استاد کی اہمیت

محمد اشفاق عالم ندوی

انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے اور پھر ماں اپنے لخت جگر کو استاد کے حوالے کردیتی ہے، اس وقت وہ ایک بے قیمت پتھر کے مانند ہوتا ہے جس کو استاد تراش کر ہیرا بنادیتا ہے۔ ماں باپ بچے کو زمین میں قدم قدم چلناسکھاتے ہیں اور استاد اسے دنیا میں آگے بڑھنے کا ہنر دیتا ہے۔ ماں باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کو اٹھنے بیٹھے کا سلیقہ سکھاتے ہیں لیکن استاد وہ عظیم ہستی ہے جو اس کو انسان بنادیتا ہے اور آدمی کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے گر سے آشنا کرواتا ہے۔

استاد ہی وہ شخصیت ہے جو تعلیم و تربیت کا محور و منبع ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کو ایک خاص مقام اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ مہذب، پر امن اور باشعور معاشرہ کی تشکیل ایک استاد ہی کے مرہون منت ہے۔

 اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ’’ برطانیہ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مجھ پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کرسکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا۔ کمرہ عدالت میں جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کیوں چالان جمع نہیں کیا تو میں نے کہا کہ میں ایک پروفیسر ہوں اکثر مصروف رہتا ہوں ۔ اس لئے میں چالان جمع نہیں کرسکا۔ تو جج نے کہا The Teacher is in the court اور پھر جج سمیت سارے لوگ احترماً کھڑے ہوگئے۔ اسی دن میں اس قوم کی ترقی کا راز جا ن گیا‘‘۔

 تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی استاد کی قدر کی وہ دنیا بھر میں سرفراز ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس،ملائیشیااوراٹلی سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں استاد کوجو عزت اور مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ ان ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی نہیں دیا جاتاکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ استاد مینار نور ہے جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے جو ہمیں بلندی پر پہنچادیتی ہے۔ ایک انمول تحفہ ہے جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔

 اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے خلیفہ حضرت عمر فاروق ؓ سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟تو آپ ؓ نے فرمایا کہ کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘۔

 استاد کی عظمت و اہمیت اور معاشرے میں اس کے کردار پر علامہ ڈکٹر محمد اقبال کہتے ہیں کہ’’ استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپر دہے ‘‘۔

علامہ محمد اقبال کے یہ الفاظ استاد کی عظمت و اہمیت کے عکاس ہیں ۔ استاد کافرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کا کلید اس کے ہاتھ میں ہے۔ اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اسکی محنت ہے۔ استاد فروغ علم کا ذریعہ ہے لیکن اس کے علم سے فائدہ وہ نیک بخت اٹھاتے ہیں جن کے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں ۔

 انسان کی زندگی کا سب سے اہم مقصد اور فرض زندگی کی سمجھ بوجھ حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے جو کوشش کرتے ہیں اسے تعلیم کہتے ہیں ۔ یہ تعلیم روحانی، ذہنی اور جسمانی ہر طرح کی ہوتی ہے۔ اور علم کی راہ پر منزلوں کا حصول استاد کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ اسی لئے حضرت علی کہتے تھے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا میں اسے استاد کا درجہ دیتا ہوں ‘‘۔ ریختہ کے کسی نامعلوم شاعر کے کلام سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ

 دیکھا نہ کوئی کوہ کن فرہاد کے بغیر

  آتا نہیں ہے کوئی فن استاد کے بغیر

خلاصہ کلام یہ ہے کہ استاد بادشاہ تو نہیں ہوتا لیکن وہ بادشاہ گَر ضرورہوتاہے۔ ان سب کے باوجود ہمارے معاشرہ میں استاد کی اہمیت نہ تو کل تھی اور نہ آج ہے۔ یہاں استاد کو عام انسانوں کی طرح جانا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ترقی یافتہ اکیسویں صدی میں رہ کر بھی اٹھارہویں صدی جیسی زندگی گذار رہے ہیں ۔

حالانکہ استاد کی عظمت اور اس کی اہمیت ایک شاعر کے بقول۔ ۔ ۔

 رہبر بھی یہ، ہمدم بھی یہ، غم خوار ہمارے

  استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

تبصرے بند ہیں۔