تراویح: رمضان المبارک کی ایک اہم عبادت!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

 ماہِ رمضان المبارک کی آمد ہوچکی ہے ۔رمضان المبارک میں اللہ تعالی نے مختلف عنوانات کے تحت عبادتوں کے عجیب و غریب نظام کو رکھا ہے، ایک مسلمان اگر صحیح معنوں میں رمضان المبارک کو گزارے گا اور اس میں رکھی گئی عبادتوں کو انجام دے گا تو اس کے نتیجہ میں اس کو روحانیت کا ارتقاء نصیب ہوگا ،دل کی ظلمتیں دور ہوں گی ،اور عبادتوں کا شوق و جذبہ نصیب ہوگا ۔رمضان المبارک میں جو دو اہم عبادتیں رکھی گئیں ہیں ان میں سے ایک روزہ اور دوسری تراویح ہے ۔تراویح رمضان المبارک کی خاص عبادت ہے جو صرف رمضان ہی میں ادا کی جاتی ہے ۔تراویح گویا رمضان المبارک کی شان ہے ، اس کی الگ نورانیت ہوتی ہے ۔مسلمانوں کے گھرانوں میں نور و نکہت کامنظر،اور ماحو ل و معاشرہ میں چہل پہل تراویح کے ذریعہ آتی ہے۔آئیے ایک نظر تراویح کی اہمیت اور عظمت پر ڈالتے ہیں تاکہ رمضان المبارک کی یہ مہتم بالشان عبادت پورے ذوق وشوق کے ساتھ انجام دے سکیں ۔

تراویح کامطلب:

    تراویح ترویحہ کی جمع ہے ، ترویحہ سے مراد وہ نشست ہے جس میں کچھ راحت لی جائے ،چوں کہ تراویح کی چاررکعتوں پر سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر راحت لی جاتی ہے ، اس لئے تراویح کی چار رکعت کو ایک ترویحہ کہا جاتا ہے اور چوں کہ تراویح میں پانچ ترویحے ہیں اس لئے ا ن پانچوں کا مجموعہ تراویح کہلاتا ہے ۔( رمضان المبارک : فضائل و مسائل:51)علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ:جو نماز رمضان کی راتوں میں باجماعت ادا کی جاتی ہے اس کا نام تراویح رکھا گیا ہے ، اس لئے کہ جب صحابہ کرام پہلی بار اس نماز پر مجتمع ہوئے تو وہ ہر دو سلام کے بعد آرام کیا کرتے تھے۔( فتح الباری :4/294ریاض)

تراویح کی اہمیت:

    تراویح کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:شھرکتب اللہ علیکم صیامہ وسننت لکم قیامہ ۔( ابن ماجہ : حدیث نمبر؛1318)یعنی اس مہینہ میں اللہ تعالی نے تم پر روزے فرض فرمائے ہیں اور میں نے اس کے قیام ( تراویح ) کو تمہارے لئے سنت قرار دیا ہے۔آپ ﷺ  نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:من قام رمضان ایما نا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذبنہ۔( بخاری :حدیث نمبر؛36)یعنی جس نے رمضان میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کیا ( یعنی تراویح پڑھی) تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔

تراویح سنت ِ مؤکدہ :

   تراویح کا اہتمام نبی کریم ﷺ کے بعد سے برابرہوتا رہا اور اس تاریخ سے لے کر آج تک امت اس کا بھرپور اہتمام کرتی آرہی ہے اسی وجہ سے نمازِ تراویح کو سنت ِ موکدہ کہاگیا ہے۔جس کام پر آپ ﷺ نے یا آپ ﷺ کے خلفاء  راشدین نے ہمیشہ کیا ہوا اور اس پر مواظبت فرمائی ہو اس کو سنت موکدہ کہتے ہیں ، لہذابیس رکعت تراویح پڑھنا بھی سنت موکدہ ہے ۔( رکعات ِ تراویح:15)علامہ وھبۃ الزحیلی لکھتے ہیں : صلوہ التراویح اور قیام شھر رمضان عشرون رکعۃ وھی سنۃ مؤکدۃ۔( الفقہ الاسلامی وادلتہ :2/72)یعنی تراویح یا قیام رمضان بیس رکعات ہیں اور یہ سنت موکدہ ہیں ۔امام غزالیؒ فرماتے ہیں :التراویح وھی عشرین رکعۃ وکیفیتھا مشہورۃ وھی سنۃ مؤکدۃ۔( احیاء العلوم :1/202)یعنی تراویح کی نماز بیس رکعتیں ہیں ،ا ن کی کیفیت مشہور ہے اور یہ نماز سنت مؤکدہ ہے ۔

 بیس رکعت تراویح:

    نبی کریم ﷺ نے تراویح کی جماعت صرف تین دن فرمائی ،کیوں کہ امت پر کہیں یہ نماز فرض نہ قرار دی جائے ،باقی یہ کہ نبی کریم ﷺ نے بیس رکعت تراویح کا اہتمام فرمایا : چناں چہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ:ان رسول اللہ ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر۔( المعجم الکبیر للطبرانی:حدیث نمبر؛11941)رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں :ولما جمع عمر علی ابی بن کعب کا ن یصلی بھم عشرین رکعۃ ثم یوتر بثلاث۔( فتاوی ابن تیمیہ:11/520 بحوالہ رکعات ِ تراویح:12)کہ جب حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام ؓ کو حضرت ابی بن کعب کی اقتداء میں جمع کیا تو انہیں بیس رکعت تراویح اور پھر تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔علامہ ابن عابدین شامی ؒ نے لکھا کہ:( وھی عشرون رکعۃ ) ھو قول الجمھور ، وعلیہ عمل الناس شرقا و غربا۔( ردالمحتار:2/495)کہ بیس رکعت تراویح یہ جمہور کا قول ہے اور اسی پر مشرق و مغرب میں لوگ عمل پیرا ہیں ۔معروف فقیہ وھبۃ الزحیلی ؒ نے بھی احادیث کو نقل کرنے کے بعدبیس رکعت تراویح پڑھنے کو اجماع قراردیا ۔( الفقہ الاسلامی وادلتہ :2/72)سعود ی عرب کے نامور عالم دین ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے سابق قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم ؒ نے نماز تراویح کی چودہ سوسالہ تاریخ پر عربی زبان میں مستقل ایک کتاب لکھی ہے جس میں ثابت کیا کہ حضرت عمر ؓ کے عہد خلافت سے آج تک حرمین شریفین میں کبھی بھی بیس رکعت سے کم تراویح نہیں پڑھی گئی۔(تحفۂ رمضان المبارک:22)تفصیل کے لئے کتاب’’ التراویح أکثر من ألف عام فی المسجد النبوی ﷺ‘‘۔ملاحظہ فرمائیں ۔

تراویح کی برکتیں :

   تراویح ادا کرنا ایک عظیم سنت کی تکمیل ہے ،اور بلاشبہ جو تراویح کا اہتمام نہیں کرتے انہیں رمضان کی حقیقی عظمتوں کااحساس بھی نہیں ہوتا، رمضان کے اداکرنے کے نتیجہ میں بندہ کو خاص مقام ِ مقرب بھی نصیب ہوتا ہے ۔حضرت عبد الحئی عارفی  ؒتراویح کے بارے میں فرماتے تھے کہ:یہ تراویح بھی بڑی عجیب چیز ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالی ہر انسان کو روزانہ عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ مقامات ِ قرب عطا فرمائے ہیں ، اس لئے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں جن میں چالیس سجدے کئے جاتے ہیں اور ہر سجدہ اللہ تعالی کے قرب کا اعلی ترین مقام ہے کہ اس سے زیادہ اعلی مقام کوئی اور نہیں ہوسکتا ،جب انسان اللہ تعالی کے سامنے سجدہ کرتا ہے اور اپنی پیشانی زمین پر ٹیکتا ہے اور زبان پر سبحان ربی الاعلی کے الفاظ ہوتے ہیں تو یہ قرب ِ خدا وندی کا وہ اعلی مقام ہوتا ہے جو کسی اور صورت میں نصیب نہیں ہوسکتا۔(رمضان کس طرح گزاریں :27)

تراویح میں ہماری کوتاہی:

    رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی مسجدیں بھرجاتی ہیں ،ابتداء میں ذوق و شوق کے ساتھ دیگر نمازوں کے ساتھ تروایح کا بھی خوب اہتمام ہوتا ہے ،لیکن جیسے جیسے رمضان گزرنے لگتا ہے ،اسی قدر سستی اور لاپرواہی بھی شروع ہوجاتی ہے ۔تراویح میں بالعموم ہمارے پاس جو کوتاہی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ عشرہ میں قرآن کریم سن لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد تراویح چھوڑدیتے ہیں ،کچھ لوگ شرو ع شروع تراویح میں شریک رہتے ہیں اس کے بعد غائب ہوجاتے ہیں ،اسی طرح بعض لوگ مسجد ہی میں بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں اور جیسے ہی امام رکوع میں جانے لگے تیزی سے دوڑ کر نماز میں شریک ہوتے ہیں ،اسی طرح بعض لوگوں کا مزاج ہوتا ہے کہ کسی ایک جگہ تراویح نہیں پڑھتے بلکہ مختلف مساجد کے دورے کرتے رہتے ہیں ، اور محلہ در محلہ گھوم پھرکر کے تراویح کو ضائع کرتے ہیں ،عین تراویح کے وقت کچھ لوگ ہوٹلوں وغیر ہ میں فضول گپ شپ میں وقت برباد کرتے ہیں اور نمازِ تراویح سے محروم رہتے ہیں ۔ان تما م باتوں سے بچنا چاہئے اور کسی ایک مسجد میں مکمل چاند رات سے چاند رات تک تراویح کی ادائیگی کا پورا پورا اہتمام کرنا چاہیے ،اگر کہیں قرآن مکمل بھی ہوجائے لیکن تروایح ساقط نہیں ہوتی تراویح تو چاند دیکھنے سے شروع ہوتی ہے اور چاند دیکھ کر ختم ہوتی ہے ۔لہذا اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ تراویح کی عظیم الشان عبادت میں ہم غفلت و کوتاہی کرنے والے نہ بنیں ۔

آخری بات:

    بہرحال تراویح ایک اہم اور عظیم عبادت ہے جس کے ذریعہ بندہ اللہ تعالی کے قریب ہوتا ہے ،دن میں وہ روزہ رکھ کر اللہ تعالی کو مناتا ہے اور رات کو اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے عجز کا اظہار اور اپنی بندگی کااعتراف کرتا ہے ،اپنی دن بھر کی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر بخوشی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ عمل اللہ تعالی کو پسند آتا ہے ۔لہذا تراویح کے سلسلہ میں ہر طرح کی کوتا ہی سے بچنا چاہیے ،اور پورے خشوع و خضو ع سے بیس رکعات تراویح کے اداکرنے کا اہتمام کرنا چاہیے ،غیر ضروری حیلے بہانے ،کاروبار کی مشغولیتوں کے اعذار کو لائے بغیر نماز تراویح پڑھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے ،اور پورے بیس رکعات اداکرنا ضروری ہے ورنہ ہم سنت ِ نبوی ﷺ کی ناقدری کرنے والے اور اللہ تعالی کی رحمتوں سے بھاگنے والے شمار کئے جائیں گے،رمضان کا مہینہ تو دیا ہی عبادتوں کے لئے، اس لئے تھوڑی سے قربانی دے کر اور اپنے آپ کو آمادہ کرکے بہر صورت تراویح پڑھنی لازم ہے ۔نیکیوں کی قدر انسان کو مرنے کے بعد ہوگی اور ایک رکعت کی اہمیت کا اندازہ میدان ِمحشر میں سمجھ میں آئے گا ۔اس لئے کاہلی ،سستی اور عدم دلچسپی سے بچتے ہوئے اور بیس رکعات کا مذاق اڑائے بغیر مسجد میں باجماعت تراویح ادا کرنے کا التزام کرنا چاہیے۔الحمدللہ امت مسلمہ شروع سے بیس رکعات کا اہتمام کرتی آئی ہے اور حرمین شریفین میں خود اس کا اہتمام ہوتا ہے تو ہمیں غیر ضروری الجھنوں میں پڑے بغیر پوری اداکرنے کی فکر ضرور کرنی چاہئے ۔

تبصرے بند ہیں۔