مبارک ہو ! مسئلہ کشمیر حل ہونے کو ہے

ابراہیم جمال بٹ

اہل کشمیر کو مبارک ہو!

کسی نے پوچھا نہیں کیوں …؟

ارے بھائی اپنا بنیادی مسئلہ حل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں !

شاید آپ سمجھے نہیں …؟

جناب ہمارا اور آپ کا بنیادی مسئلہ ہے کیا؟ ذرا اس پر غور تو کیجئے!

جموں وکشمیر کا بنیادی مسئلہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ ہے ۔

یہ مسئلہ حل ہوجائے اس کے لیے بھارت کی مرکزی سرکار نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ کشمیر میں اب امن کی خواہاں ہے۔ لہٰذا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اب مذاکرات ہو نے چاہئیں ۔ جس کے لیے اب مذاکرات کار بھی منتخب ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ اعلانِ بھی کیا جا چکا ہے کہ ’’جو کوئی بھی مسئلہ کے حل کے لیے بات کرنا چاہے اس کا استقبال کیا جائے گا۔ چاہے کوئی سیاسی جماعت ہو یا کوئی علیحدگی پسند جماعت، سب لوگوں کے ساتھ بات ہو گی۔‘‘ بھارت کی مرکزی سرکار سے وابستہ بھاجپا لیڈر رام مادھو نے اعلان کیا کہ ’’مذاکرات کار دنیشور شرما ان تمام گروپوں اور تنظیموں سے بات کریں گے، جو بات کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘ رام مادھو سے جب پاکستان سے بات چیت شروع کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے میڈیا والوں سے ذرا سنبھل سنبھل کے کہا کہ ’’فی الحال ہم نے مذاکرات کار کی تقرری جموں و کشمیر میں تمام گروپوں سے بات کرنے کے لیے کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی پوری آبادی ہندنواز بن جائے۔‘‘

بات اسی پر نہیں رکتی بلکہ بھارت کے موجودہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی کہا ہے کہ ’’بات چیت کا سلسلہ ان سے شروع کیا جائے گا جو بات کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘

یہ تو تھے بھارت کی مرکزی حکومت کے اعلانات، اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ریاست کی مخلوط سرکار کی خاتون وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کیا کہتی ہیں :

انہوں نے اس بارے میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’وفاقِ ہند کے دائرے میں مسئلہ کشمیر کے حل کو ممکن قرار دیا جا سکتا ہے اورمذاکراتی ومفاہمتی عمل کے بغیر آگے بڑھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے جب کہ ہلاکتوں ، گرفتاریوں اور جیل بھرنے سے کشمیر کی زمینی صورت حال بدل نہیں سکتی۔ ‘‘

خاتون وزیر اعلیٰ کے اس بیان اور بھارت کی مرکزی حکومت کے اعلانِ مذاکرات کے بلند بانگ اعلانات کے ردعمل میں جموں وکشمیر کی مشترکہ مزاحمتی قیادت نے بھی اپنی زبان کھول کر جواب دیا کہ ’’نئی دہلی کی طرف سے مذاکرات کار کی نامزدگی ایک فضول مشق اور محض ایک شوشہ ہے،لہٰذا نامزد مذاکرات کار کا نام نہاد قیام امن کے مشن کاحصہ بننا وقت کے زیاں کے سوا کچھ نہیں ۔‘‘

اپنے بیان میں مزاحمتی قیادت نے کہا ہے کہ ’’ہمارا ہدف بھارتی قبضے سے مکمل آزادی ہے اور ہمارا کبھی بھی اندرونی خودمختاری یا آزادی کے ماسوا کسی اور حل کا مؤقف نہیں رہا ہے۔‘‘ بیان میں مزیر کہا گیا کہ ’’پی چدمبرم کی بات پر بھارتی وزیر اعظم کے بیان سے ہمارے اس موقف کو تقویت حاصل ہورہی ہے کہ مذاکرات کا شوشہ کھڑا کرکے بھارت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیرکو اس کے تاریخی پس منظر میں اور حق خودارادیت کی بنیاد پرحل کیا جانا چاہئے اور اس طرح نہ صرف بھارت بلکہ سارے بر صغیر میں امن قائم ہوگا۔‘‘ مزاحمتی قیادت نے مزید کہا کہ ’’بھارت ایک طرف بات چیت کرنے کے لئے مذاکرات کی پیشکش کررہا ہے اور دوسری طرف خود ہی اپنے ایجنڈے کو منظر عام پر لاکر اس بات کا عندیہ دے رہا کہ مسئلہ صرف ’’نام نہاد امن ‘‘کے قیام تک محدود ہے۔‘‘ بیان میں مزاحمتی قیادت نے واضح کیا کہ ’’ہم کبھی بامعنی مذاکراتی عمل کے خلاف نہیں رہے ہیں بشرطیکہ بھارت کا واحد مقصد نتیجہ خیز اور مسئلہ کشمیر کا مستقل حل تلاش کرنا ہو۔‘‘

یہ بیانات آنے کے بعد لوگوں میں ایک ہلچل پیدا ہونا فطری سی بات ہے۔ لیکن ذرا ہوشیار اور خبردار…!

بھارت کی طرف سے حسب معمول پھر ایک بار بات چیت کا اعلان ہو چکا ہے لیکن اس اعلان کو کئی لوگ کہتے ہیں کہ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ یکایک ایسا کیا ہوا ہے کہ بھارت کی مرکزی سرکار کو ’’مذاکرات‘‘ کی یاد آگئی ہے؟ کئی لوگ کہتے ہیں کہ یہ خوش آئند قدم ہے اس لیے ریاست جموں وکشمیر سے وابستہ لیڈران کو بات چیت کے لیے ٹیبل پر آجانا چاہیے ،اور اسی طرح کئی اور لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ سب کچھ بیرونی دبائو اور ۲۰۱۹ء کے مرکزی انتخابات کے لیے ہو رہا ہے۔ البتہ اس بارے میں کشمیری لوگ کیا کہتے ہیں اس کا خاکہ ابھی پوری طرح نہیں بنا۔ حالاں کہ کشمیر کے لوگ برابر مشکلات ومصائب کے شکار کئے جا رہے ہیں ۔ انہیں اس اعلانِ عام کے بعد بھی جیلوں میں بند کر لیا جارہا ہے۔ انہیں قیدوبند ہی نہیں بلکہ خوفناک اوپریشنوں کے ذریعے خوفزدہ اور مارا جا رہا ہے۔

بہر حال کہنے والے اپنی اپنی بات تو کہہ رہے ہیں البتہ ’’ہم بھارتی مرکزی حکومت کی داد دیتے ہیں کہ انہوں نے مسئلہ کے حل کے لیے ایک خوش آئند قدم اٹھایا ہے۔ یہ قدم اٹھانا نہ صرف کشمیریوں کے لیے اچھا ہو گا بلکہ پورے بھارت دیس کے لیے بھی اس میں بہت زیادہ فائدہ ہے۔ پورا بھارت بدامنی کا اگر شکار ہے تو اس کی ایک وجہ مسئلہ کشمیر بھی ہے۔ پاک بھارت تعلقات خراب ہونے کی ایک اہم وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت میں دہشت کا ماحول بننے کی ایک وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ غریبوں کی غربت کا خیال نہ کر کے صرف فوجی طاقت میں اضافہ کرنے کی ایک اہم وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے۔

اسی لیے اپنی اپنی بات کہنے والوں کے ساتھ میں بھی اپنی یہ بات کہتا ہوں کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں شاید مخلص ہو؟ اس لیے گول میز کے ارد گرد کرسیاں ڈالنی چاہئیں ۔ پھر ان کرسیوں پر بیٹھ کر گھپ شپ بھی کرنی چاہیے اور بات بات میں ہی مسئلہ کشمیر کو بھی حل کرنے کی کوششیں بھی کرنی چاہیے۔

باہر سڑکوں پر کوئی مرے یا جئے… کوئی فکر نہیں … مسئلہ کشمیر حل ہو جائے اس سے بڑی اور کیا بات ہو سکتی ہے؟

اب یہ دوسری بات ہے کہ ان کرسیوں پر کون لوگ بیٹھیں گے، مین سٹریم بیٹھے گی یا کوئی اور…؟

یہ وقت ہی فیصلہ کرے گا لیکن یہ واضح ہے کہ اس بار مسئلہ کشمیر حل ہو ہی جائے گا۔ حل ایسا جس سے یا تو سارے کشمیری ذہنی طور ہندو بن جائیں گے یا ان کے لیے مزید مصائب ومشکلات اور ماردھاڑ کی نئی حکمت عملی ترتیب دی جائے گا۔بقول دنیشور شرما کے کہ ’’وادی کے پہلا دورہ ۶؍نومبر کو کر یں گے جس دوران وہ چار دن وادی اور دو دن جموں میں گزاریں گے اور وادی کی مذہبی، سیاسی، تجارتی ودیگر سماجی وغیرہ تنظیموں سے بات چیت کریں گے اور اس کے ساتھ ہی طلبہ تنظیموں سے سے بھی رابطہ کریں گے۔ گویا یہ صاف اعلان ہے کہ وادی میں چند ماہ کے بعد کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے…!

اسی لیے میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ اہل وادی کو مبارک ہو…!

دل بدل گئے ہیں … یا …زبان بدل گئی ہے؟ اس کا نظارہ جلد ہی لوگ کریں گے۔ بدامنی کو امن کا نام نہیں بلکہ بدامنی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا نام امن ہے۔ بھارت کی مرکزی سرکار کے اگر دل بدل چکے ہیں تو اس کی سوچ بھی بدلی ہو گی… اس کی وہ سوچ کہ ’’کشمیر ہمارا ہمارا اٹوٹ انگ ہے‘‘ بھی بدل چکی ہو گی… اگر اس سوچ میں تبدیلی آئی ہے تو مبارک نہ صرف اہل جموں وکشمیر کو بلکہ پورے بھارت دیس کو ہے… کیوں کہ ایسی سوچ اور دل بدلی سے نہ صرف جموں وکشمیر کی بدامنی کی حالت تبدیل ہو جائے گی بلکہ پورے بھارت ورش کو بھی ترقی کی منزلوں کو پانے کا آسان راستہ مل جائے گا۔

دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے…؟ البتہ پھر ایک بار میری طرف سے اہل جموں وکشمیر کو مبارک……!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔