خانوادۂ اعلیٰ حضرت تاج الشریعہؒ

ریاض فردوسی

سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔ (سورہ یونس آیت۔ ۔ 62)

حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے سلف صالحین فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ وہ ہیں جن کے چہرہ دیکھنے سے اللہ یاد آجائے۔ بزار کی مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے۔ وہ حدیث مرسلا بھی مروی ہے۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جن پر انبیاء اور شہدا بھی رشک کریں گے لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں ؟ ہمیں بتائیے تاکہ ہم بھی ان سے محبت و الفت رکھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو صرف اللہ کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ۔ مالی فائدے کی وجہ سے انہیں رشتے داری اور نسب کی بناء پر نہیں ۔ صرف اللہ کے دین کی وجہ سے ان کے چہرے نورانی ہوں گے یہ نور کے منبروں پر ہوں گے۔ سب کو ڈر خوف ہوگا لیکن یہ بالکل بے خوف اور محض نڈر ہوں گے جب لوگ غمزدہ ہوں گے یہ بے غم ہوں گے۔ پھر آپ ﷺ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ یہی روایت منقطع سند سے ابو داؤد میں بھی ہے۔ اولیا اللہ وہ ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہو، جن کا ظاہر تقویٰ اور پرہیزگاری میں ڈوبا ہوا ہو، جتنا تقویٰ ہوگا، اتنی ہی ولایت ہوگی۔ ایسے لوگ محض نڈر اور بیخوف ہیں قیامت کے دن کی وحشت ان سے دور ہے، نہ وہ کبھی غم و رنج سے آشنا ہوں گے۔ دنیا میں جو چھوٹ جائے اس پر انہیں حسرت و افسوس نہیں ہوتا۔ اس گروہ کو نہ کوئی رنج پریشان کرتا ہے نہ خوشی غفلت میں ڈالتی ہے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

معروف مصری مبلغ ومصنف،بانی دارالمقطم قاہرہ مصر اپنی کتاب ’’انصاف الامام‘‘ میں رقم طراز ہیں :

ترجمہ: میں نے شیخ کبیر اختر (رضا ازہری دام ظلہ) کے چہرے کی طرف دیکھا اس حال میں کہ حسن وجمال اُن کو گھیرے ہوئے ہے اور سکینہ ووقار اُن پر غالب ہے، اور میں نے صحیح عربی زبان میں اُن کے کلمات سُنے جو حقِ مُبین کو بلند کرتے ہوئے اُن کے مُنہ سے قوت وثقاہت کے ساتھ نکل رہے ہیں ۔ تو میں نے خود کو پایا کہ میں کہہ رہا ہوں :    ۔ سبحان اللہ!‘‘ذریۃ بعضھا من بعض’’۔

(ایسی ذریت جس کا بعض بعض سے ہے۔ یہ ایک عربی محاورہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضور تاج الشریعہ اپنے اجداد کے فضل وکمال کے وارث اور مظہر ہیں ۔ )

(انصاف الامام، صفحہ: 167، ناشر: دارالمقطم للنشر والتوزیع، قاہرہ)

معروف ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب  عربی نعتیہ شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں :۔

’’پاکستان کے ایک محقق، پاک و ہندکی عربی نعتیہ شاعری پر ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے اپنے مقالے میں احمد رضا کے کمالات شاعری کو بیان کیا ہے اور نمونئہ شاعری پیش کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ احمد رضا کو انتقال کئے 62سال گزرچکے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے جانشین اُن کے پوتے علامہ اختر رضا خان ازھری ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ بڑے متقی اور باعمل،1983؁ء میں پاکستان تشریف لائے۔ ازراہ کرم غریب خانے پہ ٹھٹھہ بھی تشریف لائے۔ ایک عربی نعت کی فرمائش کی، قلم برداشتہ  اسی وقت لکھ دی۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عربی زبان نے احمد رضا کے گھرانے میں گھر کر رکھاہے۔ یہ اس گھرانے کا امتیازِ خاص ہے‘‘۔(اجالا، صفحہ ۳،مطبوعہ:ادارہ مسعودیہ،کراچی)

علامہ ازہری میاں رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش  26/محرم الحرام  1362ھ بمطابق2 فروری 1943ء کو ہوئی۔

عقیقہ کے وقت آپ  کا نام محمد رکھا گیا اورمحمد اسماعیل رضا بھی،آپ اخترتخلص استعمال فرماتے تھے۔ لیکن مولانا مفتی اختر رضا کے نام سے مشہور و معروف ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نصب یہ ہے،محمد اختررضا بن محمد ابرہیم رضا خاں بن محمد حامد رضا خان بن امام احمد رضا خاں قادری۔ آپ نے ناظرہ قرآن کریم ”اپنی والدہ ماجدہ شہزادی مفتی اعظمؒ سے گھر پرہی مکمل کیا،والدماجد ؒسے ابتدائی اردو کتب پڑھیں ۔ آپ کی ابتدائی درسی تعلیم مدرسہ دار العلوم منظرالاسلام میں ہوئی۔ آپ نے مصر کی یونیورسٹی جامعہ الازہر میں تعلیم حاصل کی، جس کی وجہ سے انہیں ازہری میاں کے لقب سے نوازا گیا۔ جامعہ الازہر مصر قاہرہ میں حضور تاج الشریعہ نے  1963-1966ء کلیۃ اصول الدین میں تعلیم حاصل کی۔ جامعہ ازہر میں گولڈ میڈلسٹ بھی رہے۔ علاوہ ازیں جامعہ ازہر کے سب سے ممتاز اعزاز ’’فخرِ ازہر ایوارڈ‘‘ سے بھی آپ کو نوازا گیا۔ آپ کے اساتذہ کرام میں حضور مفتی اعظم الشاہ مصطفیٰ رضاخاں نوری بریلویؒ، بحر العلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیریؒ،مفسر اعظم ہند حضرت مفتی محمد ابراہیم رضا جیلانی رضوی بریلویؒ،فضیلت الشیخ علامہ محمد سماحیؒ،شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ ازہر قاہرہ، حضرت علامہ مولانا محمود عبدالغفارؒ،استاذالحدیث جامعہ ازہر قاہرہ، ریحان ملت،قائداعظم مولانا محمد ریحان رضا رحمانی رضویؒ بریلوی، استاذ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خاں رضوی اعظمیؒ کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔

(مفتیء اعظم ہند اور ان کے خلفاء /صفحہ۔ 150/جلد:1)

اردن کی رائل اسلامی سوسائٹی کی طرف سے دنیا میں  سب سے زیادہ بااثر مسلمانوں کی فہرست کی درجہ بندی میں آپ  بائیسویں نمبر پر مانا ہے۔ سرکار مفتی اعظم رحمتہ اللہ علیہ کو آپ سے بچپن ہی سے بے انتہا توقعات وابستہ تھیں جس کا اندازہ ان کے ارشادات عالیہ سے لگایا جاسکتاہے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے:

” اس لڑکے (حضور تاج الشریعہ رحمتہ اللہ علیہ) سے بہت اُمید ہے۔ ”

سرکار مفتی اعظم ہند نے دارالافتاء کی عظیم ذمہ داری آپ کو سونپتے ہوئے فرمایا: ”اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں،  یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے، اب تم اس کام کو انجام دو، میں تمہارے سپرد کرتا ہوں ۔ ”لوگوں سے مخاطب ہو کر مفتی اعظم نے فرمایا:”آپ لوگ اب اختر میاں سلمہ، سے رجوع کریں انہیں کو میرا قائم مقام اور جانشین جانیں ۔ ” حضور مفتی اعظم نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں حضورتاج الشریعہ رحمتہ اللہ علیہ کوتحریراًاپنا قائم مقام و جانشین مقرر فرمایا تھا۔

حضور تاج الشریعہ  نے تدریس کی ابتدادارالعلوم منظر اسلام بریلی سے  1968ء میں کی۔ 1978ء میں آپ دارالعلوم کے صدر المدرس اور رضوی دارالافتاء کے صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ درس و تدریس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال جاری رہالیکن حضور تاج الشریعہ رحمتہ اللہ علیہ کی کثیر مصروفیات کے سبب یہ سلسلہ مستقل جاری نہیں رہ سکا۔ لیکن چند خاص لوگوں کے اصرار پر آپ مرکزی دارالافتاء بریلی شریف میں ”تخصص فی الفقہ ” کے علمائے کرام کو ”رسم المفتی،اجلی الاعلام” اور ”بخاری شریف ” کا درس دیتے رہیں ۔ لیکن طبیعت کی علالت کی وجہ سے یہ بھی منقطع ہو گیا تھا۔ حضورتا ج الشریعہ کو بیعت و خلافت کا شرف سرکار مفتء اعظم سے حاصل ہے۔ سرکار مفتی اعظم ہند نے بچپن ہی میں آپ کوبیعت کا شرف عطا فرمادیا تھااور صرف 19/ سال کی عمر میں 10/جنوری۔ 1962ء/1381ھ کو تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔ علاوہ ازیں آپ کو خلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت حضرت مفتی برہان الحق جبل پوریؒ، سید العلماء حضرت سید شاہ آل مصطفی برکاتی مارہرویؒ،احسن العلماء حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتیؒ،والد ماجد مفسر اعظم علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادریؒ سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل تھی۔(تجلیّات تاج الشریعہ / صفحہ:   149)

علم و عمل، زہد و تقوی، استقامت،اللہ کا خوف، اور سب سے بڑھ کر  عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ بلند مرتبہ پر فائز تھے۔ ۔ آ پ کو اپنے اسلافِ کرام سے علوم و فنون اور شریعت و طریقت کے ساتھ عشقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت نایاب بھی ملی۔ آپ کا مجموعہ کلام’’سفینہ ء بخشش‘‘ عشقِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی عکاسی کرتا ہوا عاشق صادق کے عشق کی سچی تصویر ہے۔

گرمیِ محشر گنہ گارو ہے بس کچھ دیر کی

ابر بن کر چھائیں گے گیسوے سلطانِ جمال

۔

جہاں بانی عطا کر دیں بھری جنت ہبہ کر دیں

نبی مختارِ کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کر دیں

۔

جہاں کی بگڑی اسی آستاں پہ بنتی ہے

میں کیوں نہ وقفِ درِ آں جناب ہو جاؤں

تاج شریعہ رحمتہ اللہ علیہ عالم اسلام کے ممتاز مفکر اور روحانی شخصیت اعلی حضرت امام احمد رضا رحمتہ اللہ علیہ کے پڑپوتے ہیں ۔ آپ عالم اسلام کے تمام فرقوں سے نا اتفاقیاں دور کرنے کے لئے سرگرم عمل رہتے تھے،اور تمام مسالک میں اتحاد قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوئے،لیکن عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عقائد کی درستگی کے ساتھ۔

گوش بر آواز ہوں قدسی بھی اُس کے گیت پر

باغِ طیبہ میں جب اخترؔ گنگنائے خیر سے

جمعہ کو محلہ سوداگران  بریلی شریف میں شام قریب ساڑھے سات بجے 20جولائی 2018 کو آپ نے  75 سال کی عمر میں رحلت فرمائی۔ نماز جنازہ آپ  کے اکلوتے صاحب زادے مولانا اسجد رضا نے پڑھائی۔ مولانا مفتی محمد اختر رضا خانؒ کی تدفین میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ تدفین ازہری گیسٹ ہائوس میں ہوئی۔ انہیں ازہری مہمان خانہ میں اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے برابر میں دفنایا گیا۔ آپ کے غم میں آسمان بھی اشک بہا رہا تھا، شہر میں رک رک کر بارش ہو رہی تھی۔ گویا آسمان یہ پیغام دے رہا تھا کہ میں مغموم ہوں لیکن اے تاج الشریعہ کے دیوانوں تمہارے غم و اندوہ کو دیکھتے ہوئے،تمہاری بیقراری اور بے تابی دیکھتے ہوئے کھل کر رو بھی نہیں سکتا۔

آپ کے غلام اور خاص عزیز میں شامل مولانا انجم علی ایڈوکیٹ نے اس طرح ان کی شخصیت کا خاکہ پیش کیا ’’تاج الشریعہ نے اپنی ساری زندگی اسلام کے قانون پر عمل کرتے ہوئے گزاری جو ان کی عظمت کی انتہا تھی۔ عالم اسلام میں اعلی حضرت کے بعد انہیں دوسرا سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص مانا جاتا تھا۔ بریلی میں آج ماتم کا ماحول ہے، ان کی جگہ کوئی نہیں لے پائے گا۔ ‘‘

یوں آپ کی پوری حیات مشعل راہ ہیں لیکن چند خاص صفت کے مالک آپ تھے وہ کسی غیر کے اندر موجود نہیں، آپ نے پوری حیات دنیاوی اسلامی شریعت کے مطابق گزاری، سنت و شریعت سے دوری کی وجہ سے جو تباہی و بربادی ہمارا مقدر بنتے جا رہی تھی اس کی طرف ہماری توجہ مبذول کروائی، الحاد و بے دینی اور مغربی کلچر کی یلغار سے اُمتِ مسلمہ کو دور رہنے کی تلقین کی۔ ہمیں یہ نصیحت کی کہ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی پر عمل کرنا، آپ کی تعظیم و توقیر اور آپ  ﷺکے اسوہ حسنہ پر مکمل عمل سے ہی ہمیں دونوں جہاں میں نجات مل سکتی ہے۔ ورنہ ہم اونٹ بے مہار کی طرح بن کر رہ جائیں گے،

طوقِ تہذیبِ فرنگی توڑ ڈالو مومنو

تیرگی انجام ہے یہ روشنی اچھی نہیں

تاحیات سیاست سے دوری بناکر رکھی،دنیا کو ہمیشہ ہمیش کے لئے تین طلاق دے دیا،امراء کو اپنے دل میں جگہ نہ دی۔ کبھی بھی غریب اور امیر مرید میں فرق نہ کیا،بلکہ غریب مریدوں سے پہلے ملاقات کرتے،آپ کے مرید جناب شرف الدین رضوی صاحب جو ریٹائڈ پولیس ادھیکاری ہیں وہ نہایت مغموم حالت میں کہتے ہیں ”کہ آج ہم سب ہمیشہ کے لئے یتیم ہوگئے۔ میرے پیرمرشد میرے آقا،ہم مریدوں سے ملنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔ مرید کی اصلاح کے لئے گاہے بگاہے نصیحت کرتے رہتے”آپ کی شخصیت اس پر خطر دور میں مثل چراغ تھی۔ جس کی تابناکی سے پورا عالم اسلام منور مجلیٰ تھا،آپ کے پردہ فرمانے کے بعد اب ہمارے عقائد کی درستگی کے لیے کون محنت و مشقت برداشت کرے گا؟،کون ان گستاخوں کو اپنے علم وعلم سے خاموش کرے گا؟لیکن اللہ سے امید ہے کہ بطفیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی رہبر،ضرور عنایت فرمائے گا(آمین یا رب العالمین)لیکن جس طرح وقت کو لوٹایا نہیں جاسکتا ویسے ہی آپ ؒکی ذات گرامی کی تلافی ممکن نہیں ۔ اللہ اہل خانہ کو،تمام مریدان کو،اور ہم سب کو صبر جمیل عطا کرے۔ تاج الشریعہ اعلی حضرت امام احمد رضا، علامہ حسن رضا، علامہ حامد رضا، مفی اعظم الہند علامہ مصطفی رضا نوریؔ،(رحمتہ اللہ تعالیٰ )کی پُر نور امانتوں کے سچے وارث وجانشین تھے۔ ان عظیم نسبتوں کا فیضان آپؒ کی شخصیت میں اوصاف حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی صورت میں ہمیشہ موجود رہا۔

آپ  کے پسماندگان میں ایک بیٹا مولانا عسجد رضاخان(جو اس مطہر خاندان کے وارث ہیں ) اور پانچ بیٹیوں کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلے مریدین ہیں ۔

علامہ مفتی عبد الرحیم صاحب بستوی ان الفاظ میں آپ کی تعریف بیان کرتے ہیں ” سب ہی حضرات گرامی (خانوادئہ اعلی حضرت)کے کمالات علمی و عملی سے آپ کو گراں قدر حصہ ملا ہے۔ فہم و ذکا،قوت حافظہ و تقویٰ سیدی اعلیٰ حضرت سے،جودت طبع و مہارت تامہ (عربی ادب) میں حضور حجۃ الاسلام سے،فقہ میں تبحر و اصابت سرکار مفتی اعظم ہند سے، قوت خطابت و بیان والد ذی وقار مفسر اعظم ہند سے یعنی وہ تمام خوبیاں آپ کووارثتہً حاصل ہیں جن کی رہبر شریعت و طریقت کو ضرورت ہوتی ہے۔ ” (پیش گفتار، شرح حدیث، نیت۔ صفحہ:4)

شامِ تنہائی بنے رشکِ ہزاراں انجمن

یادِ جاناں دل میں یوں دھومیں مچائے خیر سے

داغِ فرقتِ طیبہ قلبِ مضمحل جاتا

کاش گنبدِ خضرا دیکھنے کو مِل جاتا۔ (تاج الشریعہ)

آپ کے ذات گرامی کے متعلق اپنے وقت کے عظیم محقق یو ں رقم طراز ہیں، ــــ

 حضرت مفتی اعظم ہند کو اپنی زندگی کے آخری پچیس سالوں میں جو مقبولیت و ہر دل عزیزی حاصل ہوئی وہ آپ کے وصال کے بعد ازہری میاں کو بڑی تیزی کے ساتھ ابتدائی سالوں ہی میں حاصل ہوگئی۔ اور بہت جلد لوگوں کے دلوں میں ازہری میاں نے اپنی جگہ بنالی۔

تجلیات تاج الشریعہ…ص: 68،مطبوعہ:رضا اکیڈمی،ممبئی،انڈیا۔ (از۔ ۔ شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ،سابق صدر شعبہ افتا الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ یو پی)

تبصرے بند ہیں۔