ترے خیال سے نکلیں تو داستاں ہو جائیں

فوزیہ ربابؔ

ترے خیال سے نکلیں تو داستاں ہو جائیں

نصیب ہو جو ترا ساتھ، جاوداں ہو جائیں

ہماری راکھ اڑانے کو آئے گا وہ شخص

سو اس سے پہلے بھلا کیسے ہم دھواں ہو جائیں؟

تمہارے ملنے تلک قادر الکلام رہیں

تمہارے سامنے آئیں تو بے زباں ہو جائیں

ہمارا مسئلہ، دیکھو! ہمارا مسئلہ ہے!

یہ لوگ کس لیے اب اپنے درمیاں ہو جائیں

دلیل ہے ترے ہونے کی یہ ہمارا وجود

ترا نشاں بھی نہ ہو، ہم جو بے نشاں ہو جائیں

یقین ہے تمھیں اس وقت ہوش آئے گا

تمھاری چاہ میں جب یوں ہی رائگاں ہو جائیں

گماں ہمارا ہمیں راس ہی نہیں آتا

سو جی یہ چاہے کہ پھر تم سے بد گماں ہو جائیں

ہماری فکر میں نیندیں حرام ہوں اس کی

ہم اس کے واسطے اے کاش امتحاں ہو جائیں

وہ دور جائے تو لے جائے ہر خوشی میری

قریب آئے تو سب غم یہاں وہاں ہو جائیں

ہمارا ہاتھ ذرا آپ تھام کر رکھیے

کہیں حضور! نہ ہم گردِ کارواں ہو جائیں

ہمیں یہاں سے اٹھائے، اٹھیں یہاں سے ہم

جہاں جہاں وہ کہے ہم وہاں وہاں ہو جائیں

رباب جان بھی حاضر ہے اک اشارے پر

وہ ہم کو درد بھی دے دے  تو شادماں ہو جائیں

تبصرے بند ہیں۔