گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم

جمالؔ کاکوی

شکار کر گیا ان کو شکار کا موسم
نشا ہرن ہوا تشنہ خمار کا موسم

جو کام جس کا ہے وہ کام اس کو ہی سا جے
جہاں نے دیکھا ترے اقتدار کا موسم

بنایا راہ بر تو کارواں کو لوٹ گیا
گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم

چمن کا جلد ہی مالی بدلنے والا ہے
بہار لائے گا اب کے بہار کا موسم

نہ کوئی دوست ہے ان کا نہ کوئی دشمن ہے
مفاد پیشِ نظر کاروبار کا موسم

ہواکاظلم تھاطوفان کی حکومت تھی
کہ برگ و بار پہ تھا انتشار کا موسم

خزاں کی رت میں بھی فصلِ بہار آتی ہے
بدلتا رہتاہے اپنے دیار کا موسم

جو وعدہ کرکے نہ آیا توجاں پہ بن آئی
عذاب گزرا ترے انتظار کا موسم

وہاں بھی ہم نوا ہمدرد لوگ ملتے ہیں
مگر ہے پھر بھی غریب و الدیار کا موسم

سرحد پہ بغض کی اور نفرتوں کی دیواریں
فضا ہے جنگ کی رسواہے پیار کا موسم

جمالؔ آپ کو پاؤں پہ اپنے جانا ہے
کچھ اور جھیلئے گردوغبارکاموسم

تبصرے بند ہیں۔