ترکی کے پُر اُمید نتائج : ذرا سنبھل کے رہنا

ابراہیم جمال بٹ

تحریکوں کا دوسرا نام ’’انتھک کوشش‘‘ ہے اور اس کوشش کے نتیجے میں جب کسی پھل اور مثبت نتائج کی اُمیدیں نظر آتی ہیں تو بحیثیت ایک تحریکی کارکن و ذمہ دار میں خوشی پیدا ہونا فطری عمل ہے، اور اس ’’اُمید‘‘ کے سہارے ہی تحریک سے جڑا ہر فرد کام کرتا ہے۔چنانچہ آج دنیا میں بے شمار نظریات کی حامل تحریکیں کام کر رہی ہیں جن کے مقاصد واضح بھی ہیں اور غیر واضح بھی۔ ان میں کئی ایسی مذہبی ودینی تحریکیں بھی ہیں جو مختلف ناموں سے پوری دنیا میں کام کر رہی ہیں ۔ ان کے مقاصد کے حوالے سے جب غور کیا جاتا ہے تو ہر ایک دینی ومذہبی تحریک کا مقصد اپنے بنیادی چیز ’’مذہب‘‘ کو وہ مقام دینا ہے جس کے لیے اس کا وجودہواہے۔

اس سلسلے میں مختلف ناموں سے کام کرنے والی یہ دینی ومذہبی جماعتیں برسر جدوجہد ہیں ۔ ہر ایک ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس کوشش میں ہے کہ وہ اُس منزل کو پہنچ سکے جس کے لیے اسے وجود میں لایا جاچکا ہے۔ اس دوران انہیں بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جو جس قدر تحریک سے وابستہ کارکن و ذمہ دار ہو وہ اسی قدر تحریکی کام میں لگن اور محنت سے کام کر کے مسلسل جدوجہد میں لگا رہتا ہے۔ اسے ایک طرف مثبت سوچ کے حامل لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے اور دوسری جانب منفی ذہن رکھنے والے لوگوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کشمکش میں تحریک کے کام میں جس قدر وسعت ہوتی ہے اس سے تحریک سے جڑے کارکنوں کی محنت صاف دکھائی دیتی ہے۔ حالانکہ مذہبی ودینی تحریکوں سے وابستہ کارکنوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ہماری کوششیں ہی کافی نہیں ہیں بلکہ اس کے لیے خدائے لم یزل کی مدد بھی درکار رہتی ہے تاہم خدائے ذوالجلال کا سنت ہے کہ وہ مدد گار ومعاون اسی کا بنتا ہے جو اس کے سہارے کو تسلیم کرنے کے بعد اپنے آپ کو متحرک کرکے کام کرے۔ چنانچہ اسی حوالے سے ایک عربی محاورے میں کہا گیا ہے کہ ’’من جد وجد‘‘ یعنی جس نے کوشش کی اس نے پایا۔ بہرحال اس حوالے سے تحریک سے وابستہ کارکن و ذمہ داران اس کوشش میں رہتے ہیں کہ منزل مقصود تک پہنچا جائے۔ جس کے لیے وہ دن ورات کوشش کرتے رہتے ہیں اور جب اس کے نتائج کی اُمیدیں نظر آتی ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔

دور حاضر میں جب اسلامی تحریکوں کے کام پر سرسری جائزہ لیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ کہاں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ تحریکوں سے جڑے کارکنان کے اذہان ، کام کی وسعت وگہرائی کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کبھی ان کے ہاتھوں میں بظاہر ’’دکھنے والی طاقت‘‘ آجاتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں جب پوری دنیا کے خاکے پر نظر ڈالیں تو تحریک اسلامی کے حوالے سے مختلف ممالک میں کام ہو رہا ہے، جن کے نتائج بھی دھیرے دھیرے سامنے آرہے ہیں ۔ ان میں عرب ممالک میں سے ’’مصر‘‘ میں الاخوان المسلمون‘‘ کا کام سرفہرست ہے جس نے اپنی حد تک بہت کام کیا ہے ۔اس کے بعد بنگلہ دیش میں تحریک اسلامی کا کام بہت ہی کارآمد طریقے سے ہو رہا ہے، جس کے نتائج بھی آج پوری دنیا کے سامنے ہیں ۔ حالانکہ علی الترتیب دونوں ممالک کو غیروں سے زیادہ ہ اپنوں کی کارستانیوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاہم کام میں جب اخلاص اور وسعت ہو تو امید کی کرن نظر آہی جاتی ہے۔

یہی حال ان دونوں ممالک کا ہے ، جہاں دشمنوں کے روپ میں دوست دکھائی دیتے ہیں اور دوستی کے روپ میں دشمن بھی کام کرتے نظر آرہے ہیں ۔ تاہم تحریک سے وابستہ زعماء اور کارکنان اپنی جدوجہد میں محوہیں ۔ ’’امید بہار رکھ ‘‘کی فضا کو طلوع ہونے کے انتظار میں کام کر رہے ہیں ۔ جس کا ایک مشاہدہ حال ہی میں ترکی میں صدارتی اختیارات کے حوالے سے ہونے والے ریفرنڈم میں 51.4 فیصد لوگوں نے صدارتی اختیارات کو وسعت دینے کے حق میں ووٹ ڈالے جس کے بعد اب صدر رجب طیب اردگان کو نہ صرف وسیع تر اختیارات حاصل ہوں گے بلکہ ان کے نتیجے میں وہ ممکنہ طور پر 2029تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں ۔ اس کامیابی پر انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اسے خوشی محسوس ہوتی ہے لیکن جذباتیت کا شکار ہوکر اصل دنیائی حقیقت کا اندازہ کرتے رہنا چاہیے، کس کے مقابلے میں کس کی جیت ہوئی ہے اس پر غور کرنا چاہیے۔

تاہم عقل مندوں کا کہنا ہے کہ’’ جب ’’امید کی کرن‘‘ نظر آئے تو عاقل لوگ نہ ہی اس خیال میں رہتے ہیں کہ یہ میری کارستانی ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ اس سب کو اس سہارے سے منصوب کرتے ہیں جس کو تھام کر اس کام میں آج انہیں اُمید نظر آرہی ہے، اور دوسری طرف وہ عاقل اس بات کے لیے تیار رہتے ہیں کہ یہ ہماری ’’امید کی کرن‘‘ اُن لوگوں کی  نظروں میں بھی ہے جو اس کے بالمقابل ہمارے ہی ممالک میں کام کر رہے ہیں ۔ جن کے پاس اپنا ایک مقصدِ وجود ہے اور وہ اس مقصد کو ڈوبتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کر سکتے اس لیے وہ اس کے ردعمل میں اپنا وہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں جو آج تک انہوں نے آزمایا نہ ہوگا۔‘‘

بہر حال اس کا مشاہدہ بھی ہم کئی بار کر چکے ہیں ، حال ہی میں ’’الاخوان المسلون‘‘ کی محنت سے مصر میں جو عوامی انقلاب کی جھلک دیکھنے کو ملی، تو تحریک کی اُس پُر بہار کرن کو دیکھ کر دشمن دشمنی کی صورت میں نہیں بلکہ دوست بن کر اپنے ان کے صفوں میں آبیٹھے اور اس طرح کام کر گئے کہ آج تک امت حیران وششدر ہے۔ ترکی کی حالیہ کامیابی اگرچہ حوصلہ افزا ہے لیکن اس حوالے سے وہاں تحریک اسلامی سے وابستہ ذمہ داروں کو خصوصاً اور باقی دنیا کے کونے کونے میں کام کرنے والی تحریک اسلامی سے جڑے اداروں کو باخبر رہنا چاہیے کہ ’’فضائے امید‘‘ کے پیچھے کیا کیا کام ہو رہے ہیں ۔ کون لوگ ہیں جو نہیں چاہیں گے کہ تحریک اسلامی کسی بھی طرح سے پھولے پھلے، کیوں کہ وہ چپ سادھ بیٹھ کر رہنے والے نہیں ہیں ۔ اس کے مدمقابل وہ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، ان کے پاس بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو کبھی بھی کسی بھی طرح رخ ہوا کا موڑ سکتے ہیں ۔ اور بہرحال وہ اس کی کوشش بھی کریں گے، اگر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا وہ ردعمل کے طور پر کھڑے ہو چکے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔