تسمیہ  کے انسانی افکار پر حیات آفریں اثرات

ڈاکٹر شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

بعثت ہادی اعظم ، مہر عرب و عجم ﷺ سے پیشتردور جاہلیت میں انسان اپنے تمام اُمور کی انجام دہی سے قبل معبودان باطل (جیسے باسم اللات، باسم العزی، باسم الثعب، باسم ھیل وغیرہ) کے نام لیا کرتا تھا جس کا بطلان کرتے ہوئے دین متین نے اللہ تعالی (جو کارساز حقیقی ہے) کے نام سے ہر کام شروع کرنے کا حکم فرمایا چونکہ التفات کریم، عنایت حلیم، توجہ رحیم، عطائے نعیم، قضائے حکیم، رزق منعم حقیقی اور اس کے احسان عظیم اور رحمت عمیم کا کائنات کا ذرہ ذرہ محتاج و طلب گار ہے چنانچہ جو پہلی سورۃ کا نزول ہوا اس کی ابتدائی آیت مبارکہ یعنی (اقرا باسم الخ) میں اسی کی تعلیم ملتی ہے۔ (جامع البیان) حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے جب ’’تسمیہ‘‘ کا نزول ہوا تو شیاطین افسردہ ہوگئے بادل مشرقی سمت چلے گئے آب سمندر موجزن ہوگیا ہوا ساکن ہوگئی طیور، چرند و پرند ہمہ تن بہ گوش ہوگئے (تفسیر از ابن مردودیہ) نزول ’’تسمیہ‘‘ سے قبل با سمک اللھم لکھا اور بولا جاتا تھا بعد میں ’’تسمیہ‘‘ کے متن ہی کو ترجیح دی گئی (قرطبی، روح المعانی) ’’تسمیہ‘‘ سورۃ نمل میں کامل اور سورۃ ھود میں اختصار کے ساتھ آئی ہے جب مبتدی اپنی تعلیم کا آغاز کرتا ہے تو معلم اس کو حروف تہجی کا پہلا حرف ’’الف‘‘ کی تعلیم دیتا ہے اور جب قاری قرآن کسی سورۃ کی تلاوت کا ارادہ کرتا ہے تو تسمیہ پڑھتا ہے جس کا پہلا حرف ’’ب‘‘ ہے جس کی حکمت علماء اعلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ’’ الف‘‘ کی شکل میں ایک قسم کا اکڑاپن، درازی، تکبر، گردن کشودن ہے جبکہ ’’ب‘‘ کی شکل میں انکساری، عاجزی، تواضع اور افتادگی ہے (روح المعانی) جب صاحب ایمان خالق ارض و سما کی جناب میں حاضرہوکر اس کے کلام معجزانہ کی تلاوت کرتا ہے تو ’’تسمیہ ‘‘ کا پہلا حرف ’’ب‘‘ بندے کو تواضع و خاکساری اپنانے کی دعوت دیتا ہے جس پر مومن کے تمام اخلاقی محاسن و خوبیوں کا دار و مدار ہے۔ آج امت مسلمہ کی رسوائی و زوال  میں جن امور کو خاصادخل ہے ان میں عجز و انکساری کا فقدان بھی ایک اہم عنصر ہے جس کی انسان کے لیے شعبہ ہائے حیات کے ہرمیدان میں اشد ضرورت پڑتی ہے۔

چنانچہ قرآن حکیم جو نہ صرف کلام الہی ہے بلکہ ایک جامع و کامل دستور حیات بھی ہے جس میں انسان کے اخلاق کے وہ جواہر پارے بیان کیے گئے ہیں اگر کوئی شخص اس پر صدق دل و حسن نیت کے ساتھ کاربند ہوجائے تو کامیابی و کامرانی اس کی حیات کا جز لاینفک ہوجائے گی لیکن صد افسوس کہ ہم اسی درس عظیم کو جو قرآن حکیم کے ابتدائی مرحلہ ہی پر دیا جارہا ہے یکسر فراموش کردیا ہے جس کے باعث ہم ہر میدان میں چاہے وہ تعلیمی ہو یا سیاسی ، معاشی ہو یا معاشرتی، لسانی ہو یا طبی،کیمیائی ہو یا ریاضی، فلکی ہو یا نجومی، سماجی ہو یا عمرانی،ادبی ہو یا شعری ، تنقیدی ہو یا تجزیاتی، لسانیاتی ہو یا نفسیاتی، طبقات الارض ہو یا سائنس و ٹکنالوجی الغرض ہر شعبہ میں  ناکام و نامراد ہوتے جارہے ہیں۔ موجودہ حالات ہم سے اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم  عجز و انکساری ، تواضع و خاکساری کا عملی مجسم نمونہ بن جائیں جس میں نہ صرف آفاقی  حکمرانی کے نایاب گوہر پوشیدہ ہیں بلکہ دنیا کی کامیابی اور عقبی کی کامرانی بھی اسی پر منحصر ہے۔فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے…

شیوہ عاجزی نہ چھوڑ اے فیضؔ

یہ وہ شئی ہے جو نہیں ہے خدا کے پاس

اس صفت جلیلہ و خصلت مرضیہ کا ہی فقدان ہے جو معاشرہ کے ان گنت برائیوں وتباہ کن حالات کا باعث ہے یہ بات خصوصاً عصر دوراں میںاظہر من الشمس و ابین من الامس ہے۔ تعلیمات صوفیائے کرام کا ماحصل ولب لباب یہی ہے کہ انسان فروتنی و بندگی کا پیکر بن جائے جیسا کہ کہا جاتا ہے ’’خودی کو خدا کے سپرد کرنا یہی تصوف ہے‘‘ جب یہ صفت انسان میں پیدا ہوجاتی ہے تو وہ آدمی پرور و انسانیت نواز معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس کے لیے آج کی انسانیت انتہائی مضطرب و بے چین ہے لیکن اس صفت سے کوئی بھی شخص اس وقت تک متصف نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تصویر منت و سماجت نہ بن جائے۔ محولہ ذیل حدیث پاک میں نبی کریم ﷺ نے  ارشاد فرمایا ’’ من خضع للہ رفعہ اللہ‘‘ یعنی جو شخص خدا کی بارگاہ میں جبین نیاز جھکاتا ہے وہ بلند و بالا مراتب کا حامل ہوجاتا ہے گویا اس فرمان رسالت مآبﷺ میں انسانیت کو اس بات کا درس دیا گیا ہے کہ انسان کی عظمت و بزرگی کا راز اس بات میں پنہاں ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک حقیقی کی ہر آن نیاز مندی بجا لائے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے …

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے

کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے

اسی لیے تعلیمات اسلامی میں ’’تسمیہ ‘‘ (وہ مبارک آیت کریمہ ہے جو سوائے امام الانبیا ﷺاور حضرت سلیمانؑ کے کسی اور نبی پر نازل نہیں کی گئی) کو ایک خاص مقام و منزلت حاصل ہے جس کی اہمیت و افضلیت مرقع ہر خوبی و زیبائی ﷺ کے اس فرمان اقدس سے اور بھی واضح ہوجاتی ہے آپﷺ فرماتے ہیں دروازہ بند کرنے، شمع گل کرنے، برتن ڈھانکنے ، مشک کا منہ باندھنے کے وقت یعنی تمام حرکات و سکنات اعیان و اوقات میں اپنے پالنہار کا نام لیا کرو (قرطبی) اس حدیث پاک میں ہم کو اس بات کی وضاحت ملتی ہے کہ وہ امور جن کی انجام دہی کو ہم بالکل حقیر و معمولی سمجھتے ہیں لیکن یہ امور بھی اس وقت تک عملی شکل اختیار نہیں کرسکتے جب تک کہ مالک و مولا کی مرضی شامل حال نہ ہوجائے۔ چنانچہ جب انسان کے جسم پر فالج کا اثر ہوجاتا ہے تو یہی امور جس کو وہ انتہائی معمولی سمجھتا تھا وہ امور بھی انجام نہیں دے سکتا بلکہ اس کی زندگی کا ہر فعل و عمل کسی دوسرے شخص کے سہارے و مدد پر منحصر ہوجاتا ہے ۔ گویا اس میں ہمارے لیے درس عبرت ہے کہ بندہ کی ناتوانی کا تو یہ عالم ہے کہ بعض وقت خود انسان اتنا مجبور ہوجاتا ہے کہ اپنے لیے بھی کوئی کام بذات خود انجام نہیں دے سکتا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی اور کے کام آئے یا اس کی مدد کرے یہ تو محض رحمت کردگار پر منحصر تھا کہ اس نے ہم کو اتنی توفیق مرحمت فرمائی ہم کچھ دینی ، تعلیمی، سیاسی، اخلاقی، فلاحی، رفاہی کام انجام دیں۔ (اللہ تعالی تمام بندوں کو ایسی بیماریوں سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین)

 اسی لیے تاجدار مدینہﷺ نے حکم فرمایا چھوٹے سے چھوٹا کام کیوں نہ ہو لیکن اس کی انجام دہی سے پیشتر اس ذات کا نام لیا جائے جو ہمارے جسم میں قوت و توانائی بخشتا ہے۔ جب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم خود اپنی مددآپ نہیں کرسکتے تو کسی اور کی ہم کیا مدد کرسکتے ہیں یہ تو رب کائنات کا احسان ہے کہ اس نے ہم کو ان کاموں کے لیے چن لیا جو معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔اگر ہم حقیقت کے اس پہلو پر نظر رکھیں تو یقینا ہم جو دینی، تعلیمی، معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے کام انجام دے رہے ہیں اس میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں گی اور اس میں برق رفتار ترقی ہوگی  جس پر دنیا رشک کرے گی لیکن اگر اس صفت محمودہ یعنی انکساری کو فراموش کردیں گے تو ہماری جتنی بھی سرگرمیاں ہیں وہ تمام کی تمام معطل ہوجائیں گی اور اس کا صحیح ثمرہ ہمیں نہ دنیا میں ملے گا اور نہ ہی آخرت میں۔ چونکہ ’’تسمیہ‘‘ پڑھ کر ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ جو بھی کام ہم کر رہے ہیں اس میں رحمت خدا وندی جب تک شامل حال نہ ہوگی مقصد کا حصول ناممکن ہے۔ جب وہ پائے تکمیل کو پہنچ جائے تو یہ ہم کو کب زیب دیتا ہے کہ ہم اس کامیابی و کامرانی پر اترائیں اور دوسروں پر احسان جتائیں اگر ہم ایساکریں گے تو یقینا یہ قول و عمل کا تضاد ہوگا اور یہ بات مسلمہ ہے کہ خالق کائنات کے پاس یہ بات انتہائی ناگوار ہے کہ قول ایک ہو اور عمل ایک۔اگر ہم خدا کی ناراضگی مول لیں گے تو ہمیں یقین کرلینا چاہیے کہ اس دنیاوی نام نہاد کامیابی و کامرانی کے باوجود ہم اپنے آپ کو اسفل سافلین کی جانب ڈھکیل رہے ہیں۔ ’’تسمیہ‘‘ کے ’’ب‘‘ کی اور ایک حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں وہ تمام علوم جو آسمانی کتابوں یعنی توریت ،انجیل  اور زبور میں بیان کیے گئے ہیں   وہ تمام علوم قرآن حکیم کے مختصر حجم میں منقول ہیں اور تمام مطلب قرآن مجید کو فاتحہ میں سمودیا گیا ہے اور سورۃ فاتحہ کا خلاصہ ’’تسمیہ‘‘ میں ارشاد فرمایا گیا اور ’’تسمیہ‘‘ کا ماحصل تسمیہ کے ’’ب‘‘ میں ہے چونکہ ’’ب‘‘ اتصال کے معنیٰ میں مستعل ہوتا ہے اور واصل بہ حق ہونا ہی تمام احکامات الہی کو بجالانے کا اہم عنصر ہے حرف ’’ب‘‘ اسی منزل مقصود کی نشاندہی کرتا ہے( انسائیکلوپیڈیا آف اسلام) ’’تسمیہ‘‘ 19 حروف کا مجموعہ ہے بقول ابن مسعودؓ جو کوئی 19 حروف کا ورد کرے گا وہ اس کے حق میں 19 موکلین عذاب دوزخ سے محفوظ و مامون رہنے کا موجب بن جائے گا( ابن کثیر) جب عالم عنصری میں ادویات و میڈیسن کا اثر ہوتا ہے تو قادر مطلق کے اسماء کا عوالم کل میں اثر ہونا کوئی محال امر نہیں۔

 تسمیہ کے 19 حروف پر مشتمل ہونے کی دوسری علت یہ بیان کی گئی ہے کہ لیل و نہار کے چوبیس گھنٹوں میں سے پانچ گھنٹوں کے مقابل پانچ نمازیں مقرر کی گئی اور مابقی 19گھنٹوں میں (جس میں دیگر دنیوی امور انجام پاتے ہیں) ہر کام ’’تسمیہ ‘‘ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ مومن کا ہر عمل عبادت بن جائے اور ہر مسلمان ان مبارک ہستیوں کے زمرہ میں شامل ہوجائے جن کو عمل کی بناء پر جنت کے وارث گردانہ گیا۔ جس کا ذکر اس آیت مبارکہ میں ہورہا ہے { ونودوا ان تلکم الجنۃ اورثتموھا بما کنتم تعملون}(7/43) ترجمہ:۔ اس وقت ندا آئیگی کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں ان اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے ۔جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ ہر کام سے پہلے تسمیہ پڑھواکر ہمارے ہر عمل کو عبادت کا درجہ بخشا گیا تو یہ بندہ کے لیے انتہائی نامناسب ہے کہ عبادت میں ریاکاری سے کام لے بلکہ مذہب اسلام میں جہاں پر بھی عبادت کا تصور آتا ہے وہاں اخلاص کا ہونا ضروری ہوجاتا ہے  جب ہم کوئی کام بے لوثی اور خلوص کے ساتھ کریں گے تو یقینا ہم وہ کارہائے نمایاں انجام دے سکتے ہیں جو ہمارے اسلاف نے انجام دیا جس کی نہ صرف اپنے بلکہ پرائے بھی ستائش کرتے ہیں۔اللہ جل شانہ و عز سبحانہ نے ’’تسمیہ‘‘ میں اپنے تین اسمائے مبارکہ (1) اللہ (2) رحمن اور (3) رحیم ارشاد فرمائے ہیں جو قرآن حکیم میں تقریباً بالترتیب2693، 57 اور 95 مرتبہ وارد ہوئے ہیں۔

 ’’تسمیہ ‘‘ کی تشریح حضرت عیسیٰؑ نے اس طرح بیان فرمائی حرف ’’ب‘‘ خالق دو جہاں کی ’’بھا‘‘ یعنی رفعت و بلندی ’’س‘‘ رب کریم کا ’’سنا‘‘ یعنی نور و روشنی ’’م‘‘ مالک کل کی ملکیت پر دال ہے ’’اللہ‘‘ معبود حقیقی ’’رحمن‘‘ دنیوی و اخروی زندگانی ہر دو میں رحم کرنے والا ’’رحیم‘‘ خاص آخرت میں رحم کرنے والا (ابن مردودیہ) اس ضمن میں شیخ محترم علامہ عزرمی کی تحقیق بھی یہی ہے کہ لفظ ’’اللہ ‘‘ذات مقدسہ معہ صفات کاملہ و مستجمع جمیع صفات کمالیہ کا اسم خاص ہے۔ لفظ ’’اللہ‘‘ کو عربی، عبرانی اور سریانی مانا گیا لیکن مشاہیر ادباء و ائمہ کبار اس بات پر متفق ہیںکہ یہ عربی ہے جس طرح مسمی کا تصور (بالکہنہ) محال ہے اسی طرح اسم اللہ میں عقول متحیر ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ صفات الہی کے بارے میں تمام وصفی نام متحیر ہیں زبانوں کے قواعد گم ہوکر رہ گئے ہیں چنانچہ امام اعظم ؒ ، امام غزالی ؒ ، خلیل، سیبویہ، زجاج ، اصولین اور فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسم ذات ’’اللہ‘‘ جامد و علم مرتجل ہے اور تغیر و تبدل سے ماورا ہے۔ حضرت ابو حنیفہؒ نے اسی کو اسم اعظم قرار دیا ہے لفظ ’’اللہ‘‘ کی یہ خصوصیت ہے کہ اگر اس لفظ کو کئی حصوں میں منقسم کردیں تب بھی اس کے معنیٰ میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی کلمہ توحید کے پہلے جز ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کے تمام حروف اسی لفظ سے ماخوذ ہیں لفظ اللہ کا تثنیہ و جمع نہیں آتا مذکورہ بالا تمام نکات اسی کی وحدانیت و صمدیت پر دال ہے۔ تصور الوہیت کے عنوان پر ابنی عربی، ابن حزم ، ابن تیمیہ، ابن خلدون ، شیخ احمد سرہندی، امام غزالی، الشہرستانی، مولانا روم اور شاعر اسلام علامہ ڈاکٹرسر اقبال جیسے صوفیائے کرام، فلاسفہ و دانشوروں نے سیر حاصل و مفصل و مدلل مضامین تحریر فرمائے ہیں۔

 قرآن مبین نے واجب الوجود کی ذات مقدسہ کو اس طرح بیان فرمایا وہ ذات یکتا و صمدیت کا مظہر ہے اس کا کوئی ہمسایہ و شریک نہیں ، وہ لم یزل و لا یزال اور لم یلد و لم یُلد ہے ، وہ تمام نقائص و عیوب سے پاک و عدیم النظیر ہے ، وہ قائم و دائم کار ساز حقیقی اور معبود برحق ہے ، وہ بزرگی و کبریائی کا سرچشمہ ہے، وہ خالق کائنات و رب کریم ہے، وہ علیم و خبیر ، سمیع و بصیر ہے ، وہی اول وہی آخر وہی ظاہر و ہی باطن ہے ۔ اس بحث سے یہ پہلو عیاں ہوگیا کہ وہ ذات جس کے نام سے ہم ہر کام شروع کر رہے ہیں درحقیقت وہی ہر صفت سے ازلی طور پر متصف ہے اور ہمارے تمام کاموں کی حسن و خوبی میں اسی کی رحمت کے جلوے کارفرما ہیں ورنہ یہ مشت خاک کی حیثیت ہی کیا کہ وہ چاند تک پرواز کرے اگر وہ نہ چاہے تو اس بندہ ناتواں کے لیے ایک قدم بھی اٹھانا محال ہے۔ ہم جو کسی پر  مہربان ہو رہے ہیں یا دنیا کی بڑی کامیابی حاصل کر رہے ہیں تو یہ صرف ہماری صلاحیتوں پر منحصر ہی نہیں بلکہ جب تک مرضی مولا نہ ہو ہمارا کوئی کام پائے تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔  ہم میں جو صفات ہیں جس کی دنیا تعریف و توصیف بیان کرتی ہے وہ بھی خدا کی عطا ہے اس کی بخشش ہے یہ خوبیاں ہماری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ قرآنی الفاظ میں ’’ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشآء‘‘ جب ہمارے صفات حقیقی نہیں بلکہ مجازی و عطائی ہیں تو ہم کیسے غرور و تکبر کا مظاہرہ کرسکتے ہیں ۔جب یہ تصور ہمارے ذہنوں میں جاگزیں ہوجائے گا تو معاشرہ کی وہ تمام خرابیاں جو ھوا و نفس کی اندھی پیروی کی وجہ سے فروغ پارہی ہیں از خود ختم ہوجائیں گی اور ایسا معاشرہ تشکیل پائے گا جس میں امن و آشتی کا دور دورہ ہوگا ، مساوات و برابری کی فضاء ہموار ہوگی،  تعلیم و ترقی کے مواقع ہر کس و نا کس کو میسر ہوں گے، مسابقتی دوڑ میں حصہ لینے کے لیے آزادانہ خیالات کو بڑھاوا ملے گا ، امت مسلمہ کو وہ خوشی و اطمینان نصیب ہوگا  جو نہ صرف پائدار بلکہ دائمی بھی ہوگا۔

 رحمن و رحیم  دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں جو رحم سے مشتق ہیں۔ رحم کے معنیٰ رقت قلب کے ہیں چونکہ ذات الہی ابدان و اجسام اور کسی اثر کو قبول کرنے سے پاک ہے اسی لیے رقت قلب کے معنیٰ کو اس کے احسانات و انعامات پر محمول کیا جاتا ہے۔ لفظ رحمن کا بھی تثنیہ و جمع نہیں آتا چونکہ یہ ذات مقدسہ کے ساتھ مختص ہے اسی لیے لفظ اللہ کے متصل مذکورہ ہوا۔ چنانچہ علماء کرام نے کسی کا نام (مجرد) رحمن رکھنے سے منع فرمایا البتہ عبدیت کے اضافت کے ساتھ عبدالرحمن رکھ سکتے ہیں۔ علماء کرام نے کسی شخص کو صرف رحمن کے لفظ سے ندا دینا بھی ناجائز گردانہ ہے (تفسیر قرطبی) علامہ خطابی رقمطراز ہیں کہ ’’رحمن‘‘ میں عمومیت ہے تمام مخلوقات کو شامل ہے اور رحیم مومنین کے ساتھ مختص ہے ۔ بطور استدلال یہ آیت شریفہ پیش فرماتے ہیں { وکان بالمومنین رحیما} (33/43) ترجمہ:۔ اور وہ مومنوں پر ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے (صفوۃ التفاسیر) مولانا ابو الکلام آزاد فرماتے ہیں ’’نظام فلکیات میں کمی و پیشی نہ ہونا، آفتاب کی تابانی، ماہتاب کی ضیاپاشی اور ان کی درخشندگی اور جہاں تابی کی یہ جلوہ آرائی،  عجائبات فضائے آسمانی اور اس کی نگاہ پرور نیلگونی، آرائش و زیبائش ، امطار باران، مناظر بحور، روانی دریا، پہاڑوں کی بلندیاں، وادیوں کا نشیب، اجسام حیوانات اور ان کا تنوع، نباتات کی صورت آرائیاں، باغ و چمن سبزہ و گل کی رعنائیاں ، پھولوں کی عطر بیزی ، پرندوں کی نغمہ سنجی، صبح کا چہرہ خنداں، شام کا جلوہ محجوب، صداوں کا ترنم، روشنی و رنگت کی بو قلمونی، قمری و بلبل کی نغمہ سنجیاں، تتلی کے پروں میں عجیب و غریب نقش ونگار، رنگ برنگ کے دلفریب پرندوں کا چہچہانا الغرض تمام جلووں اور احساسات میں فطرت کا فیضان جمال یعنی رحمت کارفرما ہے‘‘ (ماخوذ از ام الکتاب صفحہ 87 تا 92)  جب ایسی عظیم ہستی جو تمام کائنات پر رحم و کرم فرمانے والی اس کے نام سے کوئی کام شروع کرنے والے کو یہ بات کب روا ہوسکتی ہے کہ وہ دوسروں پر احسان جتائے جب کہ اس کے دل و دماغ میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ اس دل میں رحم کا مادہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے اور وہی حقیقی رحم و کرم کرنے والا ہے جس کے نام سے میں یہ کام شروع کررہا ہوں۔

  جب ایسا ماحول پیدا ہوگا تو یقینا نہ محسن کو احسان کرنے میں تردد ہوگا اور نہ وہ شخص جس پر احسان کیا گیا ہے وہ احساس کمتری کا شکار ہوگا ورنہ آج ہمارے معاشرہ میں یہی ہورہا ہے کہ ہم اپنے محسن کی ہر خواہش چاہے و جائز ہو یا ناجائز پوری کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جس کے باعث زندگی کے توازن و اعتدال کو بڑا دھکا لگ رہا ہے۔ ہم ان منفی پہلوئوں سے اسی وقت نجات پاسکتے ہیں جب ہم تسمیہ کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کی کوشش اور اس پر عمل پیرا ہوجائیں۔ یہ تسمیہ کے وہ حیات آفریں اثرات ہیں جس سے آج ہم محروم ہوتے جارہے ہیں چونکہ ہم تسمیہ تو ضرور پڑھتے ہیں لیکن اس کے معنوی حیثیت پر غور و فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں سمجھتے۔ جس وقت ہم تسمیہ کو حقیقی اعتبار سے پڑھنے کے خوگر ہوجائیں تو یقینا وہ دن دور نہیں جب ہماری امامت و صلاحیت کو دنیا تسلیم کریگی۔ تسمیہ کے چند فضائل بطور تبرک حسب ذیل نقل کیے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ تلاوت ’’تسمیہ‘‘ کی برکت سے سم قاتل کا حضرت خالد بن ولید پر کوئی اثر نہ ہوا۔ (تفسیر کبیر از امام رازی)

’’ تسمیہ ‘‘ کی تعظیم و تکریم کرنے پر منصور بن عمار علم و حکمت کے مرکز بن گئے تھے اور حضرت سیدنا بشر حافی ؒ کو ولایت کا تمغہ عطا ہوا تھا۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ فرمایا مقبول بارگاہ کردگار ﷺ نے جو شخص ’’تسمیہ‘‘ کو عمدہ شکل میں تحریر کرے گا وہ اس کی بخشش کا پروانہ بن جائے گا (در منثور) حافظ عبدالقادر نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی نبی محتشمﷺ نے فرمایا ہر ذیشان و اہم کام جو ’’تسمیہ‘‘ کے بغیر شروع کیا جائے اس میں کامیابی و برکت نہیںہوتی (مطالع المسترات) کھانا کھانے سے قبل ’’تسمیہ ‘‘ نہ پڑھی جائے تو شیطان ساجھے دار و ہم طعام ہوجاتا ہے (مسلم شریف) ’’تسمیہ‘‘ کے جز قرآن ہونے اور نہ ہونے کی بناء پر نماز میں جہر و سر کے ساتھ پڑھنے میں فقہاء کرام کے ہاں اختلاف ہے اور ہر امام کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں۔ چونکہ راقم السطور حنفی المسلک ہے اسی لیے امام اعظم ابو حنیفہؒ کی ایک دلیل رقم کرنے پر اکتفا کرتا ہے حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ میں نے ہادی برحق ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہوں کہ فرمایا کارساز حقیقی نے میں نے سورۃ الفاتحہ کو میرے اور میرے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کیا ہوں۔ جب بندہ { الحمد للہ رب العالمین} کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ { الرحمن الرحیم} کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا بیان کی جب وہ کہتا ہے {مالک یوم الدین} تو اللہ جل شانہ فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور جب وہ کہتا ہے { ایاک نعبدوا و ایاک نستعین} تو اللہ رب تبارک و تعالی فرماتا ہے یہ میرے اورمیرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ چیز ہے جس کا اس نے سوال کیا اور جب بندہ کہتا ہے { اھدنا الصراط المستقیم} اللہ تعالی فرماتا ہے یہ خاص میرے بندے کے لیے ہے یہ اس بات کی ادنیٰ دلیل ہے کہ ’’تسمیہ‘‘سورۃ  الفاتحہ کا جز نہیں چونکہ تقسیم الحمد للہ سے عمل میں آئی نہ کہ تسمیہ سے ۔  (صحاح ستہ بجز بخاری، مسند احمد) اسی بناء پر فقہ احناف کے مطابق نماز میں تسمیہ آہستہ آواز سے پڑھنے کا حکم ہے تسمیہ دو طرح سے پڑھا جاتا ہے (1)بسم اللہ الرحمن الرحیم  (2) بسم اللہ اللہ اکبر۔ عموماً ہر کام کی ابتداء پر اول الذکر پڑھا جاتا ہے اورقربانی و ذبح کے وقت موخر الذکر پڑھاجاتا ہے۔ چونکہ ذبح اور رحم میں تنافی کی نسبت ہے۔ سورۃ توبہ کے ابتداء میں تسمیہ نہ ہونے میں بھی یہی علت کارفرما ہے۔ ہر بات کی ابتداء اور وُضو سے قبل تسمیہ پڑھنا مستحب ہے۔ دخول بیت الخلاء سے قبل سنت ہے ۔ پہلی رکعت میں مسنون ہے ضم سورۃ سے قبل تسمیہ پڑھنا حضور اکرم ﷺاور صحابہؓ سے ثابت نہیں ہے۔ حرام شدہ ماکولات و مشروبات اور ناجائز امور کی انجام دہی سے پیشتر تسمیہ پڑھنا صحیح نہیں بلکہ بعض علمائے کرام نے اس عمل کو کفر سے تعبیر کیا ہے (فتاوی عالمگیری)۔

تبصرے بند ہیں۔