تصویر کا دوسرا رُخ

حفیظ نعمانی

پاکستان کے بننے والے وزیراعظم عمران خان نے اپنی پارٹی کی اکثریت کی خبر کے بعد جو پہلا خطاب کیا ہے اس سے صاف محسوس ہورہا تھا کہ وہ خوشی سے اپنے قابو میں نہیں ہیں۔ انہوں نے سب سے اہم اعلان یہ کیا کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں نہیں رہیں گے۔ سرکار کے نام پر فضول اخراجات کو کم سے کم کریں گے ہر صوبہ کے گورنر ہائوس کو خالی کراکے انہیں ہوٹل بنا دیں گے تاکہ ان کی آمدنی سے عوام کا فائدہ ہو۔ وزیراعظم ہائوس کو بھی کسی فلاحی یا تعلیمی کام کیلئے وقف کردیں گے۔ اور جس قدر ممکن ہوسکے گا عوام کے پیسوں کو کم سے کم خرچ کریں گے۔ عمران خان اپنے تمام پڑوسیوں،  چین، افغانستان، ایران، سعودی عرب اور ہندوستان سے ممکن حد تک تعلقات بہتر سے بہتر بنائیں گے۔ ہندوستان اگر ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو وہ دو قدم آگے بڑھ کر ملیں گے اور میز پر بیٹھ کر کشمیر کا مسئلہ حل کریں گے۔

خان صاحب نے جو کچھ کہا ہے وہ سیاست داں کی زبان نہیں ہے یہ زبان ایک کھلاڑی کی ہے پاکستان میں نواب زادہ لیاقت علی خاں سے لے کر نواز شریف تک کسی نے عوام کا دل مٹھی میں اس طرح لینے کی بات نہیں کی۔ ہم نے یہ بات پاکستان میں 1952 ء میں اپنے سرکاری ملازم دوستوں سے سنی تھی کہ جب ہم ہندوستان سے آکر نوکر ہوئے تو خیموں میں بیٹھ کر بہت دنوں کام کیا اور وزیراعظم نواب زادہ بھی دو گھنٹے اپنے کیمپ میں بیٹھ کر کام کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میرے بچے آٹھ گھنٹے کراچی کی دھوپ میں کیمپ کے اندر کام کررہے ہیں تو ہمیں بھی اپنے وزیروں کے ساتھ کم از کم دو گھنٹے روز کام کرنا چاہئے۔ اس کے بعد جب سعودی عرب میں تیل نکل آیا اور عرب ملکوں میں دولت کی ریل پیل ہوگئی تو پھر پاکستان کے بھی دن پھر گئے۔

عمران خان کے اس خطاب سے جذباتی مسلمان تو پاگل ہوگیا ہوگا اور خان صاحب نے یہ بھی اشارہ دے دیا ہے کہ مہاجروں کی پارٹی ایم کیو ایم نے جو 6  سیٹیں جیتی ہیں وہ ان کو اپنی حکومت میں شامل کریں گے۔

ہندوستان سے جو تعلقات کی بات ہے اس کے بارے میں ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ ایک سال خاموش رہیں اور 2019 ء کے بعد جو حکومت بنے اس سے بات کرنے کے لئے دو یا چار قدم آگے آئیں۔ اس وقت حکومت آر ایس ایس کی ہے اور یہ بات دوست اور دشمن سب سمجھ رہے ہیں کہ حکومت ہر قدم پر ناکام ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت کے دشمن تو گھی کے چراغ جلا رہے ہیں اور اس کے نادان اور ناسمجھ دوست صرف گالیاں بک رہے ہیں۔ اس وقت اگر عمران خان دوستی کی بات کریں گے تو نہ جانے کتنے بھالو بندر جیسے بھگوا نیتا جواب میں کہیں گے کہ ہندوستان کے لئے یہ بہترین وقت ہے کہ پاکستان پر حملہ کرکے اسے فتح کرلینا چاہئے۔ کیونکہ عمران خان ناتجربہ کار ہیں۔

ہندوستان میں دہلی صوبہ کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے حکومت ہاتھ میں آتے ہی ایسے ہی اعلان کئے تھے۔ وہ کھلاڑی تو نہیں تھے لیکن عمر کھلاڑیوں والی تھی اور جذبات بھی وہی تھے۔ ان کی مجبوری یہ تھی کہ ان کی لگام مرکزی حکومت کے ہاتھ میں تھی جو اُن کی دشمن ہے۔ اس لئے وہ کچھ کرکے نہ دکھا سکے۔ عمران خان کے ہاتھ پائوں کھلے ہوئے ہیں انہوں نے جو کہا ہے وہ کرنے میں فوج کے علاوہ کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ اور انہوں نے کردیا تو 20  برس آرام سے حکومت کرسکتے ہیں۔ ان کا مقابلہ نواز شریف سے رہے گا لیکن وہ پیشہ کے لوہار ہیں اور اتنی بدنامیاں ان سے وابستہ ہیں کہ وہ عمران خان کے مقابلہ کے لئے سوچ بھی نہیں سکتے۔ جہاں تک کردار کا تعلق ہے تو نواز شریف کے کردار کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کو قسمت نے آٹھ برس حرمین شریفین میں باعزت اور پرسکون طریقہ سے رہنے کا موقع دیا۔ کسی پاپی کو اگر یہ موقع مل جاتا تو ولی اللہ بن کر آتا اور نواز شریف جتنے گندے گئے تھے وہاں بھی کارخانے کھول کر اور گندے ہوکر آگئے۔ یعنی اللہ اللہ اللہ کے بجائے دولت ڈالر اور سونا۔

عمران خان کی داشتہ سیتا وائٹ نے کہا ہے کہ عمران خان پاکستان کی لڑکیوں کے مقابلہ میں غیرملکی لڑکیوں سے دوستی کرتا ہے اس کی پوری زندگی میں پاکستان کی صرف ریشم اور جابرہ شریف دو لڑکیوں کے نام آتے ہیں اور باہر کی گنتی ہی نہیں۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ اسے اپنے اوپر کنٹرول ہے وہ اگر اب پارسا بن کر سیاست کی دنیا میں آیا ہے تو وہ جو کہہ رہا ہے وہ کرے گا اور جیسے اس نے کرکٹ کی دنیا میں جب تک رہا بادشاہت کی اسی طرح پاکستان جیسے چھوٹے ملک میں وہ اب دوسروں کو نہیں پنپنے دے گا وہ نواز شریف کی طرح دولت کا بھوکا نہیں ہے۔ عمران خان نے اپنی ماں کی محبت میں کینسر اسپتال بنوایا جن کا کینسر کے مرض میں انتقال ہوا تھا۔ ہم نے کسی سے یہ تو سنا کہ غریبوں کا مفت علاج نہیں ہے لیکن یہ کسی نے نہیں کہا کہ انہوں نے لوٹ مچا رکھی ہے۔ اس لئے یہ توقع نہیں کرنا چاہئے کہ وہ حکومت کے زمانہ میں یا بعد میں لندن میں نواز شریف کے قریب ایک محل خریدیں گے۔

اب آصف زرداری یا پرویز مشرف تو کسی گنتی میں نہیں آئیں گے بلاول کو اگر سیاست کی دنیا میں رہنا ہے تو وہ 25  برس محنت کے بارے میں سوچیں پھر سب سے پہلے اپنے نام کو ٹھیک کریں ان کے باپ نے اقتدار کی خاطر بلاول بھٹو زرداری کردیا تھا۔ بیٹے کے نام کے ساتھ ماں کا نام نہیں آتا۔ اور اب بھٹو نام کا کوئی اثر بھی نہیں ہے وہ بلاول زرداری بنیں اور تھوڑے دن تیل اور تیل کی دھار دیکھ کر اپنی پارٹی کو سامنے لائیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں لیڈروں کی پوری ٹیم تھی آج قحط الرجال کا یہ حال ہے کہ عمران مریم نواز اور بلاول زرداری کے علاوہ کوئی سامنے نہیں ہے۔ وہ شہباز شریف جن کی مقبولیت کا ڈنکا بجتا تھا وہ خود اپنی سیٹ نہ بچا سکے اور عمران خان پانچوں سیٹوں پر جیت گئے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں جو اُن کے ساتھ کھیلتے تھے ان میں سے چند یوسف اور انضمام کی طرح دین کی فیلڈ میں بہت ممتاز مقام پر ہیں۔ اگر عمران خان سے ان کا اختلاف نہ ہو تو ان کو پوری طرح سرگرم ہونا چاہئے اور کوشش کرنا چاہئے کہ پاکستان میں جو عروج باالفروج اور اندھی اقرباء پروری یا اردو دشمنی چھائی ہوئی ہے اسے عمران خان لگام لگائیں۔ وہ خود پابندی سے اس طرح نماز پڑھیں کہ سب دیکھیں پرائم منسٹر ہائوس جہاں ہو اور جیسا ہو اس کے ایک گوشہ میں ایک مسجد بنوائیں اور اسٹاف کے ساتھ نماز پڑھیں اور وہ ملک جسے 70  برس ناپاکستان بناکر رکھا ہے اسے پاکستان بنائیں عمران خان پاکستان کو مدینہ کی طرح فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں جبکہ مدینہ ریاست نہیں ہے وہ دوسرا حرم ہے ضرورت اس کی ہے کہ ایک روشن خیال بڑے خاندان کا جواں سال عالم دین ہر تنہائی کے وقت ان کے ساتھ رہے جو ہر فیصلہ میں شریک ہو اور اسے مثالی پاکستان بنوا دے اور عمران خان کو ہر وقت توبہ کرائے گناہ کبیرہ کے لئے یا سزا دی جائے یا دل کی گہرائی سے توبہ کی جائے تو انشاء اللہ پوری اسلام دنیا کے ہیرو ہوجائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔