مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے

احمد علی برقی اعظمی

بزم عرفاں میں کوئی محرمِ اسرار بھی ہے

’’ مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے ‘‘

خود شناسی کے لئے کیا کوئی تیار بھی ہے

خوابِ غفلت سے کہیں پر کوئی بیدار بھی

رہنما قوم کا سب خود کو سمجھتے ہیں مگر

عہدِ حاضر میں کوئی قافلہ سالار بھی ہے

کیا نہ ہوگا کوئی سرسید و اقبال کبھی

آج کیا ہم میں کوئی صاحبِ کردار بھی ہے

جس کو دیکھو ہے اسے درہم و دینار عزیز

ملک و ملت کا کوئی اپنے طرفدار بھی ہے

طور و موسیٰ کی کہانی تو پڑھی ہے سب نے

اُس تجلی کا کوئی طالبِ دیدار بھی ہے

ہے کوئی دے دے جو برقی کے سوالوں کا جواب

عالمی سطح  کا اپنا کوئی اخبار بھی ہے

تبصرے بند ہیں۔