تذکرہ شعراء راجپوتانہ 1950ء تک

 حکیم سید ظل الرحمن

(ابن سینا اکیڈمی، تجار ہ ہاؤس، دودھ پور علی گڑھ۔ یو پی)

ہندوستان کے اردو نقشہ میں راجستھان کو شروع سے اہمیت کا ایک خاص درجہ حاصل رہا ہے۔ اس کی شاندار علمی روایت و وراثت اس کے کسی ایک شہر تک محدود نہیں ہے۔ پورے خطہ میں ادبی آبیاری کے نشان بکھرے ہوئے ہیں ۔ آزادی کے بعد اگرچہ ایک ہندی صوبہ کے طور پر اس کا شمار کیا گیا، لیکن آزادی سے پہلے اس صوبہ کی متعدد غیر مسلم دیسی ریاستوں کی سرکاری زبان اردو تھی۔ اور سارے امور سلطنت اور کاروبار ریاست اردو میں انجام دیے جاتے تھے۔ بلا استثنا ہر پڑھا لکھا آدمی آدمی اردو سے واقفیت رکھتا تھا۔ اردو کے سرکاری مدارس کا جال تھا۔ جگہ جگہ سرکاری مطابع قائم تھے۔ ان مطبعوں سے بڑے پیمانے پر اردو کتابوں کی اشاعت عمل میں آئی تھی۔ وہاں کے فرمانرواؤں نے اردو کی سرپرستی اور اس کی  ترقی و فروغ  میں جو حصہ ادا کیا ہے وہ تحقیق کا ایک اہم موضوع ہے۔

اَلوَر جیسی چھوٹی ریاست کی سرکاری زبان مہاراجہ جے سنگھ کے زمانہ میں ۱۹۱۰ تک اردو رہی۔ مہاراجہ خود نہ صرف اردو بلکہ فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ وحشت تخلص کرتے تھے۔ ’چمن ِوحشت‘ کے نام سے اُن کا مرتَّب کردہ دو جلدوں میں شعرائے ہند کا انتخاب اُن کے ادبی ذوق کا آئینہ ہے۔ ۱۸۵۷ کے بعد دلی سے لٹے پٹے بہت سے صاحبانِ کمال نے راجستھان کی دیسی ریاستوں جے پور، بھرت پور، الوراور  قرولی کا رخ کیا۔ الور میں راجہ شیو دان سنگھ قدر دان ِسخن تھے اُنہوں نے اُن کی قدر دانی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس زمانے میں الور کو’ چھوٹی دلی ‘کہا جانے لگا تھا۔ اس عہد کے الور کی تصویر کشی کرتے ہوئے ہیرا لال شہرت الوری نے کہا تھا :

شور ہے شعر و سخن کا ہر طرف

ان دنوں الور جہان آباد ہے

الور پہنچنے والوں میں ذوق کے شاگردوں میں ظہیر، تشنہ، تصویر اور غالب کے شاگردوں میں میر مہدی مجروح اور سالک تھے۔ مہاراجہ نے، رجب علی بیگ سرور، صاحبِ فسانہ عجائب کو بھی اپنے یہاں بلایا تھا۔ اس عہد کے دوسرے شعرا ءمیں انور دہلوی، احمد مرزا آگاہ، نواب مردان علی خاں رعنا، اور مرزا مائل دہلوی قابل ذکر ہیں۔

غالب کے والد عبداللہ بیگ کا راجہ بختاور سنگھ کے زمانہ میں الور سے تعلق رہا اور ریاست ہی کا ایک مقام راج گڑھ اُن کی اَبدی آرام گاہ بنا۔ غالب کی بیوی کے بھانجہ اور منہ بولے بیٹے نواب زین العابدین خاں عارف کے صاحبزادہ اور نواب ضیاءالدین احمد خاں نیّر و رَخشاں کے داماد باقر علی خان کامل جن کی غالب نے مثل حقیقی پوتے کے پرورش کی تھی اور جو انہیں حد درجہ عزیز تھے، وہ بھی اس رئیس کی قدر دانی کے سبب الور رہے۔ راؤ راجہ نے منیر شکوہ آبادی کو بھی الور کی دعوت دی تھی۔ شیو دانمسنگھ  کے انتقال، اکتوبر ۱۸۷۴ کے بعد مہاراجہ منگل سنگھ مسند نشین ریاست ہوئے۔ اب تک فارسی سرکاری زبان تھی۔ منگل سنگھ کے زمانہ میں اردو سرکاری زبان قرار پائی۔

اردو کے حوالے سے راجستھان کی ادبی سرگرمیوں پر اگرچہ گزشتہ تین چار دہائیوں میں کئی عمدہ کتابیں سامنے آئی ہیں ، اور متعدد لوگوں کے ذریعہ قابل قدر کام انجام پائے ہیں ۔ آزادی کے بعد جے پور نے خاص کر اردو کے ایک بڑے مرکز کے طور اپنی پہچان بنائی ہے۔ جے پور میں نہ صرف اردو ذریعہ تعلیم کے اسکول موجود ہیں اور وہاں کی اردو اکاڈمی ایک فعال کردار ادا کر رہی ہے بلکہ یونیورسٹی میں اعلیٰ تحقیقی کاموں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں کے اردو داں طبقہ نے نا مساعد حالات کے باوجود زبان کی حفاظت اور اشاعت کا جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ تحسین و ستائش کے قابل ہے۔

راجستھان کے موجودہ اردو  محققین میں شاہد احمد جمالی اس لحاظ سے اعتبار اور امتیاز کے حامل ہیں کہ انہوں نے بطور خاص راجستھان کو اپنا مرکز ِنظر اور موضوع ِتحقیق بنایا ہے۔ اس سلسلہ کی اب تک ان کی جو کتابیں شایع ہوئی ہیں ان میں ’غالب اور راجستھان ‘،’راجستھان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین‘ ’نیرنگ راجستھان ‘،’راجستھان میں اردو ریختہ و دوہے‘، ’مشاہیرِ اَدب راجستھان‘، ’راجستھان کی خواتین نثر نگار ‘،’چند شاعرات راجستھان ‘،’راجستھان کی ادبی فضاؤں کی سیر مفتوں کوٹوی ‘،’خانوادہ  نجف علی خاں کی راجستھان میں سو سالہ علمی خدمات‘، ’راجپوتانہ میں تلامذہ داغ کی شعری خدمات ‘ اور پھر خاص جے پور کے تعلق سے ’ریاست جے پور میں بیرونی شعرا کی شعری خدمات‘،

’جے پور میں اردو افسانہ ‘،’جے پور میں فن تاریخ گوئی کی روایت ‘، ’جے پور کا دبستان شاعری ‘ جیسی کتابیں ہیں ۔ اِن  مستقل تصانیف کے علاوہ اُن کے بعض تحقیقی مقالات نے بھی اس مطالعہ کو وسعت دی ہے۔ ’راجستھان میں سنسکرت کے اردو تراجم‘، ’جنگ آزادی اور راجستھان کے شعرا ‘،’داغ اور راجستھان ‘،’راجستھان کی پہلی مطبوعہ داستان وقائع راجکمار‘، ’راجپوتانہ کا ادبی پس منظر‘، ’آزادی کے بعد راجستھان کی پہلی افسانہ نگار خاتون ‘،’جے پور میں مزاحیہ شاعری کا اہم شاعر‘، ’حکمران جے پور اور مسلم صوفیہ‘، ’ریاست جے پور میں اردو نثر و نظم کا ارتقا‘، اس سلسلہ کے وہ مضامین ہیں جن سے ریاست کی ادبی خدمات سامنے آتی ہیں ۔

شاہد احمد جمالی نے راجستھان میں موجودبعض اہم مخطوطات کا مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ ٹونک سے متعلق انیسویں صدی کا ایک نادر و نایاب مخطوطہ، ’مثنوی دلہن نامہ‘، ’جے پور میں انیسویں صدی کے دو اہم مخطوطے‘، ایک نایاب تاریخی مخطوطہ ’حکیم قادر علی ماہر کا  قلمی دیوان‘،’مخطوطہ مثنوی نو دو نہ نام‘، کے لیے ہم اُن کے شکر گزار ہیں ۔ اُن کے ذریعہ پہلی مرتبہ ان مخطوطات سے ہم متعارف ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کے لیے بھی راجستھان کے ایک معتبر صحافی سید نظیر حسن سخا کی ادبی خدمات کو موضوع بنایا ہے۔

   پیش نظر کتاب’ ’تذکرہ شعرائے راجپوتانہ ۱۹۵۰ تک ‘‘ اُن کی ایک معرکۃ الآرا تصنیف ہے۔ اس کی قدر ومنزلت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے  کہ اس کی پہلی جلد بڑے سائز کے سات سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں اجمیر، الور، اودے پور، بھرت پور، ٹونک، دھولپور، قرولی، جھالاواڑ، جے پور، شیخاواٹی، جودھپور، بوندی اور کوٹہ کے۵۲۹ شعرا ءشامل ہیں ۔ اِن میں ایک سو تین ہندو اور ۱۴ اینگلو انڈین شعرا کی تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ راجستھان کو صحیح معنیٰ میں گنگا جمنی تہذیب کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ یہ تعداد تقریباً کتاب کے پانچویں حصے کے برابر ہے۔ اس سے اس صوبہ میں اردو کی مقبولیت اور غیر مسلموں میں کثرت سے شعر و ادب کے ذوق کا اظہار ہوتا ہے۔

اردو شعرا کا یہ ضخیم مجموعہ بعض اُن ملک گیر شہرت کے حامل شاعروں کے حالات سے بھی واقف کراتا ہے جن کے بارے میں دوسری جگہ اس قدر معلومات فراہم نہیں ہوتی ہیں۔

شاہد احمد جمالی کا یہ مجموعہ اُن کے وسیع مطالعہ کا نمایاں اظہار ہے۔ انہوں نے بکثرت کتابوں کے مطالعے کے ذریعہ اردو شعرا کے تذکروں کی تاریخ میں جو جگہ بنائی ہے وہ انہیں ہمیشہ پایندہ رکھے گی۔ ساٹھ برس کی عمر تک پہنچتے پہونچتے انہوں نے جس قدر وقیع کام انجام دیا ہے وہ اردو کے بڑے اداروں کے کاموں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ انشااللہ دوسری جلد بھی جلد منظر عام پر آئے گی اور اس میں مزید شعرا کا احاطہ کیا جائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔