کتاب:  نکات و جہات

مصنف: احمد علی جوہر

صفحات:  216

قیمت: 123روپے

ملنے کا پتہ: ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی۔ 6

مبصر: تبریز حسن جعفری

’’نکات و جہات‘‘  احمد علی جوہر کے تحقیقی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں باب فکشن کے تحت چھہ مضامین، باب شاعری کے تحت چار مضامین اور متفرقات کے ذیل میں تین مضامین ہیں۔ کل تیرہ مضامین پر مشتمل یہ کتاب منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں متن کے مطالعہ، اس سے معنی کشید کرنے اور اسے پیش کرنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، وہ خاصا دلچسپ ہے۔ ان مضامین میں سے کچھ مضامین کی نمایاں خوبی ہی یہی ہے کہ متن کو سامنے رکھ کر ایسی بامعنی اور دلچسپ بحث کی گئی ہے کہ قاری اس کو پڑھ کر متن کے کئی زاویوں سے روشناس ہوتا ہے اور ایک لطف وانبساط کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ کچھ مضامین میں گہرائی وگیرائی کی کمی کا بھی احساس ہوتا ہے۔ ایک نوجوان اسکالر سے بہت زیادہ گہرائی وگیرائی کی توقع شاید کی بھی نہیں جاسکتی۔ خاصی ریاضت وجانفشانی کے بعد ہی تحریر میں وہ پختگی پیدا ہوتی ہے جو ممتاز دانشوروں کا طُرّئہ امتیاز کہی جا سکتی ہے۔ ابھی مصنف عمر اور مطالعہ کی جس منزل میں ہیں، اس منزل پہ بھی انھوں نے جس تگ ودو سے کام لیا ہے اور جتنی محنت سے یہ تحریریں قلمبند کی ہیں، اس میں ان کی بالغ نظری صاف محسوس کی جاسکتی ہے اور ان کی دیدہ ریزی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ ان مضامین میں مصنف کے وُسعتِ مطالعہ کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ کہیں کہیں تو مطالعہ کی گہرائی قاری کو چونکا دیتی ہے اور اس کی معلومات میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ مصنف کی بے پناہ تنقیدی بصیرت اور علمی ذہانت کا احساس دلاتی ہے۔ اس کتاب میں مصنف کا طریقہ کار غیر رسمی نظر آتا ہے۔ انھوں نے زیادہ تر تشنہ پہلوئوں پر مضامین لکھے ہیں۔ دیوندر اسّر، اقبال متین، پرویز شاہدی اور پروفیسر حنیف نقوی پر مضامین ایسے ہی مضامین کہے جاسکتے ہیں۔ ان اُدباء کو ناقدین اور اہلِ علم وادب نے خاطر خواہ توجّہ نہیں دی۔ مقامِ خوشی ہے کہ نئی نسل کے ایک ہونہار قاری نے اس جانب توجّہ دے کر خلا کو پُر کرنے کی مستحسن سعی کی ہے۔ ایک مضمون ہم عصراُردوافسانے میں حاشیائی کرداروں کی عکّاسی پر ہے۔ طویل ہونے کے باوجود خاصا دلچسپ اور نئے اندازِ نقد ونظر کا حامل ہے۔ احمدفراز، میراجی اور پروین شاکر کی شاعری پر بھی جدّت ونُدرت کے حامل، بصیرت افروز مضامین ہیں۔ ان مضامین میں مذکورہ شعراء کی شاعری میں ڈوب کر غوّاصی کرتے ہوئے ایک نئے جہانِ معانی کو سامنے لایا گیا ہے۔ پوری کتاب کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں نقد وتحقیق کے معیارووقار کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ بات کہنے کا دلچسپ انداز بھی خاصا متاثرکن ہے۔ فکروبصیرت سے پُر مضامین پر مشتمل یہ کتاب اُردوادب میں خوشگوار اضافہ کاباعث ہے جو مصنف کی ذہانت وعلمیت کا غمّاز ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ان کی سُنہری آمد اور اچھا کرگزرنے کے امکانات کا پتہ دیتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اہلِ علم وادب مصنف کی اس کاوش کو تحسین کی نظروں سے دیکھیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔