یعقوب یاور: ناول سے ترجمہ تک کا سفر

مشرّف عالم ذوقی

ایسے نہیں چلتے۔ ۔

۔۔ مجھے ایسے ہی چلنا پسند ہے۔ ۔

— راستہ کافی دشوار ہے۔ ۔ہوا تیز۔ ۔؟

آنکھوں میں بلا کی سنجیدگی۔ ۔کچھ لوگوں کو ہوا کا ساتھ پسند نہیں ہوتا۔ ۔ہوا کے خلاف چلتے ہیں۔

۔۔ منزل آسان نہیں ہوگی۔ ۔؟

۔۔ منزل کیسے چاہئے۔ ۔منزل کی امید کمزور لوگ کرتے ہیں۔

انیس سو اسی کے اس پاس ادبی سفر شروع ہوا تو وہ دوسروں سے مختلف نظر آیا۔ اس میں ایک مخصوص بے نیازی تھی۔ وہ منزل کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔ اس میں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ اس نے کیا لکھا ہے۔ وہ کسی تحریک سے وابستہ بھی نہیں تھا۔ ۔لکھنا اس کے لئے جنوں نہیں تھا۔ ۔وہ ٹھہر ٹھہر کر اپنی بات کہتا تھا۔ نمائش اسے پسند نہیں تھی۔ ۔لیکن ادب کا ایک بڑا مقصد تھا اس کے پاس۔ یہ دنیا بدلی جا سکتی ہے۔ اور وہ اس راستے پر بے خطر چل پڑا۔ ۔

١٩٨٢ ، گیا سے ناوک حمزہ پوری کی ادارت میں ایک رسالہ شایع ہوتا تھا ، قوس۔ اس رسالہ نے ایک خصوصی شمارہ نیی نسل کے افسانہ نگاروں کے نام شایع کیا تھا۔ فہرست میں ایک نام یعقوب یاور کا بھی تھا۔ بات چھتیس برس پرانی ہو گیی۔ ان چھتیس برسوں میں محبت کا جو رشتہ قائم ہوا ، وہ اب بھی میری زندگی کا حاصل ہے۔ اس درمیان کتنے ہی اتار چڑھاؤ اہے۔ میں آرا سے دلی آ گیا۔ ۔یعقوب یاور افسانہ نگاری سے ترجمے اور ناول نگاری کے میدان میں آ گئے۔ عمدہ افسانے لکھے۔ کم لکھا لیکن خوب لکھا۔ افسانوی افق واقعات و حادثات سے روشن ہوتا تو علامتیں خاموشی سے اپنے جال پھیلا دیتیں۔ یعنی تہہ دار معنویت انکے اسلوب کا حصّہ تھا۔ اب معلوم ہوا کہ کسی مدیر کی تنقید کی زد میں آ کر وہ افسانہ نگاری سے دور چلے گئے۔ یہ ہمارا ذاتی نقصان ہے۔ انہوں نے ادبی رسائل سے دوریاں بنا لیں اور ناول نگاری کے میدان کو خوش آمدید کہا۔ جہاد لکھا ، تو وقت سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہو گئے۔ ہندوستان کے سیاسی و سماجی منظر نامہ پر غور کریں تو مسلمانوں کے لئے ہر دوسرا دن ، پہلے دن سے زیادہ بھیانک ثابت ہورہا ہے۔ آزادی کے ستر برسوں میں مسلمانوں کو ہلاک کرنے والے ، فرضی انکاﺅنٹر کرنے والے ، مسجدیں شہید کرنے والے ، کریمنل ریکارڈ والے تمام مجرم جیل سے بری کردیے گئے۔ اور معصوم مسلمانوں پر جیل کی سلاخیں سخت ہوگئیں۔ آسمان میں ناچتے گدھ شکاری بن گئے کہ کیسے مسلمانوں کا شکار کیاجائے۔ نئے نئے طریقے ایجاد کئے جانے لگے۔ہم ایک ایسے پر آشوب وقت میں داخل ہوچکے ہیں کہ آسمان پر اڑتے ہوئے اور زمین پر گھومتے ہوئے شکاری ہر طرف ، ہر جگہ مسلمانوں کے فراق میں ہیں۔ نشانے پر مسلمان ہیں۔ جہاد صرف ہمارے ملک کا منظر نامہ نہیں ہے بلکہ اس ناول میں عالمی پس منظر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہاں وہ مسلمان بھی شامل ہیں ، جو کچھ تنظیموں کے بہکاوے میں آ کر جہادی بن جاتے ہیں۔ یعقوب کا بیانیہ مضبوط ہے۔ کردار نگاری سے مدد لینا جانتے ہیں اور ہر کردار کو ابھرنے کا پورا موقع دیتے ہیں۔ لیکن صرف کہانی بیان کرنا ان کا جوہر نہیں۔ وہ اپنے غیر معمولی مشاہدے اور ویژن میں ایک دنیا کو شریک کرتے ہیں۔

دل من ، عزازیل، جہاد جیسے ناول اور پاپیلاں ، گاڈ فادر، سدھارتھ جیسی کتابوں کے ترجمے پڑھئے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یعقوب یاور نے خود کو اردو کے فروغ کے لئے وقف کر دیا ہے۔

’دل من ‘ یعقوب یاور کا تمدن سندھ کے پس منظر میں لکھا گیا ایک بڑا ناول ہے۔ ناول کے پہلے باب کا عنوان غروب آفتاب ہے۔ ناول کی شروعات اس جملے سے ہوتی ہے۔ ۔کرہ عرض پر گنہگار انسان کی بد اعمالیوں سے شرمندہ سورج پردۂ مغرب میں منہ چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ۔

اب ذرا اس جملے کی معنویت پر غور کریں تو ہزاروں برسوں کی تھذیب کے دروازے ہماری نظروں کے سامنے کھل جاتے ہیں۔ شہر پناہ کے دروازے بند تھے۔ تاریکی بڑھ رہی تھی۔ ۔موت کا رقص جاری تھا۔ ۔دیواتنی ، دل من کے اس چوبی پھاٹک کو دیکھ رہی تھی ، جس کے دروازے اس کے لئے بند ہو چکے تھے۔ ۔ تین ہزار قبل مسیح تمدن سندھ کا زمانہ دیواتنی کی کہانی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو آج کی لہو لہو دنیا کے افسانے ہمیں شرمسار کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ کیا کچھ نہیں بدلا۔ ؟۔ ہزاروں برس بعد بھی وہی تھذیب ، وہی استحصال ، وہی جنوں ، وہی ہجومی تشدد۔ ۔وہی دریاۓ سندھ۔ ۔وہی سرخ موجیں۔ ۔ دنیائے ادب میں ایسے ادبی ناولوں کی مثال کم ہے جن کے موضوعات تواریخ کے خستہ اور بوسیدہ صفحوں سے اٹھائے گئے۔ ایسے شہہ پاروں کی ادبی قدروقیمت اپنی جگہ ہے۔ تاریخ کو ادب پارہ بنا دینا آسان نہیں۔ ۔ یعقوب یاور قدیم زمانے کی سیر کو لے جاتے ہیں لیکن وقت پنڈولم کی طرح ڈولتا ہوا ہمیں ہر بار ماضی سے حال میں لے آتا ہے۔ ہم قدیم تھذیب کا مشاہدہ کرتے ہیں تو حال کی زمین زیادہ پتھریلی اور لہو لہان دکھایی دیتی ہے۔ تخیل کو افسانہ بنا لینا ہم میں کتنوں کو آتا ہے ؟ یعقوب کی بڑی خوبی ہے کہ موضوعات کو گرفت میں لیتے ہیں تو ایک زمانہ انکے ساتھ ہو جاتا ہے اور نہایت خوش اسلوبی سے وہ معمولی قصّے کو بھی خوبصورت داستان میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، اسی طرح کے موضوع پر مستنصر حسین تارڑ نے ایک ناول لکھا تھا۔۔۔۔ بہاﺅ۔۔۔۔ اس وقت مجھے خیال آیا تھا کہ اس طرح کے موضوع پر کوئی ناول اپنے یہاں ہندوستان میں کیوں نہیں لکھا گیا۔ دونوں ناول اپنی جگہ اہم ہیں۔ دونوں کے موضوعات مختلف ہیں۔ تارڑ صاحب کا اپنا اسلوب ہے۔ یعقوب کا اپنا رنگ۔ یعقوب کے پاس خوبصورت زبان کا سرمایہ بھی ہے۔ دل بن کا شمار میں ہندوستان میں لکھے جانے والے اہم ناولوں میں کرتا ہوں۔

تیرتھ رام فیروز پوری اور مظہر الحق علوی کے بعد مغربی ادب کے تراجم کی باگ ڈور یعقوب یاور نے بھی سنبھالی ہے۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ یقینا وہ ایک بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ یعقوب یاور کو ان تراجم سے کئی فائدے ہوئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ناول لکھنے کے فن سے واقف ہیں۔ جزئیات نگاری، کردار نگاری اور واقعہ کو پیش کرنے کا ہنر انہیں آتا ہے۔ آج اردو ادب میں جن زیادہ تر ناولوں کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں۔ وہاں سب سے بڑا مسئلہ Readability کارہا ہے۔ ناول کا کرافٹ کیا ہے، ہمارے زیادہ تر ناول نگار اس سے واقف نہیں۔ ۔۔۔ یعقوب کمال فنکاری سے یہ مشکل مرحلے طے کرگئے ہیں۔ اب ان کے پاس وقت ہی وقت ہے۔ ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ۔بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ ۔ ہمیں ان کے ناولوں کا انتظار رہے گا۔ اور ساتھ ہی انکے افسانوں کا بھی۔ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ۔ سفر جاری رہتا ہے۔ ۔۔کسی کے کہنے سے قدم رک نہیں جاتے۔ تنقید ہم سے ہے۔ ۔ہم تنقید سے نہیں ہیں۔ تنقید نے کب اپنا اعتبار قائم کیا ؟ تنقید آج بھی گمراہ ہے۔

وہ اس خوفناک موسم میں احتجاج کی صدا بن کر ہمارے ساتھ ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ ادب نمائش نہیں ، اور اس لئے وہ قلم کو آزاد نہیں چھوڑتے۔ وہ ہوا کے مخالف چلنا پسند کرتے ہیں کیوں کہ سچا ادب انہی راستوں سے ہو کر گزرتا ہے۔

یعقوب یاور کے ترجمے 

یعقوب یاور کی تین کتابیں میرے سامنے ہیں  – ماریو پوزو کا ناول گاڈ فادر ، اگاتھا کرسٹی کا ناول کرسمس ، اور کیں فولیٹ کا ناول سینٹ پیٹرس برگ۔ یعقوب یاور کی خوبی ہے کہ وہ ترجمے میں تخلیقی رنگ بھر دیتے ہیں۔ سب سے پہلے مین  فرام سینٹ پیٹرس برگ کی بات کرتے ہیں۔ 1914 ء میں، جرمنی جنگ کے لئے ہتھیار جمع  کر رہا ہے یہ مکمل طور پر سیاسی ناول بھی ہے اور رومانی بھی۔ ۔ برطانیہ اور جرمنی دونوں کو  روس کی ضرورت ہے۔ ارل والڈن اور وینسٹن چرچل نے روس کے ساتھ ایک خفیہ راز کی منصوبہ بندی کی۔ ایک شخص انگلینڈ میں  ہے اور  تاریخ پر اپنے نشان چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایک خوبصورت خاتون، ایک نوجوان لڑکی اور ایک محبوب جو انارکسٹ ہے ، حادثے برسوں کی مسافت کے بعد انہیں ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ پھر ایک دلچسپ کہانی سیاست اور رومان کے ساتھ جب تاریخی واقعات کو سمیٹے سامنے آتی ہے تو ہر قدم حیرت کے جزیرے روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اگاتھا کرسٹی کا ناول کرسمس جسے عمدہ کلاسک میں شمار کیا جاتا ہے۔ کانن ڈائل اور اگاتھا کرسٹی کے ناولوں کو انکے فین نے ادبی درجہ بھی دیا۔ یہ ایک خوشگوار کہانی ہے جو کرسمس  کے پس منظر میں  ایک کلاسک قتل کے راز کا گواہ بن جاتی  ہے۔ ایک  دولت مند بوڑھا اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہا ہے۔ کرسمس کے موقع پر وہ اپنے بچوں سے ملنے کا خواہشمند ہے۔ اس نے ایک حسین زندگی بسر کی ہے۔ کرسمس کی رات اس بوڑھے کا قتل ہو جاتا ہے۔ ہرکیول ل پویرٹ ، شرلاک ہومز اور آر سین لوپن  میرے پسندیدہ کرداروں میں سے ایک ہیں۔ اس ناول میں کیی  مقام ایسے تھے ، جب مجھے ڈکنس کے ناول د گریٹ ایکسپکتیشنس کی یاد آی۔ ایک بزرگ خاتون جو اپنے دو نوکروں کے ساتھ رہتی ہے۔ ڈکنس کردار نگاری میں ماسٹر ہے۔ اگاتھا نے بھی بزرگ مرد کی کردار نگاری میں مہارت سے کام لیا ہے۔ خاص کر اس وقت جب وہ کرسمس کے دن اپنے تمام بچوں کو یکجا کر انکا مذاق  اڑاتا  ہے۔ یعقوب یاور نے ترجمے کا حق ادا کیا ہے۔

ماریو پوزو کا ناول گاڈ فادر امریکا اور سسلی کے مافیا گروہ کی حیرت انگیز واقعات پر مشتمل کہانی ہے۔ گاڈ  فادر کا بننا آسان نہیں۔ اسکے لئے صبر و تحمل اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مافیا خاندان ایک دوسرے کے دشمن ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔

یہ تینوں ہی ناول بیسٹ سیلر ہونے کے باوجود اس قابل ہیں کہ انکا مطالعہ کیا جائے۔  کالج کے دنوں میں ، تیرتھ رام فیروز پوری اور مظہر الحق علوی کا عاشق تھا۔ تلاش کر کر کے ان کی ہر ترجمہ کی ہوئی  کتاب پڑھ ڈالی۔ دونوں کے ترجمے ایک دوسرے سے کافی الگ تھے۔ میں دونوں پر فدا تھا۔ علوی صاحب کے یہاں تخلیقی رنگ بہت حد تک حاوی تھا۔ یاققوب یاور افسانہ نگار بھی ہیں ، ناول بھی لکھتے ہیں اور ان دنوں ترجموں کو بھی وقت دے رہے ہیں۔ انکا ایک ترجمہ پاپیلاں  میں کیی برس قبل پڑھ چکا تھا۔ سجاد ظہیر نے والٹیر کے ناول کاندید کا ترجمہ کیا تھا اس ترجمے کا تخلیقی بہاؤ  میں آج تک فراموش نہیں کر سکا۔ یہی حال  ظ  انصاری کے ترجموں کا ہے۔ کچھ نایاب ترجمے قرۃالعین حیدر نے بھی کیے۔ ترجمہ نگاری ایک مشکل فن ہے۔ یعقوب یاور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ ہماری زبان کو قابل قدر ترجموں کے ذریعہ سیراب کر رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔