تصور حلالہ کو سمجھنا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

بعض نام نہاد، نفس و ہوس پرست اور فریب کار مولویوں اور قاضیوں کی بداعمالیوں اور غیر مسلموں کی نکاح حلالہ کی روح اور حقیقت سے عدم واقفیت کی بنا پر تصور حلالہ کو غیر ضروری طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے،  ملک کو درپیش اہم و سنگین مسائل کو پس پشت ڈال کر تصور حلالہ پر قومی چینلوں پر غیر ضروری مباحث منعقد کیے جارہے ہیں اور ان مباحث میں ایسے ہی نام نہاد اور غیر تعلیم یافتہ مولویوں،  قاضیوں اور مسلم دانشوروں کو بلایا جارہا ہے جن کے پاس نہ تصور حلالہ کی حقیقت و روح کو سمجھنے اور سمجھانے کی استعداد و لیاقت ہے اور نہ ہی مخالفین کے سوالات اور اعتراضات کے مسکت و مدلل جوابات دینے کا مادہ۔ جس کے باعث ناظرین کے سامنے اسلام کا موقف انتہائی کمزور ظاہر ہورہا ہے اور عوام الناس کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں۔

 اس کا ازالہ از حد ضروری ہے۔ Zee News کی اطلاعات کے مطابق رائے بریلوی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس میں شوہر نے بیوی کو تین طلاق دیکر اپنی زوجیت سے خارج کردیا اس لڑکی کے خسر نے اپنی سابق بہو سے مطالبہ کیا کہ تم ہمارے ساتھ نکاح کرلو پھر ہم تمہیں طلاق دے دیں گے پھر تم دوبارہ ہمارے لڑکے کے ساتھ ہنسی خوشی ازدواجی زندگی گزارسکتی ہو۔ اگر اس خبر میں رمق برابر بھی سچائی ہے تو اندازہ کیجیے کہ مسلم معاشرے میں کس قدر اسلامی تعلیمات سے دوری ہے اور ہم کس قدر اپنی بداعمالیوں کے سبب اسلام اور اس کی انسانیت نواز تعلیمات کو مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں (العیاذ باللہ ) اس طرح کے نفس پرست لوگ نکاح حلالہ کی آڑ میں بے خبر لوگوں کی جہالت اور جذبات کا فائدہ اٹھارہے ہیں جو سراسر قرآنی ارشادات،  منشائِ شارع ﷺ اور نکاح حلالہ کی حقیقی روح کے خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے بعض حیلہ باز محلل (منصوبہ بند طریقہ سے نکاح حلالہ کرنے والے ) اور محلل لہ (جس کے حق میں منصوبہ بند طریقہ سے نکاح حلالہ کیا جارہا ہو) پر رسول رحمت ﷺ نے لعنت کی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور خبر BBC NEWS پر بھی نشر کی گئی ہے۔ ایسی خبروں کو ہم اکثر یہ کہتے ہوئے نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ مخالفین کی اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی گہری سازش ہے۔ لیکن ایسی خبروں کا مکمل طورپر انکار کرنا بھی غیر دانشمندی ہوگی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بعض غیر تعلیم یافتہ نام نہاد مولویوں اور قاضیوں نے اسلامی لبادہ پہن کر معصوم مسلم خواتین کی عصمتوں سے کھلواڑ کر رہے ہیں تب ہی تو دشمنان اسلام کو بھرپور موقع مل رہا ہے کہ ان لوگوں کے مسخ شدہ کردار کا سہارا لیکر اسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر اعتراضات کرسکیں۔ اگر فطرت انسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے حلالہ کا غیر متعصبانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی غیرت مند انسان اس بات کے لیے راضی نہیں ہوگا کہ اس کی بیوی جو کسی غیر مرد کے ساتھ نکاح کیا ہو اس کا طلاق ہونے کے بعد اس سے دوبارہ نکاح کرے۔ جب یہ حقیقت ہے تو پھر قرآن حکیم میں نکاح حلالہ کا ذکر کیوں آیا ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت قرآن مجید نے مسلمانوں کو نکاح حلالہ کی نہ اجازت مرحمت فرمائی ہے اور نہ ہی اس کی ترغیب دلائی ہے بلکہ بطور تنبیہ کہا کہ اے انسان دو طلاق دینے کے بعد تیسری طلاق دینے سے باز آجا اور ٹھنڈے دماغ سے غور و فکر کر شاید میل ملاپ کی کوئی راہ نکل آئے اور مستقبل میں تجھے اپنے اس جذباتی اور ناعاقبت اندیشانہ فیصلہ پر کف افسوس نہ ملنا پڑے چونکہ طلاق بائن سے نہ صرف میاں بیوی کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے بلکہ بچوں کے مستقبل کے تاریک ہوجانے کے بھی قوی امکان پیدا ہوجاتے ہیں جس کے راست منفی اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ جب یہ تمام خدشات مرد آدمی کے سامنے رہیں گے تو عین ممکن ہے کہ شوہر کے ارادہ طلاق ضرور متزلزل ہوجائے گا۔

اسی لیے قرآن مجید نے دو طلاق دینے والے مرد کو کہا کہ اگر تو تیسری طلاق دینے میں بھی جلد بازی کی تویہ اقدام نہ صرف نامناسب ہے بلکہ اس کے بعد دونوں کی زندگیوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے چونکہ دو طلاق دینے کے بعد دوبارہ ازدواجی زندگی شروع کرنے کے امکانات ہیں لیکن تیسری طلاق کے بعد تمام امکانات موہوم ہوجائیں گے،  طلاق شدہ خاتون شوہر کے لیے حلال نہیں رہے گی،  بالفور ان کا نکاح منقطع ہوجائے گا اور ان میں علاحدگی ہوجائیگی اور یہ مرحلہ طے ہونے کے بعد میاں بیوی ندامت و پشیمانی کا اظہار کرنے کے باوجود دوبارہ ازدواجی زندگی گزارنا چاہیں تو بھی گزار نہیں سکیں گے تاوقتیکہ بیوی دوسرے شوہر سے نکاح کرے۔ اسی لیے قرآن مجید نے طلاق کا استعمال کرنے سے پہلے عدم موافقت اور باہمی نفرت کو دور کرنے کے لیے قریبی رشتہ داروں اور مسلم معاشرے کے ارباب حل و عقدسے صلح و مشورہ لینے پر زور دیا ہے تاکہ عقد نکاح کو حتی الامکان قائم و برقرار رکھا جاسکے۔ خاتون سے زیادہ یہ مرد آدمی پر لازم ہے کہ وہ اختلافی و نزاعی حالات میں بھی جلد بازی سے کام نہ لیں بلکہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ازدواجی زندگی کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کرے۔

 اسی لیے قرآن مجید نے کہا کہ ان تمام اصول کو بالائے طاق رکھ کر اور نکاح حلالہ سے ڈرائے جانے کے باوجود جس نے جلد بازی میں آکر تین طلاق دے دیں درحقیقت اس نے حدود اللہ کو پامال کرتے ہوئے اپنے آپ پر ظلم کیا اور ہلاکت و نابودی اپنے لیے منتخب کرلی چونکہ اس نے تین طلاق کا استعمال کرتے ہوئے رجوع کے دروازے اپنے آپ پر بند کرلیے۔ درحقیقت یہ وہ مقام ممنوع تھا جہاں پر داخل ہوکر شوہر نے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے خطرناک و ہولناک زندگی کا انتخاب کیا ہے۔ اس لیے طلاق کو اسلام انتہائی مذموم عمل قرار دیا گیاہے۔ حضرت سیدنا محاربؓ سے مروی ہے کہ تاجدارکائناتﷺ نے فرمایا اللہ تعالی نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے ان میں اللہ تعالی کے نزدیک طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے (اخرجہ ابو دائود)۔

اگر دوسرے شوہر کے ساتھ خاتون کی زندگی خوشحال گزار رہی ہے اور ان میں کوئی نااتفاقی نہیں ہے تو اب زندگی بھر اس خاتون کا پہلے شوہر کی طرف رجوع ہونا ناممکن ہوجائے گااسی لیے قرآن مجید نے شوہر کو دو طلاق دینے کے بعد نکاح حلالہ کا ذکر کرکے تنبیہ فرمائی ہے تاکہ وہ تیسری طلاق دینے کے جذباتی فیصلہ سے باز آجائے اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگی کو اجیرن ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوجائے۔ نکاح حلالہ کی حقیقت و روح یہ ہے کہ طلاق شدہ خاتون کا نکاح جب دوسرے شخص سے ہوجاتا ہے اور بالفرض محال اس خاتون کے رشتے دوسرے شوہر کے ساتھ بھی نہ نبھ سکیں اور فطری و قدرتی طور پر ان میں اختلافات ہوجائیں جس کے باعث دوسرا شوہر بھی اس خاتون کو تین طلاق دے دیکر اپنی زوجیت سے خارج کردے تب پہلے شوہر کے لیے حلال ہے کہ وہ اس خاتون سے نکاح کرے بشرطیکہ وہ خاتون پہلے شوہر سے نکاح کرنے کے لیے راضی ہواسی کو نکاح حلالہ کہتے ہیں۔

واضح باد کہ دوسرے شوہر سے طلاق پانے والی خاتون پر لازم نہیں ہے کہ وہ پہلے شوہر ہی سے نکاح کرے بلکہ اسے مکمل اختیار ہے کہ وہ جس سے چاہے نکاح کرے۔ اگر وہ کسی سے بھی نکاح نہ کرنا چاہے تب بھی اسے پورا اختیار حاصل ہے۔ کونسی ایسی غیرت مند خاتون ہوگی جو اس شوہر سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے حامی بھر دے جس کی وجہ سے اسے دوسرے شخص سے نکاح کرنا پڑا تھا۔ یہ انتہائی غیر فطری اور ناقابل قبول امر ہے کہ کوئی غیرت مند خاتون اس بات کے لیے راضی ہوجائے کہ وہ کرب و الم کی زندگی گزارنے کے باوجود پہلے شوہر سے نکاح کرلے جس کی وجہ سے اسے ذہنی، قلبی، جسمانی و روحانی اذیتوں سے گزرنا پڑا تھا۔ نکاح حلالہ کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اگر خاتون کی مسلسل نافرمانیوں کے سبب شوہر نے طلاق دے دی ہو پھر وہ طلاق شدہ خاتون کو دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ قلبی، ذہنی، اور روحانی طور پر خوشگوار زندگی جو اسے پہلے شوہر کے ساتھ میسر تھی اور سکون و طمانیت حاصل تھا وہ دوسرے شوہر کے ساتھ ممکن نہیں یا دوسرا شوہر نکاح کے چند ایام، ماہ یا سال کے بعد عمل زوجیت کی طاقت کھو بیٹھا ہو ایسے حالات میں وہ خلع لیکر پہلے شوہر سے نکاح کرنا چاہ رہی ہے اور پہلا شوہر بھی راضی ہے تو اسلام نے ان حالات میں ان دونوں کو دوبارہ نکاح کرنے کا ایک اور موقع عنایت فرمایا ہے جسے نکاح حلالہ کہتے ہیں۔

اب رہا یہ معاملہ کہ نکاح حلالہ کے نام پر بغیر حتمی و دائمی نکاح کی نیت کے جو کچھ بے حیائی معاشرے میں پھیل رہی ہے اس کا اسلامی تعلیمات سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ بحیثیت امت مسلمہ ہم تمام کی ذمہ داری ہے کہ ایسے فاسق و فاجر اور گناہ کبیرہ کے مرتکب لوگوں کے خلاف نہ صرف صدائے احتجاج بلند کریں بلکہ ان کا مکمل سماجی مقاطعہ کریں۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔