تحریکِ آزادی میں علماء کی خدمات اور ہماری ذمہ داریاں

محمد ریاض قاسمی

ہندوستان کی تاریخ نے عجیب و غریب موڑ لیے ہیں کبھی تو اس پر غیر مسلم بادشاہوں نے راج کیا، تو کبھی لودھیوں نے اس پر اپنا سکہ چلایا اور کبھی تو مغلوں نے اس سے پیار کیا اور اسے اپنا محبوب بنایا اور کبھی انگریزوں نے اس پر اپنی پالیسیاں چلائیں اور ان سارے ادوار میں انگریزوں کا دور سب سے خطرناک، دشوار کون اور پریشان کن دور تھا تو اسی کے دوسری طرف یہ دور سب سے خوبصورت دور بھی تھا، تابناک دور حق پرستوں اور حق کے جیالوں کے لئے تھا، تو  خوب صورت دور دھوکہ بازوں اور   دغابازوں کے لیے تھا، پریشان کل حالات آزادی ہند کے متمنیوں کے لئے تھا تو آرام دہ دور غلامی میں زندگی گزارنے کی آرزو رکھنے والے چیلوں کے لئے تھا، اور آزادی ہند الفاظ کا ایک ایسا مرکب ہے جس کو سنتے ہیں متعدد لیڈروں کا نام ذہن میں آتا ہے مگر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

انگریزوں کی آمد:

بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ سن 1498 میں پرتگال والے( یورپ) ایک عرب ملاح واسکو  ڈی گاما کی مدد سے ہندستان کے ایک ساحل کلکتہ پہنچتے ہیں اور وہاں تجارت کی داغ بیل ڈالتے ہیں، ان کی دیکھا دیکھی کر کے ہالینڈ اور انگلستان والے بھی اس میں حصہ لیتے ہیں،اس طرح ان کے قدم جمنے لگتے ہیں،چند دنوں کے اندر انگلستان کے 101 تاجروں نے 30 ہزار پونڈ جمع کر کے "ایسٹ انڈیا کمپنی” کی بنیاد ڈالتے ہیں اور 1602 میں ان کا پہلا جہاز ہندوستان آتا ہے،اور آہستہ آہستہ حکومتی اور فوجی کاموں میں دخل دینے لگتے ہیں اور آخرکار انگریزوں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کا مکمل پلان کرکے بادشاہ وقت "شاہ عالم ثانی” سے یہ الفاظ لکھواتے ہیں:

” خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا”

علماء اور مسلمانوں کا جنگ کے لئے تیار ہونا:

ان الفاظ کو سنتے ہی پورا قوم آگ بگولہ ہوجاتی ہے اور شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا کہ جب حکومت انگریزوں کے ہاتھ میں ہے اور اب مسلمانوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں رہا تو انہوں نے اسی وقت انگریزوں کے خلاف فتوی جاری کیا چنانچہ اسی ایک فتوے نے انگریزوں کے سارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا اور اسی غم و غصہ کی وجہ سے انگریزوں نے فتاوی کا مذاق اڑانا شروع کیا، اور آج بھی وہی لوگ فتوی کا مذاق اڑاتے ہیں جن کی زندگیوں میں فتوے نے کہیں نہ کہیں اپنا اثر ڈالا ہو،چنانچہ اسی فتوے کی وجہ سے بنگال کے نواب سراج الدولہ میدان کارساز میں آتے ہیں، اسی فتوی کی وجہ سے کرناٹک کے شیر میسور ٹیپو سلطان آگے بڑھ کر انگریزوں کا قلع قمع کرتے ہیں اس طرح انگریزوں کے خلاف جنگیں ہو رہی تھی،ان سارے جنگوں کے پیچھے علماء کا بہت بڑا ہاتھ تھا یعنی علماء اسلام نے انگریزوں کو اس ملک سے نکالنے میں بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے اسی فتوی کے بعد امداداللہ مہاجرمکی، شاہ اسمعیل شہید اور سید احمد شہید میدان میں اتر کر رائے بریلی سے چل کر پورے ملک کا دورہ کرکے ملک کے لوگوں میں آزادی کی آگ لگادیتے ہیں اور آزادی کی خواہش کو زندہ کرتے ہیں اور پورا ملک ہندو مسلم سب مل کر انگریزوں کے خلاف نکل پڑتے ہیں۔

علماء ظلم کی چکی میں:

1857 کی جنگ آزادی نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا تھا، ہر طرف ظلم و بربریت کا دور دورہ تھا، پورا ملک گولیوں کے آوازوں اور توپوں کی دنادنوں سے لرز رہا تھا، سب سے زیادہ ظلم کے شکار علماء بنے کیوں کے 1857  کے بعد انگریزوں کے ایک وفد نے ہندوستان کا دورہ کیا اور انگلستان کو رپورٹ پیش کی کہ جب تک ہندوستان میں علماء اور قرآن ہے اس وقت تک ہم ہندوستان پر قابض نہیں ہوسکتے، چنانچہ وہاں سے حکم آیا کہ علماء اور قرآن کو ختم کردیا جایے،چنانچہ اب علماء کے اوپر جو مظالم کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا اس کو لکھتے ہوئے  انگریز کا قلم بھی جواب دے دیتا ہے، ان مظالم کو دیکھ کر انگریز کی آنکھوں کا پانی خشک ہو جاتا ہے، ایک انگریز مورخ مسٹر ٹامسن لکھتا ہے کہ 1857 سے لے کر 1864 تک ہندوستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال ہیں، ہزاروں علماء کو دلی کے چاندنی چوک میں لٹکا دیا گیا ہے، وہی مورخ مسٹر ٹامسن لکھتا ہے کہ شاہی مسجد کے صحن میں پھانسی کا پھندہ بنا کر سو سو علماء کو لایا جاتا اور انہیں پھانسی دے دی جاتی ہے، مسٹر ٹامسن لکھتا ہے غریب علماء کو   انتہائی بے دردی سے تپتے ہوئے آگ کے گڑھوں میں دھکیل دیا جاتا، اور وہی مورخ لکھتا ہے کہ ان الفاظ کو لکھتے ہوئے میرا دل کانپ جاتا ہے کہ ایک مرتبہ چالیس علماء کے ایک وفد کو لایا گیا اور ان کو بے دردی سے مارا گیا اور ان کے کپڑے پھاڑ دیے گیے، ننگا کردیا گیا انھیں تپتے ہوئے آگ کے شعلوں کے قریب لایا گیا ان سے کہا گیا کہ تم اتنا ظلم کیوں برداشت کرتے ہو؟ صرف ہمیں اتنا کہدو کہ ہم 1857 کی جنگ میں شریک نہیں تھے، مگر قربان جائیے ان علماء پر کہ انہوں نے اس طرح کہنے سے انکار کردیا اور حق کے خلاف سر کٹانا پسند کیا مگر سر جھکانا پسند نہیں کیا گویا وہ بزبان حال یہ کہہ رہے تھے:

ﺳﻮﭼﺎ ﮨﮯ ﮐﻔﯿﻞ ﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮨﺮ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﻖ لیں گے

ﻋﺰﺕ ﺳﮯ ﺟﯿﮯ ﺗﻮ ﺟﯽ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ ﯾﺎ ﺟﺎﻡ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﭘﯽﻟﯿﮟ گے

ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻋﯿﺎﮞ ﮨﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﭘﺮ ﮨﻢ ﭘﮭﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺑﮭﯽہیں

ﯾﺎ ﺑﺰﻡ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﮩﮑﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﯾﺎ ﺧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎ ﮐﺮ ﺩﻡ ﻟﯿﮟ گے

علماء نے قوم کو کیا دیا:

آج بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ علماء نے کیا دیا اور علماء نے قوم کے لئے کیا کیا؟ میں کہنا چاہتا ہوں کہ علماء نے ہندوستان کی آزادی کے لئے گھروں کو فراموش کیا،سکون کو ختم کر دیا اور اپنی جانوں تک کو قربان کردیا،مجھے بتایے کہ تحریک ریشمی رومال چلانے والے کون تھے؟ نہ کوئی سیاسی پارٹی والے تھے اور نہ ہی حکومت کا دعویٰ کرنے والے، بلکہ ریشمی رومال کی تحریک چلانے والے خالص علماء تھے،جو بڑے بڑے نعرے ملک کی آزادی کے لئے لگائے گئے اس کے خالق علماء ہی تھے،  اہم اہم جو سلوگن آزادی کے لیے استعمال کے گئے وہ علماء کی مرہون منت ہیں، چنانچہ” انقلاب زندہ آباد” کا نعرہ لگانے والے مولانا حسرت موہانی ہیں،” ہندوستان دارالحرب ہے” کا نعرہ لگانے والے مولانا عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اور Quite india کیوٹ انڈیا( ہندوستان چھوڑو) اور Simon Go Back سمن گوبیاک کا نعرہ لگانے والے یوسف مہر علی ہی ہیں، اتنا سب ہونے کے باوجود پھر بھی کہتے ہیں کہ علماء نے کیا کیا؟ میر تقی مہر نے کیا خوب کہا ہے:

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

مولانا جعفر تھانیسری اور ان کے رفقاء کا تذکرہ:

مولانا جعفر تھانیسری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقا کا حال پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، خود مولانا جعفر تھانیسری رحمۃ اللہ علیہ تاریخ کالا پانی میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاتھوں سے لہو بہتا تھا اور ہمارے پاؤں سے خون نکلتا تھا، ہمیں قید خانے میں بند کردیا گیا تھا اور ہم میں سے ہر ایک کو لوہے کا ایک ایک طوق پہنا دیا گیا پھر ہمیں مال گاڑی کے ڈبے میں باندھ دیا گیا، تین مہینوں کے بعد جب وہ مال گاڑی ملتان پہنچتی ہے تو انگریز پولیس نے کہا کہ کل صبح تمہاری پھانسی ہوگی، ہم سب نے ہنسا  تو انگریز نے پوچھا کہ کیا تمہارا دماغ خراب ہے؟ تو ہم نے کہا اب تو زخموں سے نجات ملے گی اور ہم شہید ہوں گے اور سیدھے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں گے، یہ بات انگریز کو پسند نہ آئی، چنانچہ اس نے 14 سال کے لئے کالا پانی کے جیل میں ہمیں بھیج دیا اسی وقت مولانا نے یہ شعر کہا:

مستحق دار کو حکم نظر بندی ملا

اور کیا کہوں کیسے رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی

موجودہ زمانہ میں علماء کی ذمہ داریاں:

اب سوال یہ ہے کہ جب علماء نے اتنی قربانیاں دیں اور اپنی جانوں تک کو قربان کردیا پھر بھی آج انہیں کیوں فراموش کردیا گیا، یہ بہت اہم اور بڑا سوال ہے اگر ہم اس کے جواب کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو ہمارے سامنے چند چیزیں واضح ہو کر آینگی، سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ علماء نے جو قربانیاں دی ہیں ان ساری کی ساری قربانیوں کا تذکرہ اردو کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہیں،ملک کی دوسری زبانوں میں ان کا تذکرہ نہیں ہے، اگر ہے تو بہت ہی کم ہے، اسی لئے سب سے اہم کام یہ ہے کہ ان تذکروں کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ مقامی زبانوں میں ترجمہ کرایا جائے اگر ممکن ہو تو اسکولوں کے نصاب میں انہیں جگہ دی جائے اور دوسری چیز یہ سامنے آتی ہے کہ علماء میدان سیاست سے کوسوں دور ہیں، سیاست کو نجاست غلیظہ سمجھ کر اس سے اجتناب کیا جارہاہے، علماء میدان سیاست میں آئیں اور عام مسلمان سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کریں، یاد رکھیں جس قوم میں سیاسی بیداری نہ ہو وہ قوم صفحہ ہستی سے ختم کر دی جاتی ہے،اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 14 فیصد ہے لیکن سیاست میں چار فیصد بھی نہیں ہیں، تیسری اور اہم چیز یہ ہے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے، اسلام تعلیم سے کسی کو نہیں روکتا، دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور قوم کے نونہالوں کو اچھی سے اچھی تربیت دیں اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں جیسے سول سروسس کی ترغیب دلائیں،کیونکہ مسلمانوں کی تعداد سول سروس میں صرف  %3۔2 ہیں جو نہ کے درجہ میں ہے، اور خوش آئندہ بات یہ ہے کہ حال ہی میں کچھ مسلم نوجوان سول سروس کے امتحانات میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے ہیں انہیں دیکھ کر ان سے رہنمائی حاصل کریں۔

تبصرے بند ہیں۔