عمران خان: ستارے جس کی گرد راہ ہوں 

محمد شاہد خان

25 نومبر 1952 میں لاہور میں جب اکرام اللہ خان نیازی کے گھر میں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی تو پورا گھر جشنِ چراغاں میں ڈوب گیا، پہلی اولاد کی خوشی ہی کچھ اور ہوتی ہے اسکی والدہ مارے خوشی کے پھولے نہ سماتیں وہ کبھی اسے چومتیں تو کبھی سینے سے لگالیتیں، اکرام اللہ خان اس بچے کو گود میں اٹھا کر دیر تک اسے تکتے رہتے، چمکارتے اور اسکی ننھی ننھی آنکھوں میں پاکستان کا روشن مستقبل تلاش کرتے، وہ بچہ بچپن سے ہی بڑا ہونہارتھا لیکن طبیعت کا بڑا ضدی تھا، اس کا حوصلہ ناقابل شکست تھا وہ جو ٹھان لیتا اسے کرگزرتا، اسکی طبیعت میں ایک جولانی تھی وہ کچھ ایسی خوبیوں کا مالک تھا جو اسے عام بچوں سے ممتاز کرتی تھیں، وہ دھن کا پکا اور انتہائی محنتی تھا، جس محفل میں رہتا چھا جاتا، اور جب کبھی غیر حاضر رہتا تو یاران محفل اس کی کمی بہت محسوس کرتے۔

ابتدائی تعلیم کیلئے وہ لاہور کے  ‘’کیتھڈرل اسکول ‘’اور’’ایچیسن کالج ‘‘  گیا اور پھر اعلی تعلیم کے حصول کیلئے برطانیہ چلا گیا وہاں، رائل گرامر اسکول اور پھر اکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔

وہ بڑا خوبرو نوجوان تھا، گورا رنگ، لمبا قد، چھریرا بدن، تیکھی ناک، کتابی چہرہ اور  لمبے لمبے گھونگھرالے بالوں میں وہ کسی شہزادے سے کم نہیں لگتا تھا، نو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی وہ ہزاروں دلوں کی دھڑکن بن چکا تھا، جس گلی سے گزرتا دوشیزاؤں کے دوپٹے لہرا اٹھتے، بالاخانوں کے روشندان چلمن میں تبدیل ہوجاتے، اپسراؤں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی، اسکی ایک جھلک پانے کیلئے کنیزیں بےقرار رہتیں، یہی وجہ ہے کہ ایک مختصر سی مدت میں اس کے نام سے سیکڑوں افسانے منسوب ہوگئے وہ بانکا سجیلا نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ عمران خان تھا۔

وہ نیازی خاندان کا چشم چراغ تھا اسکی رگوں میں پشتونی خون دوڑ رہا تھا، کرکٹ سے اسے جنون کی حد تک لگاؤ تھا  یہی وجہ ہے کہ 1974 میں وہ اکسفورڈ یونیوسٹی کرکٹ ٹیم کا کیپٹن بن گیا ۔

کرکٹ کی دنیا میں ستر اور اسی کی دہائی میں صرف اسی کا جلوہ  تھا اس زمانہ میں کرکٹ کا مطلب ہی عمران خان ہوا کرتا تھا اسکی کرکٹ کی ایک دنیا دیوانی تھی وہ پاکستان کیلئے اکیس سالوں تک کھیلتا رہا اور بالآخر 1992 میں پاکستان کو پہلی بار ورلڈ کپ کی سنہری سوغات دے کر کرکٹ کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ دیا، وہ کوئی بھی کام اسی وقت تک کرنے کا قائل ہے جب تک کہ اس کے لئے جنون ہو اسی لئے جب کرکٹ کا جنون اس کے سر سے اترنے لگا تو اس نے کرکٹ کو 1992 میں ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دیا، اسکے اس فیصلے سے شائقین کرکٹ کو بڑی شدید مایوسی ہوئی لیکن اس نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا، کرکٹ کیرئر کے دوران اسکی والدہ ماجدہ شوکت خانم کینسر جیسے مہلک مرض سے جوجھتے ہوئے اس دنیا دارفانی سے کوچ کرگئیں، عمران خان کو اپنی والدہ سے بے پناہ محبت تھی اسلئے اس نے ان کی یاد میں ایک میموریل اسپتال قائم کرنے کا ارادہ کیا اور فائنل ریٹائرمنٹ سے قبل اس نے اس مقصد کی تکمیل کیلئے کرکٹ چھوڑ دیا لیکن جنرل ضیاءالحق کے اصرار پر اس نے ایکبار پھر کرکٹ میں واپسی کی، اس بار اس کی واپسی کا مقصد صرف اور صرف کینسر اسپتال کی تعمیر کیلئے فنڈ اکٹھا کرنا تھا اور بالآخر 1994 میں ستر کروڑ کی لاگت سے اس نے ایشیا کا پہلا کینسر اسپتال قائم کردیا، ایک بیٹے کی طرف سے ایک  ماں کیلئے اس سے بہتر خراج عقیدت کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

وہ ابتدائی زندگی ہی سے ایک کھلے دل کا انسان ہے منافقت اور دوہرے پن  سے اسے دور کا بھی واسطہ نہیں، وہ اپنی زندگی کے فیصلے ہمیشہ خود کرتا ہے اور کبھی کسی ملامت کی پرواہ نہیں کرتا۔

 وہ ایک حوصلہ مند اور بلند نصب العین کا حامل انسان ہے، شکست کے نام سے اسے چڑھ ہے، اپنے نصب العین کے حصول کیلئے وہ متاع عزیز تک کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا وہ اپنی ذات کو فنا تو  کرسکتا ہے لیکن زندگی کی شکست تسلیم نہیں کرسکتا۔

اس نے دیکھا کہ اسکے ملک کی عوام مفلوک الحال ہے، غربت اور پسماندگی کی چکی میں پس رہی  ہے، بنیادی سہولیات سے محروم ہے، اس نے محسوس کیا کہ مملکت خدادا کو حکمراں دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، رہنما رہزن بن چکے ہیں کرپشن اپنی انتہا پر ہے، بیوروکریسی مصلحتوں کی غلام ہے اسلئے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب اپنے  ملک کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے گا۔

اس کے پاس مال ودولت کی کوئی کمی نہ تھی وہ دنیا کے خوبصورت ترین مقامات پر داد عشرت دے سکتا تھا  لیکن اس نے خاک ِ وطن کو سب پر ترجیح دی۔

اپنی زندگی کو آباد کرنے کیلئے اس نے ایک خوبصورت دوشیزہ جمائما خان سے نکاح کیا ، جمائما نے اسکی خاطر اسلام قبول کرلیا اورانگلستان چھوڑ کر پاکستان چلی آئی، اس نے سوچا تھا کہ وہ اس ملک کی تعمیر میں اپنے شوہر نامدار کا ہاتھ بٹائے گی، ہر قدم پر اس کا ساتھ دے گی لیکن پاکستان کے بے رحم سماج نے اس پر ملامتوں کے اتنے پتھر برسائے اتنا رسوا کیا کہ اسکے برداشت کی حد ختم ہوگئی اور اس نے اپنے شوہر کے ساتھ برطانیہ واپس جانے کا ارادہ  ظاہر کیا لیکن اس کا شوہر تو اپنے اصولوں کا غلام تھا اس کا ارادہ ناقابل شکست تھا اس نے اپنے ملک کی تقدیر بدلنے کی قسم کھا رکھی تھی ایک طویل کشمکش کے بعد آخر دونوں  نے طلاق لینے کا فیصلہ کرلیا اور بالآخر عمران خان نے اپنے ملک کیلئے اپنی فیملی اور بچوں کو قربان کردیا۔

قاضی عدالت جب جمائما اور عمران خان کے مقدمہ کی آخری سماعت کررہا تھا اسوقت اس نے عمران خان سے سوال کیا کہ تم اپنی عائلی زندگی کو بچانے کیلئے اپنی بیوی کے ساتھ انگلینڈ شفٹ کیوں نہیں ہو جاتے ؟

عمران خان نے جواب دیا جج صاحب ہمارے ملک کی عوام بہت غریب ہے ان کے پاس زندگی کی بنیادی سہولیات تک مہیا نہیں ہیں، بھلا میں اس حال میں انھیں چھوڑ کر کیسے جاسکتا ہوں میں ان کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہوں، یہ جواب سن کر جج اپنی نششت سے کھڑا ہوگیا اسے گلے لگایا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے طلاق نامہ پر دستخط کردیا۔

عمران خان بائیس سالوں تک جدوجہد کرتا رہا نہ اس نے کبھی ہار  مانی، نہ اکتایا، نہ کسی کی پرواہ کی اور نہ ہی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا وہ چلتا رہا چلتا رہا یہاں تک منزل مقصود چل کر خود اس کے پاس آگئی۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں جب اسے وزیرعظم کے عہدے کی پیشکش کی تو اس نے کٹھ پتلی وزیر اعظم بننے سے انکار کردیا کیونکہ وہ اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرسکتا تھا وہ زندگی کو اپنی شرطوں پر جیتنا چاہتا تھا۔

بائیس سالوں کے طویل جدوجہد کے بعد آج اس کی محنت رنگ لائی ہے اس موقع سے اس کی سابقہ زوجہ جمائما خان نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر جو ٹویٹ کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے

26 جولائی 2018 کو انھوں  نے ٹویٹ کیا:

22 years later, after humiliations, hurdles and sacrifices, my sons’ father is Pakistan’s next PM. It’s an incredible lesson in tenacity, belief  & refusal to accept defeat. The challenge now is to remember why he entered politics in the 1st place. Congratulations

بائیس سالوں کی ذلت و رسوائی، رکاوٹوں اور قربانیوں کے بعد میرے بچوں کے والد اب پاکستان کے اگلے وزیر اعظم بننے جارہے ہیں

 ثبات قدمی، یقین اور کبھی شکست نہ تسلیم کرنے کا یہ ایک ناقابل یقین سبق ہے !

 انھیں اس بات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ انھوں نے سیاست میں قدم رکھا کیوں تھا ؟

یہی اسوقت کا چیلنج ہے !

بہت بہت مبارکباد۔

یہ ٹویٹ جہاں جمائما کی تہذیب اور تعلق کو ظاہر کرتی ہے وہیں عمران خان کی طویل جدوجہد کی داستان بھی بیان کرتی ہے۔

انتخابات سے قبل عام طور سے وعدوں کی بہار خیمہ زن ہوجاتی ہے، سیاسی پارٹیاں دروغ بیانی سے کام لیتی ہیں لیڈران عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں اور الیکشن جیتنے کے بعد ان کے وعدے کہہ مکرنیاں ہوجاتے ہیں لیکن عمران خان نے انتخابات جیتنے کے بعد جو کچھ کہا ہے وہ ایک وعدہ نہیں  بلکہ اس کا اپنی ذات سے کیا ہوا ایک عہد ہے جس کے  بنیادی نکات یہ ہیں کہ

۱۔ وہ قصر ریاست میں نہیں رہیں گے۔

وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز کو عوام کی فلاح وبہبود کیلئے استعمال کریں گے۔

۲- قومی احتساب کے دائرے میں وہ سب سے پہلے اپنی ذات کو پھر اپنے وزراء اور پھر دوسرے لوگوں کو کھڑا کریں گے۔

4۔ تمام شہریوں کے ساتھ مساوی عدل وانصاف کریں گے۔

۳-  انھوں نے ان دب کو درگزر کیا جنھوں نے ان کے ساتھ ذاتی رنجشیں نکالیں، ان کی کردار کشی کی، گالیاں دیں اور ان پر بے جا الزامات عائد کئے۔

4- ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے وہ ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دیں گے اور چین کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں گے۔

۵- پڑوسی ممالک کے ساتھ  اچھے رشتے قائم کریں گے۔

6- رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست مدینہ ہی ان کیلئے قابل نمونہ ہے ۔

جس طرح تپتے ہوئے صحراؤں کو پانی کی شدید ضرورت ہو تی ہے اسی طرح پاکستان کو بھی ایک اچھے قائد کی سخت ضرورت تھی جو اسے جانکنی کے عالم سے باہر نکالتا  اس کی داد رسی کرتا اسکے زخموں کی مرہم پٹی کرتا اور اسے دوڑنے کے لائق بنا تا، پاکستان کی یہ خوش نصیبی ہے اسے عمران خان جیسا قائد نصیب ہوا ہے، کیونکہ ایسے قائد روز روز پیدا نہیں ہوتے

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

 قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کو پہلی بار کوئی اتنا اچھا اور سچا قائد نصیب ہوا ہے، اگر پاکستان کی عوام اور اسٹبلشمنٹ نے اس کا ساتھ دیا تو محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے خوابوں کا پاکستان اپنی حقیقی شکل میں ضرور  نمودار ہوگااور اس خطہ میں ایک فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا جودوسروں کیلئے بھی قابل نمونہ ہوگا،ان کی زندگی پر علامہ اقبال کا یہ شعر بالکل فٹ بیٹھتا ہے کہ

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے

تبصرے بند ہیں۔