تصوف، مذہب اور دین اسلام (تیسری قسط)

ندرت کار

پچھلی پوسٹ کے آخر میں ہم نے پڑھا !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  باطنیت (تصوف) کا تجربہ، ایک منفی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے،جسے یہ تجربہ حاصل ہو جاۓ وہ اس بات کا اعتراف کرلیتا ہے کہ ۔۔۔۔ میں بیان ہی نہیں کرسکتا کہ میں نے کیا، محسوس کیا ہے؟

وہ ہر پوچھنے والے سے بس، یہی کہتا ہے کہ

؎ ذوق این بادہ ندانی نجد اتا نچشی

مطلب!

میں نے جو مزہ محسوس کیا ہے اسے الفاط کی صورت میں بیان کر ہی نہیں سکتا۔۔۔۔

سو، جس کیفیت کو بیان نہیں کیا جاسکتا،تو دوسرے فرد تک، اسے منتقل بھی نہیں کیا جاسکتا۔

لہٰذا باطنی تجربہ اگر کوئی صداقت رکھتا ہے تو یہ صداقت، صرف صاحبِ تجربہ کے کام آسکتی ہے۔۔۔۔۔ کسی اور کیلیئے اسے صداقت،قرار دیا ہی نہیں دیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلیئے، دوسرے لوگوں پر اسکی کوئی پابندی نہیں کہ وہ، اس صداقت کو تسلیم کرلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خالص جذباتی احساسات کا نام ہے اور جذبات ۔۔۔۔۔۔۔ یکسر، ذاتی اور گونگے ہوتے ہیں ۔
جو کچھ ایک شخص محسوس کرتا ہے، وہ اسکا احساس، کسی دوسرے میں پیدا کر ہی نہی سکتا،تا وقتیکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ، دوسرا شخص خود ہی محسوس نہ کرے۔

اب اسی سلسلہ کو مزید آگے بڑھا تے ہیں،

ان لوگوں کے خوابوں اور پیغاموں میں، ناقابلِ یقین کی حد تک۔ مبالغہ آرائی ہوتی ہے۔ان کے عالمِ وجد، و مستی کے بیانات میں سے انکے اعمال و سیرت کے لئۓ،کسی بنی نوع انسان کیلئے نفع کا مؤجب نہیں ہوتے،لہٰذا

انہیں خدائی پیغامات وغیرہ کہنا تو ایک طرف،یہ تو اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ انہیں، کوئی اہمیت بھی دیجاۓ۔

ویسے بھی باطنیت (تصوف) کا فن،ایک انفرادی شے ہے،اور اسکے نتائج و متبائن ۔۔۔۔۔ایسے نہیں ہوتے کہ انہیں، "عالمگیر

سند”Absolute and Permanent value دی جاسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ تصوف کا مدار،رہبانیت پر ہے،رہبانیت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بالضرور،شہروں اور بستیوں کو چھوڑ کر،جنگلوں اور ویرانوں میں چلا جاۓ،؟

یہ اشیاء طریقِ رہبانیت کے  عناصر و اجزاء ضرور ہیں، لیکن یہ نفس (میں ) کی رہبانیت نہیں،
رہبانیت آنکھیں بند کرکے  در اصل اس تصورِ حیات کا نام ہے،جس کی رو سے انسان کامادی کشمکش اور دنیاوی تضادات سے آنکھیں بند کرکے راہِ فرار اختیار کرنا ہے۔

اور اس فرار و گریز  کو زندگی کا بلند نصب العین قرار دے کر، اپنے آپ کو فریب دے لینا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کا مقصود، پالیا ہے۔

تصوف میں اس قسم کا تصورِ زندگی، لا ینفک ہے۔اس تصور کی رو سے انکے نزدیک یہ سند بن جاتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ جب ہم نے تہیہ کر لیا کہ ۔۔۔ مادہ اپنا وجود ہی نہیں رکھتا تو، "روح اور مادہ” کا تضاد خود بخود ہی ختم ہو گیا ۔۔۔۔ یہ ان تصوف پرستوں  کی بہت بڑی خود فریبی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مادہ ہماری ذات سے باھر وجود رکھتا ہے، اور محض اتنا کہہ دینے سے کہ مادہ ۔۔۔۔۔ مایا، یا سراب ہے،،وہ فی الحقیقت، مایا یا سراب، نہیں بن جاتا،اسلیئے رہبانی تصورات یا باطنیت،(تصوف) ۔۔۔۔۔۔ ان تضادات کا آج تک حل نہیں پیش کرسکی۔

جس طرح باطل تصوریت مادہ کے انکار سے سمجھ لیتی ہیں کہ انہوں نے تضادات کا حل معلوم کر لیا ہے،بلکہ حل دریافت کرنے کی کاوش سے گریز کی راہ اختیار کی ہوتی ہے، حالانکہ انہوں نے حل معلوم نہیں کیا ہوتا، اسی طرح  یہ باطنیت (تصوف) بھی تضادات اور خواہشات کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ یہ اپنے ان تصورات کی دنیا میں، مگن ہوکر،بلندیوں پر اڑنے اور براہِ راست،ذاتِ خداوندی لامحدود سے، جا ملنے کے خواب دیکھتا رہتا ہے، اور نہیں سمجھتا کہ حقیقی اخلاق،جذبات و خواہشت کو فنا کردینے کا نام نہیں ۔

ایک  تصوف ہرست کا یہ خیال کہ وہ وہ ترکِ خواہشات کرسکتا ہے، ۔۔۔۔ کس قدر غلط ہے ۔۔۔ کیونکہ ترکِ خوایشات، بجاۓخویش، ایک خواہش ہے ۔۔۔ اسلیئے آپ اپنی خواہشات کا استیصال،کر ہی نہیں سکتے۔

اصل میں یہ تصوف پسند حضرات چاہتے ہیں کہ ہم اس پُر از مصائب اور بدنما دنیا سے بھاگ جائیں اور خلوت کی تجرد گاہوں میں جا کر پناہ لے لیں، جہاں ۔۔۔۔ صرف فطرت ہی فطرت ہو۔۔۔۔

جتھے بندہ نا بندے دی ذات ہووے، ۔۔۔

ان پہاڑون کی چوٹیوں ہر جا بسیرا کریں جنہیں انسان کے ناپاک قدم نے نہ چھووا ہو، وہاں جاکر اپنی روح کو فطرت کے پُر کیف نظاروں سے سرشار کریں ۔۔۔ اس سرور آفریں کیفیات میں کوئی بھی دخل اندازی نہ کرپاۓ،اور وہاں ۔۔۔

جہانِ کیف و مستی میں، انسانی دنیا کی کسی ذلت و پستی کا کوئی گذر نہ ہو،لیکن یہ بیچارے نہیں جانتے یا جاننا ہی نہیں چاہتے  کہ،
انکی یہ تمام حسین آرزوئیں، یہ بلند تخیلات، یہ علوِ جذبات، انسان کے قلب کی یہ کیف باریاں، انسانی فطرت کی لغزشوں کا یہ احساسِ لطیف، اور فطرت کے متعلق یہ حسنِ خیال، یہ سب، اسی دنیاۓ انسانیت  ہی کی تخلیق ہیں، جسے یہ تصوف پرست حضرات، اس قدر قابلِ نفرت سمجھ کر تیاگ دینے کی فکر کررہے ہیں ۔

یہ ہے وہ باطینت،جسے تصوف پرستوں نے دورِ حاضرہ کے تضادات اور پُر مصائب زندگی کو تصوف میں پناہ گزیں ہوجانا قرار دیا ہے۔

جیسا کہ پہلے ہم نے بتایا کہ  انکے اس طرہقہء عمل کی رو سے، یہ سمجھا جاتا ہے کہ، مادہ سے ذہنی انکار،، مادی کشمکش کو ختم کردیتا ہے اور اسکے بعد انسانی ذات(میں ) کا استحکام،ہوجاتا ہے، جسے یہ

"تزکیہء نفس”

کا نام قرار دیتے ہیں ۔۔۔

قران کے نزدیک، اصل تزکیہ کیا ہے؟ اسکے بارے میں ہم، بعد میں بات کریں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ

  جس شے کو یہ باطنیت کی بقاء سمجھتے ہیں، وہ بقاء، در حقیقت انسان کی اپنی فنا ہوتی ہے،

یعنی،Mysticism always  end in an,impersonal immortality ..

اس میں تضادات تو حل ہوجاتے ہیں، لیکن یہ حل اسی طرح کا ہوتا ہے جس طرح،

مرنے کے بعد،مریض کے تمام دکھ درد، دور ہوجاتے ہیں ۔

اسی لیئے

اخلاق اس  شے کا نام نہیں کہ آپ مادے کے کثیف تآثرات سے بھاگ جائیں ؟ بلکہ مادی ترقی کے یہ معانی ہیں کہ، آپ، "مادہ” کا مقابلہ کریں ۔۔۔۔۔۔ تخلیقی تحرک کو بڑھانے میں آج تک جو کام، مادہ نے کیا ہے اس سے انسانیت کے دائرے میں رہتے ہوۓ، متمتع ہوں، لیکن
اسکے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہ کریں کہ "انسانی ذات(میں )” مادی سطح سے بہت اونچی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر مذہب انسان کی توجہ،مادیت سے ہٹا کر، اس کے روحانی الاصل ہونے پر ہی مرکوز کردے تو یہ اخلاق نہیں بلکہ، مذہبی بد اخلاقی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھئے، نوعِ انسانی،اسی صورت میں ترقی کرسکتی ہے جب ۔۔۔۔۔۔۔۔ مادی اور روحانی۔۔۔۔ دونوں، پہلو بہ پہلو،اپنے اندر تضادات رکھنے کے باوجود، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، آگے بڑھتے چلے جائیں ۔  (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔