ماہرین کے خیالات کو اہمیت دی جائے!

فیصل فاروق

دوستو، گزشتہ روز کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے وزیراعظم نریندر مودی پر نوٹ بندی اور گڈز اینڈ سروسیز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شکل میں دو میزائلس داغتے ہوئے معیشت کو تباہ کر دینے کا الزام عائد کیا۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو نافذ کرنے کا حکومت کا ارادہ کافی حد تک اچھا تھا لیکن حکومت نے اس قدر ناقص طریقے سے اسے نافذ کیا کہ ملک کے لوگ مصیبت میں پڑ گئے۔ زمینی سطح پر ان دونوں سے معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ خاص طور پر جی ایس ٹی، جس نے ایسے تاجروں کو بری طرح متاثر کیا ہے جو چھوٹے، درمیانے اور مائکرو اداروں کو منظم کرتے ہیں ۔

ایک انٹرویو میں ماہر اقتصادیات اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کے بعد جلد بازی میں جی ایس ٹی لانے سے اب کئی طرح کی دقت سامنے آرہی ہے، انہوں نے کہا تھا کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے غیر منظم سیکٹر اور چھوٹے پیمانے پر ہونے والے کاروبار پر مخالف اثر ڈالا ہے، جس کی جی ڈی پی میں 40/فیصدی حصہ داری ہے۔ اس کے علاوہ 90/فیصدی سے زیادہ روزگار غیر منظم شعبوں میں ہیں ۔ حالات کو بخوبی سمجھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ان حالات میں تقریباً 86/فیصدی نوٹوں کو چلن سے باہر کر دیا گیا پھر جلد بازی میں جی ایس ٹی کو لانے سے مستقبل میں جی ڈی پی پر اور زیادہ برا اثرپڑنے کی امید ہے۔

2017/کی شروعات میں یہ امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ نوٹ بند سے کافی بڑے پیمانے پر ملک سے کالا دھن ختم ہو جائے گا جس سے بینکوں کو قریب قریب تین لاکھ کروڑ کا سرمایہ فراہم کرنے کیلئے راہ ہموار ہوگی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ گڈز اینڈ سروسیز ٹیکس (جی ایس ٹی) نافذ کرنے کا فیصلہ بھی جلدبازی میں لیا گیا۔ جب حکومت کو پریشانی کا اندازہ ہوا تب جاکر کہیں جہاں ممکن ہو سکا جی ایس ٹی کی شرح میں تخفیف کی گئی۔

تمام طرح کی پریشانیاں اٹھانے کے بعد اب لوگوں کو شادیاں کرنا بھی مہنگا پڑ رہا ہے۔ صنعتی باڈی ایسو چیم نے جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی وجہ سے تبدیل شدہ قیمتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد امکانات ظاہر کئے ہیں کہ شادی کے تمام طرح کے اخراجات دس سے پندرہ فیصدی زیادہ ہو جائیں گے۔ یعنی کہ آپ کو فوٹو گرافی، تقریب کا مقام، جویلری، کپڑوں اور دیگر چیزوں کے لئے پہلے کے مقابلے زیادہ قیمت چکانی ہوگی۔

اس پورے عمل کو بغور دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی متعارف کرانے سے پہلے ماہرین اقتصادیات سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا تھا۔ اسی لئے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور اب بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ دیر ہو چکی ہے لیکن اگر اب بھی ماہرین کے خیالات کو کچھ اہمیت دی جائے تو ان اصلاحات کے اقدامات زیادہ منافع بخش ہوں گے اور ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو مضبوطی فراہم ہوگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔