ایک عالم اور حساس مصنف: عالم نقوی

پروفیسر شاہ محمد وسیم

(سابق ڈین فیکلٹی آف کامرس ،کو آرڈینیٹرایم ایف سی ایم  ٹی اے ، انٹرنیشنل بزنس پروگرام ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ)

ایسا کون ہوگا عالم نقوی کا جاننے والا، جو ان کی قابلیت اور استعداد سے واقف نہ ہو !اُن کی پہچان ہےاُن کا طرز تکلم، دوستانہ گرم جوشی کے ساتھ لوگوں سے اُن کا ملنا جُلنا اور باوجود اپنی گراں قدر تصنیفات کے خنداں پیشانی کے ساتھ،اور وہ بھی لکھنوی انداز میں اُن کا ہر ایک سے ملنا جلنا، ان کی خیریت دریافت کرنا۔ سننا زیادہ اور کہنا کم۔ بات اچھی لگی تو اس کا بر ملا اظہار اور نیک نیتی کے ساتھ اپنی رائے کو شامل بیان کرنا۔ یہی اندازاُن کی تصنیفات میں بھی نظر آتا ہے۔ اودھ کی زبان، یہاں کے انداز تخاطب اور طرز تکلم پر نظر رکھنے والے، خاص کر وہ جنہوں نے اُن کی تصنیفات ’لہو چراغ (۲۰۰۲)امید (۲۰۰۸) اذان (جنوری۲۰۱۳)بیسویں صدی کا مرثیہ (مارچ۲۰۱۳) اور زمین کا نوحہ (۲۰۱۳) کو پڑھا ہے، وہ یہی کہیں گے کہ اودھ کی زبان، یہاں کی بول چال اور طرز تکلم پر عالم نقوی کھرے اترتے ہیں :

لکھنؤ !تیری بلندی، ترےماضی کو سلام۔ یاں اک عالم بھی ہیں، دیتے ہیں جو اُلفت کا پیام (ا)

اور محبت کے اِس پیام میں بھائی چارگی اور انسانی جذبات ہی نہیں سموئے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ اُن کے محرکات بھی۔ وہ بھی اس طرح کہ پیام انسانیت عام ہو اور وہ تعلیمات بھی جو اس عقیدے سے جڑی ہوئی ہیں۔ عالم نقوی نے اپنی ہر کتاب کے صفحہ اول پر جو عبارت درج کی ہے وہ ان کے یقین و عمل اور انسان دوستی سے وابستہ ہے۔ ان کی ہر کتاب کا انتساب بھی ان کے انداز فکر کو ظاہر کرتا ہے۔ لہو چراغ کو دیکھیے، اُس میں درج ہے : ’’امت مسلمہ کے فرض منصبی کو کما حقہ سر انجام دینے کی کوشش کرنے والوں کے نام ‘‘اور اگلے صفحے پر رشید کوثر فاروقی کا یہ شعر کہ :

عذاب ہی نہ سمجھ لیجیے حوادث کو

کبھی کبھی تو یہ مشکل کشا بھی ہوتے ہیں

اور پھر اگلے صفحے پر سورہ مائدہ کی آٹھویں آیت ترجمے کے ساتھ ہے کہ :’’اے ایمان والو !اللہ کے لیے کھڑے ہونے والے بن جاؤ انصاف کی گواہی دینے کے لیے۔ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس پر نہ ابھارے کہ تم انصاف نہ کرو۔ (ہر حال میں ) انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب با خبر ہے ‘‘

امید کے انتساب پر نظر کیجیے اور اس کے معنی و مطالب پر تو آّپ کو نظر آئے گی وہ ’ للک‘ جو ایک درد مند  کی پکار میں سموئی ہوئی ہوتی ہے :اُن صالح و باکردار سعید نفوس کے نام۔ جو پُر سکون اور پُر تعیش زندگی کو چھوڑ کر صرف رضائے الٰہی اور غلبہ اسلام کی آرزو لیے جیتے اور مرتے ہیں۔ جنہوں نے ببانگ دُہَل کہا :’’اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر جم گئے ‘‘جن کا اعلان ہے :’’بے شک میریہ  نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب ا لعالمین کے لیے ہے۔ ‘‘

اذان کے سر ورق پر رشید کوثر فاروقی کا یہ شعر عنوان کتاب کے نیچے درج ہے کہ :

نہ ہوں امام نہ ہے کوئی مقتدا میرا

اذان دینے کو آیا تھا، دی اذاں میں نے

اور فہرست عنوانات سے پہلے ’انتساب ‘ اس طرح ہے :’’بھائی ابا (سید محمد کاظم نقوی) کے نام جو مجھے ایک خطیب اور ذاکر بنانا چاہتے تھے۔۔امی (مرحومہ عالیہ خاتون بنت نذیر احمد نقوی کے نام جنہوں نے بارہ سال کے اپنے یتیم بیٹے کو نہ صرف باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، بلکہ  اۃسے ناگفتہ بہ حالات سے مردانہ وار لڑنے کے لائق بھی بنا دیا۔ ۔اور۔ مرحومہ اہلیہ (گل زرینہ نقوی بنت سید عقیل نقوی ) کے نام۔ کہ دور رہتے ہوئے جسے خط لکھ  لکھ کے ہم لکھنا سیکھ گئے ! ‘‘

ماحولیات کی تباہی کے موضوع پر لکھے گئے مضامین کے مجموعے ’بیسویں صدی کا مرثیہ‘ کے اندرونی صفحہ پر سورہ روم کی ۱۴ ویں آیت درج ہے  کہ ’’زمین میں فساد نہ پیدا کرو، جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے ‘‘اور اس کتاب کا انتساب اس طرح ہے کہ:

اپنے بچوں ایلیا، سمانہ، عالی، میثم اور اُن کے سبھی ہم عمروں کے نام۔ کہ اب مستقبل ان کا ہے۔ اور انہیں کو اسے بنانا اور سنوارنا بھی ہے۔ ۔ہمیں بھی دنیا بہت اچھی حالت میں نہیں ملی تھی، لیکن افسوس کہ ہم اس سے کہیں زیادہ بری حالت میں اُسے، نسلِ نَو کے لیے چھوڑ کر جا رہے ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تبارک و تعالی اُن سن سے وہ کام لے لے جو ہم انجام نہیں دے سکے اور وہ ان تمام کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں جو ہم شروع بھی نہ کر سکے ‘‘۔

ماحولیات کی بربادی ہی کے موضوع پر  اپنے مضامین کے دوسرے مجموعے ’زمین کا نوحہ ‘ کے اندرونی سر ورق پر  سورہ روم کی یہ  آیت  کہ ’’انسانوں کے اپنے کرتوتوں کی بدولت  خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے ‘‘درج کرنے کے بعد انجم عرفانی کے یہ دو شعر لکھے ہوئے ہیں :

کھیت کی جے، کھلیان کی جے، گل کی گلشن کی جے

اس دھرتی کو سورگ بنانے والی لگن کی جے

اس دھرتی سے لاکھ اکھاڑین تیز ہوائیں پاؤں

پھر بھی انجم بندھے ہیں جس سے اُس بندھن کی جے

اور انتساب اس کتاب کا درج ذیل ہے :داعی حق، مبلغ دین فطرت ڈاکٹر عبد الرحمن انصاری، حکیم امت مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی، ماہر نباتات ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی، ماہر ماحولیات پروفیسر جمال نصرت، اور، ڈاکٹر سید عبد الباری (مرحوم ) اور ڈاکٹر سلیم خان کی خدمات علم و حکمت و ادب و انسانیت کے نام ‘‘۔۔اور پھر اگلے صفحے پر مندرجہ ذیل اشعار ہیں :

پرانے زمانے میں دیتے تھے زہر

دوا دے کے بیمار کرتا ہے وہ

(معراج فیض آبادی )

یہ ترقی حاضر جیسے کوئی رقاصہ

زہر نوش جاں کر کے، رقص ِ آخری ناچے

(رشید کوثر فاروقی)

اور صفحہ آٹھ پر سورہ زمر کی یہ آیت ہے کہ ’’کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں ؟ ‘‘اور پھر بعنوان ِ ’جہل خرد ‘ اور ’غرور ِ علم ‘ یہ اشعار :جہل خرد نے دن یہ دکھائے۔ گھٹ گئے انساِں بڑھ گئے سائے (جگر مرادآبادی )۔ ۔کل جہالت تھی نادر و چنگیز علم کی روشنی ہے آج عذاب

 آلہ قتل آج نوک قلم، آج کاغذ ہے قتل گہ کا جواب (ابن صفی۔ اسرار ناروی )

لہو چراغ کے دیباچے میں ڈاکٹر سلیم خان نے تحریر کیا ہے :’’لہو چراغ میں کب، کہاں اور کیسے، ان سوالات کے جواب نہیں دیے گئے ہیں، جن کا تعلق ماضی سے ہے، بلکہ ’کیوں ‘ پر زیادہ زور دیا گیا ہے، جو کچھ، جب جب، جہاں جہاں اور جیسے جیسے وقوع پذیر ہوا وہ کیونکر ہوا ؟واقعات کی وجہ جواز کا تجزیہ ہے۔ اس لیے کہ اسباب و علل کی دنیا میں جب بھی یہ وجوہات موجود ہوں گے، یہ واقعات بھی رونما ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انداز پیشکش روایتی (کلاسیکل) کے بجائے تجریدی (اَیبس ٹِرَیکٹ )ہے۔ کتاب کے نام اور اسلوب نے اسے مرتب نظم کے بجائے، مرصع غزل کے پیرائے میں ڈھال دیا ہے۔ جو لوگ ان واقعات کے شاہد ہیں وہ پس منظر میں چشم بینا سے پھر ایک بار اس داستان خوںچکاں کی زیارت کر لیں گے۔ ساتھ ساتھ (انہیں ) اپنی دینی و اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس بھی ہوگا اور ان کے اندر اپنے آپ کو اور آئندہ نسلوں کو اس طرح کے اندوہناک حالات سے محفوظ و مامون رکھنے کا حوصلہ اور جذبہ عمل بھی حاصل ہو گا، ان شا ءاللہ۔

لہو چراغ اجالوں کو اور پھیلادو

۔شفق کی سرخی نئی صبح کی علامت ہے ! ‘‘(۲)

امید کے سر ورق پر  احمد ندیم قاسمی کے اس   شعر کا دوسرا مصرع  درج ہے جسے ٹائٹل کورکے خالق آرٹسٹ ایم طاہر نے ’مصور‘ کر دیا ہے :

میں تو  یہ دیکھ کے پت جھڑ پہ بھی ہنس دیتا ہوں

ایک پتہ ہے سر ِ شاخ ابھی مستحکم!

 اور ’’سُن لو مری نَوا کہ یہ شاید ہو آخری‘‘کے عنوان سے عالم نقوی نے اپنے نام پروفیسر رشید کوثر فاروقی کے ایک خط کچھ اقتباسات نقل کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اشرار و شیاطین تو اغراض نفسانیہ (Vested Interest)کی بنا پر وہی کرتے ہیں، جو کرتے آئے ہیں اور جو انہوں نے کیا ہے مگر بے اثر و خائب و خاسر رہتے۔ یہ جو میں کہا کہ وقت کم بلکہ معدوم ہے، اس لیے کہا کہ تلافی ہو بھی تو اس مختصر سی مدت میں کیسے ہو ؟ جب کہ بے بسی (اور) وطن میں رہ کے ’غریب ا لوطنی ‘ کا عالَم ہے۔ ۔یہ تو سچ ہے کہ سچ سننے والے کتنے ہیں مگر اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ حق گو پر نہ عدم سماعت کی ذمہ داری ہے نہ گراں گوشی کی۔ اُسے حق کہنا ہے اور حق اسی لیے کہنا ہے کہ سنا جائے یا نہ سنا جائے مگر کہا جائے متصل کہا جائے، مکرر کہا جائے :

سن لو مری نوا کہ یہ شاید ہو آخری

بلبل ہوں جس کو تاک لیا ہے عقاب نے(۳)

لیکن اس امر میں بھی جو مشکل درپیش ہے اس کا ذکر عالم نقوی نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ :’’صرف جدید تعلیم یافتہ دانشور طبقے کو ایک جگہ، ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنا چاہیں، تو مشکل کی حدیں ناممکن سے ملنے لگتی ہیں، پھر یہ پتہ نہیں چلتا کہ کب کوئی عرف عام والا ’عالِم ‘ جہالت پر اُتر آئے اور کب کوئی عمومی اصطلاح والا جاہل عالموں کو شرمندہ کردے۔ مودودی اور افغانی، مطہری  اور شریعتی، اقبال اور سید قطب  کی مثالیں (نسبتاً)استثنائی ہیں کہ انہیں (کم و بیش ) یکساں طور پرمَدارِس اور یونیورسٹیوں  دونوں کے طلاب اور اساتذہ کے سامنے دین کی تحریکی دعوت رکھنے کا موقع ملا اور اُن کی غیر معمولی نابغانہ، عبقری اور مقناطیسی شخصیتوں اور صلاحیتوں کے سبب انہیں خالص دانشوروں کے مجمعے بھی ملے، جہاں انہیں تمام موجودہ نظامہائے فکر اور اسلام کے درمیان تقابلی جائزہ پیش کرنے کا موقع ملا اور وہ عقلیت پسندوں کے مجمع کو اپنی Pragmatic Approachاور ہم عصر نظاموں کی گہری سمجھ کی بدولت متاثر کر سکے (۴)

 ’امید ‘ بڑی پُر معنی کتاب ہے۔ اس کے نَو اَبواب میں مندرجہ ذیل عناوین کے تحت نہایت اہم اور غور طلب معاملات پر بے باکانہ رائے کا اظہار کیا گیا ہے :

 دستاویز، نوشتہ دیوار، دہشت گردی، تاریخ سے کھلواڑ، نظریات باطلہ، حقوق انسانی، بد عنوانیاں،  ذرائع ابلاغ اور نوید سحر۔

اس کا انتساب بھی، جو ہم شروع میں نقل کر چکے ہیں، رسمی نہیں، اللہ کے نیک اور عبادت گزار بندوں کے طرز زندگی  ان کے حق اور اس پر جمے رہنے کے ساتھ ان کے کردار اور اور ثبات کا ذکر سموئے ہوئے ہے۔

امید کے صفحہ ۱۸ پر سورہ بقرہ کی۱۳۸ ویں آیت نقل کرنے کے بعد کہ ۔ ۔’’اللہ کا رنگ اختیار کرو (یا اللہ کے رنگ میں رنگ جاؤ  کہ)اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوسکتا ہے‘‘،’دستاویز‘ کے زیرِ عنوان  عالم نقوی لکھتے ہیں  کہ۔ ’’ایک فرد کے جسم کی طرح ملت اسلامیہ بھی اپنا (ایک) جسم رکھتی ہے۔ جس طرح ایک فرد بیمار ہوتا ہے تو وہ دوا کے استعمال اور پرہیز سے تندرست ہو سکتا ہے اُسی طرح ملت اسلامیہ اپنے اسباب ضعف کو دور کر کے ان کی تلافی کرلے تو اس کا زوال اور اضمحلال ختم ہو سکتا ہے، اس کی عظمت رفتہ واپس آسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ملت کے ہر فرد کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ ملت افراد کے مجموعے ہی کا نام ہے۔ ہر فرد ایک موج کی حیثیت رکھتا ہے جس سے دریا متلاطم ہوتا ہے۔ ‘‘

اور اس کے بعد عالم نقوی نے مختلف عناوین کے تحت اظہار خیال کیا ہے۔ ان میں ہم  سے ہر ایک کے تحت اس کے کچھ جملےنقل کریں گے جس مصنف کی مہارت اور قاری کو آمادہ کرنے کی صلاحیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے :

(۱)احیائے اسلام کی سبیل:جدید تعلیم یافتہ اور دانشور طبقے کے اندر احیائے امت کا پروگرام کیا ہونا چاہیے ؟(۲)شہدا ء علی ا لناس :دعوتی و اصلاحی کوشش عمومی ہونی چاہیے۔ قبولیت بقدر صلاحیت ہو تی ہے اور اثر بقدر توفیق اور توفیق کا تعلق انسان کی اپنی نیت اور خواہش سے ہوتا ہے۔

(۳)کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب  :ہم خود اپنے ذاتی تجربے سے جس نتیجے پر پہنچے ہیں، وہ یہی ہے کہ خواص پر بہت زیادہ وقت برباد کرنے یا اُن کی بے جا فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

(۴)عذاب کا کوئی دروازہ ایسا نہیں جسے کھولنے کی ہم نے کوشش نہ کی ہو :ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز۔ چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی۔ ۔اقبال کا یہ شعر پوری تاریخ انسانیت پر محیط ہے۔ ۔صرف حجت الٰہی اور کچھ صالحین و مجاہدین امت کی موجودگی کے سبب یہ قوم عذاب سے بچی ہوئی ہے۔ ۔یہ امت کائنات کے اعلی ترین مقام ’مقام محمود ‘ کے حامل نبی ﷺکی امت نہ ہوتی تو کب کی بنی اسرائل کی طرح مبتلائے عذاب ہو چکی ہوتی۔ ‘‘

(۵)ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے : ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے کہ معلوم انسانیت کے بڑے حصے پر اسی امت وسط کی حکمرانی تھی۔ لیکن قرآن کے مقرر کردہ معیار مؤمن پر باقی نہ رہنے کی وجہ سے وہ ڈھال ہم سے چھن گئی جو بیرونی سازشوں سے ہماری حفاظت کرتی تھی۔

(۶)جنیٹکس اور بایو ٹکنالوجی کا طوفان نئے فرعون اور نمرود پیدا کرنے والا ہے ! (۷)آئیے انسانیت کی پکار پر لبیک کہیں ! آنے والا کل بہر حال اسلام کاہے۔ آج اگر اِس’’ غیب ‘‘پر ایمان لے آئے تو ہمارا شمار اِس عہد کے ’’سابقون ا لاولون ‘‘ میں ہو سکتا ہے ورنہ۔تطہیر کا عمل (ہندستان سمیت )پوری  دنیا  میں شروع ہو چکا ہے۔ بے کار، غیر نفع بخش اشیاء اور کنفیوژن کے شکار یا دوسروں کو کنفیوزڈ کر دینے والے افکار و افراد کی یہاں کوئی ضرورت نہیں۔

(۸)نہیں ہم مایوس نہیں ہو سکتے اور بھلا کیوں مایوس ہوں ؟:نہیں ہم اپنی اس ملت سے ہرگز مایوس نہیں ہو سکتے۔ وہ دن آئے گا اور ضرور آئےگا ان شا ء اللہ جب حالات وہ نہیں ہوں گے جو آج ہیں بقول سید عارف (مرحوم) بستیاں پھر نئی آباد کرے گا کوئی۔ بس مجھے دھول اُڑانے کا ہُنر دے جاؤ!

اس کے بعد صفحہ ۳۱  پر درج ہے کہ۔ ۔’’دنیا کے سارے مظلوموں، بالخصوص مسلمانوں، عربوں اور فلسطینیوں کو اسی دن کا انتظار ہے جب دنیا میں شر کے دو حقیقی محور یعنی اسرائل اور امریکہ کے ظالم حکمرانوں کو اللہ جل شانہ ان کے کیے کی سزا دے گا، اُنہیں ذلیل و خوار کرے گا اور انہیں حقیقی رُسوائی کے علاوہ اس دنیائے فانی کی ذلت سے بھی ہمکنار کرے گا اور دنیا کے ہر گوشے سے سکون و اطمینان کے خاتمے اور اللہ کے بندوں کو چین اور راحت سے محروم کر دینے اور ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھانے کی سزا اس دنیا والے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ ۔‘‘

اس کے بعد صفحہ ۳۲ پر ’نوشتہ دیوار ‘کے اوپر سورہ آل عمران کی آیت ۱۳۹ درج ہے کہ :’’تم ہی غالب و سربلند رہوگے اگر تم مؤمن ہو ‘‘اس کے بعد وہ لکھتے ہیں :’’اسلام دشمنی تمام مغربی ممالک کو  (جن میں امریکہ، یورپ اور جاپان وغیرہ سب شامل ہیں )اپنے باہمی اختلافات و نزاعات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے۔ اور ’الکفر ملت واحدہ ‘ کی صورت حال درپیش ہے، وہ کسی بھی قیمت پر دنیا کے کسی بھی خطے میں اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے ابھرنے اور غالب ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اسلام بے لگام آزادی، سود، فواحش اور جنسی ابا حیت کی اجازت  ہر گز نہیں دیتا اور مغربی تہذیب اور مغربی نظام مدنیت و معیشت ان ہی مذکورہ بالا منہیات سے عبارت ہے۔ یہ جنگ یہ فیصلہ کرے گی کہ دنیا اُس طرح چلے گی جس طرح ابلیس اسے چلانا چاہتا ہے یا اُس طرح جیسے اُس کا خالق اور پروردگار اُسے دیکھنا چاہتا ہے ! ‘‘

اس کے بعد صفحہ ۳۳ سے ۵۹ تک درج ذیل پندرہ مضامین ہیں جن کے عناوین  ہی سے ان کی کیفیت و اہمیت کا اندازہ   ہو جاتا ہے (۱)برتو پرکھو، دیکھے بھالو ( یہ رشید کوثر فاروقی کی ایک غزل کے  مطلع  کا پہلا مصرع ہےجس کا دوسرا مصرع یہ ہے کہ ’ موند کے آنکھیں دل نہ لگا لو‘ )۔(۲)امریکہ بنام یورپ نہیں، صہیونیت بنام اسلام (۳)ہمارے لیے آرام   کہاں ! (متن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ  بھی رشید کوثر فاروقی کے اس شعر سے مستعار ہے کہ ’اک طرف ڈوب گئے ایک طرف جا نکلے۔ ہم تو سورج ہیں ہمارے لیے آرام کہاں )(۴) ظلم کے خاتمے کا پہیہ گھوم چکا ہے (۵)نفرت کی مہم  بند کیجیے (۶)پھر راستے اپنے آپ کھلیں گے (۷)تو اُن کو ایسا کر دیا کہ جیسے کھایا ہوا بھوسہ(۸)یہ غرور علم کے مارے ہوئے لوگ (۹)کتاب و سنت کا کوئی متبادل نہیں (۱۰)تیار رہیے !عظیم  تباہی ہماری منتظر ہے (۱۱)جنگ اور تباہی تو مقدر ہے لیکن۔ ۔۔!(۱۲)عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد (۱۳)فرض کیجے، ایسا ہو تو کیا ہو۔ ۔!(۱۴)زوال امت کا آخری مرحلہ۔ اور (۱۵) بہ این خاک آفتابے را گزر نیست ؟

صفحہ ساٹھ پر تیسرے باب بہ عنوان ’دہشت گردی ‘ کے آغاز سے قبل سورہ مائدہ کی آٹھویں آیت  اور اس کا ترجمہ درج ہے۔ عنوان  کے نیچے  جو عبارت ہے وہ ملاحظہ ہو :

’’القدس کی بابرکت سر زمین، مردود ِبارگاہ ِ اِ لٰہی یہودکے غاصبانہ قبضے میں ہے۔ بنجامن نیتن یاہو کے یہ شیطانی الفاظ کم و بیش ہر یہودی دل کی آواز ہیں کہ ہم تشدد اور خونریزی کے علاوہ کسی اور ذریعے پر بھروسہ نہیں کرتے۔ اسی کے ذریعے ہم عظیم تر اسرائیل کے قیام کا فرض پورا کر سکتے ہیں۔ ‘‘لیکن یہ امت وسط خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی۔ قرآن کا اعلان ہے کہ ’’اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا، اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ ‘‘

اور اس کے بعد مندرجہ سرخیاں قائم کر کے مصنف نے اپنے خیالات اور حقیقت کا اظہار کرنے والے مضامین کو شامل کتاب کیا ہے (۱) ’بے حسی کے جذبوں کو خون کی ضرورت ہے ‘،سرکاری دہشت گردی پر قرطاس اَبیض(۲)دہشت گردی جہاد نہیں، اور جہاد دہشت گردی نہیں (۳)پوٹو۔ دہشت گردی سے بڑا خطرہ۔دہشت گردی اور قانون  (۴)چپ رہے تو ظالم کو فرصت ستم ہو گی(۵) ایڈز، بھوپال اور بابری مسجد :یہ بھی دہشت گردی ہے جناب ! (۶)مسلمانوں کو غصہ کیوں آتا ہے ! (۷)حقیقی دہشت گرد کون ؟(۸)جسے جینا ہو، مرنے کے لیے تیار ہو جائے ! (۹)جنگ دہشت گردی کا حل نہیں (۱۰)مدرا راکشس جی ہم آپ کے ساتھ ہیں (۱۱)عید مبارک (۱۲) دہشتگردی کا علاج۔ اس آخری عنوان کے تحت دسمبر ۲۰۰۰ میں شایع اس کالم کے آخری پیرا گراف میں عالم نقوی لکھتے ہیں  ’’فلسطین ہو یا کشمیر، جافنا ہو یا آئر لینڈ، نکسلی تحریک ہو یا بہار میں پرائیوٹ سیناؤں کا عذاب، سب کا ایک ہی حل ہے۔ ظلم کا خاتمہ اور انصاف کا قیام۔ دہشت گردی کے درخت کو جب غذا ہی نہ ملے گی تو وہ اپنے آپ سوکھ جائے گا۔ ،’’اور جان لیجیےکہ ظالم کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ ‘‘ یہ  آخری فقرہ سورہ شعرا کی آخری آیت (نمبر ۲۲۷)کی ترجمانی ہے۔ اس  کے اگلے صفحے پر (ص ۱۰۱) چوتھے باب ’تاریخ سے کھلواڑ ‘ کے آغاز میں  سورہ مائدہ کی آیت ۸۲ درج ہے کہ ’’تم اہل ایمان سے دشمنی میں سب سے زیادہ سخت یہود و مشرکین کو پاؤ گے‘‘ اس کے نیچے عالم نقوی لکھتے ہیں کہ ’’ اگر کوئی کہے کہ دنیا کو درپیش مسائل کو صرف ایک ہی لفظ میں بیان کر دیجیے تو ہم کہیں گے :’’ ظلم ‘‘! مذہبی و تہذیبی، لسانی و علاقائی، نسلی و طبقاتی، ذات پات کے اور سماجی، قومی اور بین ا لاقوامی، جتنے مسائل اس عالم آب و گِل میں ہو سکتے ہیں وہ سب ’ ظلم ‘ ہی کے  مختلف  جہات اور مظاہر ہیں  لیکن ’شرک ‘ ان میں سب سے بڑا ظلم ہے کہ ظلم کی ہر قسم اسی شرک کی کوکھ سے پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘

اس کے بعد عالم نقوی نے اپنے خیالات کو مندرجہ ذیل  پندرہ عناوین کے تحت بدرجہ اَتَم قارئین تک پہنچایا ہے۔ (۱)تاریخ سے کھلواڑ کرنے والے انصاف نہیں کر سکتے (۲)سب جرم تو کرنا، کبھی حق بات نہ کہنا (۳)تیار رہیے کچھ ہونے والا ہے۔ ۔(۴)خوف کی چادر اوڑھے بیٹھی قوم کی حالت کیسی ہے؟ (۵)پارلیمنٹ پر حملہ، ایک زاویہ نظر (۶)تلوار اچک لے گئے تسبیح تھما دی (۷)یہ اہنسا کے پجاری(۸)سنگھ پریوار کے خفیہ ایجنڈے کا علاج (۹)دجل فریب، عزت اور امتحان (۱۰)و قنا عذاب النار (۱۱)طاقت کا حصول ضروری ہے (۱۲)اصل مسئلہ تو اور ہی ہے(۱۳)کچھ ہندو یونٹی اور روہت ویاس مان کے بارے میں (۱۴)سنگھی ایجنڈے کو جانیے اور (۱۵)ہندو سامراجیت کی تاریخ۔

 اس باب کے اختتام پر(ص۱۴۳) عالم نقوی لکھتے ہیں :

قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم لوط کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہےکہ قدرت جلدی کسی قوم سے نا امید نہیں ہوتی۔ انتظار کرتی ہے۔ تباہیاں اس وقت آتی ہیں جب اصلاح کا جذبہ اجتماعی طور پر ختم ہوجاتا ہے یا اصلاح کی طرف متوجہ کرنے والے عناصر کی تعلیمات سُنی اَن سُنی کر دی جاتی ہیں، یا خیر کا عنصر ہی  قومی جسد سے خارج ہوجاتا ہے۔ تو جب مذکور اقوام کی صلاحیت ِ اصلاح پذیری ختم ہو گئی تو قدرت کی طرف سے ان قوموں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ حوادث اور تباہیاں آج بھی نازل ہو رہی ہیں جو عام انسانوں کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے با لخصوص  انتباہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کوئی ہے جو ان حقیقی اسباب پر غور کرے ؟

جو قوم تاریخ کو بھلا دیتی ہے، تاریخ بھی اسے بھلا دیتی ہے۔ ‘‘

اگلے صفحے ( نمبر۱۴۴) سے پانچویں باب ’’نظریات ِ باطلہ ‘‘ کا آغاز  سورہ بنی اسرائیل کی اس آیت سے ہوتا ہے کہ ’’ بے شک باطل تو فنا ہونے ہی والا ہے ‘‘اس کے بعد مصنف نے لکھا ہے کہ ’’آج اپنے حریفوں کی تیر اندازی سے زیادہ اپنے  اُن قائدین کی یاد آتی ہے جو عزم  اور حوصلے کے ناقابل تسخیر پہاڑ تھے۔ جنہوں نے اپنے سینے حریفوں کے ہر وار کے لیے کھول دیے تھے تاکہ ملت کے عقیدہ ء عمل کو ضرب نہ پہنچے۔ ان کو وہ بصیرت حاصل تھی کہ طاغوت کی خوشنمائی کا پردہ چاک کر کے اس کے گھناؤنے کردار کو واشگاف کر سکیں۔ انہوں نے جوانوں کی زندگیاں بدل دیں۔ عقائد کو تازگی بخشی اور بے بسی اور خود شکستگی کو یقین اور حوصلے سے بدل دیا۔ آج پھر ویسے ہی قائدین کی ضرورت ہے جو امت کو صہیونی سامریوں کے دجل سے بچا کر پھر سے صراط مستقیم پر ڈال سکیں۔ ‘‘اس کے بعد فاضل مصنف نے  آٹھ سرخیاں قائم کر کے سترہ صفحات میں (ص ۱۶۱ تک) صورت حال کا جائزہ لیا ہے،اُن پر تبصرہ کیا ہے اور حل مشکلات پر پڑے ہوئے پردے نوک قلم سے ہٹا دیے ہیں جو درج ذیل ہیں (۱) جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (۲)فا نصرنا علی ا لقوم ا لکافرین (۳)جواب شکوہ (۴)مسلمان کیا کریں (۵)نہیں کچھ اور تری راہ کے سوا معلوم (۶)حق کو چھوڑ کر گمراہی کے سوا اور کیا ہے ؟(۷)سچ کی قیمت پر جھوٹ نہ بولیے۔ اور  (۸)جمہوریت کا اصلی چہرہ۔ اس مضمون کے آخر میں عالم نقوی لکھتے ہیں کہ ’’

ہمارے  معاشرے میں خواتین پر تشدد ایک حقیقت ہے۔ اخبارات روزانہ ایسی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ گھریلو  تشدد بھی اسی کا ایک حصہ ہے مگر صرف قانون بنا کر اس سماجی مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ مغرب کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں عورت کو زبردست قانونی تحفظ حاصل ہے مگر اس کے باوجود امریکہ اور یورپ میں خواتین کا مردوں کے ہاتھوں پِٹنا، طلاق کی کثرت، جنسی تشدد، نکاح سے اجتناب، بغیر شادی کے ساتھ رہنے کا رجحان، نسل کشی، نئی نسل کی بے راہ روی اور ذہنی و نفسیاتی امراض کا اضافہ وغیرہ عام ہے۔ اس کا بنیادی علاج اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اخلاقی قدروں اور خاندانی نظا م کو بحال کیا جائے۔ ابا حیت اور بے لگام آزادی  مرض  کا سبب ہے  علاج نہیں۔ ‘‘(۵)

چھٹا باب ’حقوق انسانی ‘دس صفحات اور صرف تین مضامین پر مشتمل ہے۔ آغاز سور ہ نساء کی ۷۵ ویں آیت سے یوں  ہوتا ہے کہ ’’اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں ‘‘اور پھر عالم نقوی لکھتے ہیں کہ’’(آج) بڑے بڑے علاقوں کی آبادیاں غنڈہ بن گئی ہیں اور وہ کام کر رہی ہیں جو کسی غنڈے کے خواب و خیال میں بھی کبھی نہ آئے تھے۔ شیر خوار بچوں کو ماؤں کے سینوں پر رکھ کر ذبح کیا گیا۔ زندہ انسانوں کو آگ میں بھونا گیا۔ شریف عورتوں کو بر سر عام ننگا کیا گیا ہے اور ہزاروں کے مجمع میں میں ان کے ساتھ بد کاری کی گئی ہے۔باپوں، شوہروں اور بھائیوں کے سامنے ان کی بیٹیوں، بیویوں اور بہنوں کو بے عزت کیا گیا ہے۔عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں پر غصہ نکالنے کی ناپاک ترین شکلیں اختیار کی گئی ہیں۔ بیماروں اور زخمیوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا ہے۔‘‘ (۶)

اس عبرت انگیز حقیقت نگاری کے بعد فاضل مصنف نے درج ذیل سرخیاں قائم کر کےاپنے خیالات بحوالہ ء صورت حال مندرج کیے ہیں۔ (۱)اِٹ ہیپِنس اونلی اِن انڈیا (۲)قوم کے ساتھ فراڈ اور (۳)اندھیر ہو دن میں تو اسے رات نہ کہنا۔ صفحہ ۱۷۶ پر اس باب کا اختتام  مصنف نے اس سوال پر کیا ہے کہ ’’آخر حکومت ہند ’فرقہ وارانہ فسادات کے  تدارک و علاج ‘کے بارے میںقومی اقلیتی کمیشن کی ۱۹۹۹ کی رپورٹ پر عمل کیوں نہیں کرتی جس میں سفارش کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون لاکر ایک اعلیٰ سطحی با اختیار کمیشن برائے کمیونٹی تعلقات جلد از جلد قائم کیا جائے اور اس کمیشن کے چئیر مین اور ممبران کا تقرر اسی طرح ہو جس طرح قومی حقوق انسانی کمیشن کے چئیر مین اور ممبران کا تقرر ہوتا ہے۔ بس فرق اتنا ہو کہ یہ اس سے زیادہ با اختیار ہو اور گفتگو کے ذریعے تنازعات کے پر امن تصفیے میں ناکامی  کی صورت میں نفرت پھیلانے اور تشدد کرنے والوں کے خلاف بہ سرعت قانونی تادیبی کارروائی کرے۔ ‘‘

کتاب کے صفحہ ۱۷۷ پر سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۸ درج ہے کہ ’’ناحق ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ‘‘۔اس کے بعد کتاب کے ساتویں باب ’بد عنوانیاں ‘اس طرح شروع ہوتا ہے :’’سماج میں کرپشن، رشوت  اور کام نہ کرنے  یعنی حرام خوری کا رجحان اتنا عام ہو گیا ہے کہ اور اس کی جڑیں اتنی گہری ہو گئی ہیں کہ ایک محکمے سے تعلق رکھنے والا رشوت خور ملازم جب دوسرے محکمے میں کسی کام کے لیے جاتا ہے تو اس کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت وہ اندر ہی اندر کڑھتا ہے۔ آج سو کروڑ کی آبادی میں شاید ایک لاکھ بھی سچے اور ایماندار لوگ نہ نکلیں۔ اوپر سے نیچے تک آوے کا آوا ٹیڑھا ہے بلکہ برائی تو اوپر ہی سے نیچے کی طرف آتی ہے۔ نیچے سے اوپر نہیں جاتی۔ اگر بڑے لوگ اور حکمراں ایماندار، دیانت دار، سچے اور پاکباز ہوں تو عوام کی اکثریت بھی ان کے جیسا بننے کی کوشش کرے گی۔ آج عوام میں جرائم اور اخلاق باختگی کی بہتات اسی لیے ہے کہ ان کے قائدین اور حکمراں اخلاق باختہ اور جرائم گزیدہ ہیں۔ ‘‘اس کے بعد عالم نقوی نے درج ذیل چار عناوین کے تحت اس موضوع پر اپنے بامقصد خیالات و افکار صفحہ قرطاس کے حوالے کیے ہیں : (۱)ماڈرن رام راج کی شرم ناک اُپلَبدِھیاں (۲)چہرے کے دھبوں کی خبر لو آئینوں کو پوچھنے والو ! (۳)اپنی منزل پر نظر رکھ رہگزاروں سے نہ کھیل۔ اور (۴)جرم کی سزا ذلت نہیں رحمت ہے !

اس باب کے اختتام پر (ص ۱۹۲) وہ لکھتے ہیں : ’’(آج بھی )لڑائیوں میں پہلے ہی کی طرح دو فریق ہیں۔طاقتور اور کمزور۔ ۔طاقتور۔۔ کمزوروروں کے سارے وسائل۔ ۔اپنے قبضے میں۔ ۔رکھنا چاہتا ہے (اس طرح ) تہذیبی برتری خود بخود قائم ہو جاتی ہے۔ ‘‘

  صفحہ ۱۹۳ پر سو۳رہ حجرات کی چھٹی آیت سے آٹھویں باب ’ذرائع ابلاغ ‘(میڈیا )کا آغاز ہوتا ہے کہ ’’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو پہلے اس کی تحقیق کرو ‘‘عالم نقوی لکھتے ہیں کہ :

’’اس وقت ملت اسلامیہ کا حال یہ ہے کہ چہار طرفہ حملے کے سامنے عوام و خواص دونوں ہراساں ہیں۔ اس یورش کو بڑھانے میں زرائع ابلاغ کا اہم رول ہے۔ گزشتہ صدی میں میڈیا کی رسائی محدود تھی۔۔مگر اب جس نسبت سے میڈیا کی رسائی بڑھی ہے، اُسی نسبت سے اس کی شدت اور اثر میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اب یہ مصیبت اس سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ اب تو دشمنان اسلام کے دباؤ میں آکر مسلم ممالک نے اپنی نصابی کتابوں میں تبدیلی تک شروع کر دی ہے۔ قرآن میں تبدیلی کا مطالبہ اسی تحریک کا حصہ ہے۔ اللہ کی سنت تو نہ تبدیل ہوتی ہے نہ تحویل ہوتی ہے ہاں اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے والے ضرور اپنے (برے ) انجام  کو پہنچ جاتے ہیں۔ ‘‘اس کے بعد عالم نقوی نے درج ذیل چھے عناوین کے تحت  حالات و معاملات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رائے قلم بند کی ہے اور ملت کا حال زار بیان کر کے ضمناً حل کی طرف اشارہ کیا ہے۔

(۱)میڈیا میں داخلہ، وسائل اور مشکلات:یہ ہے کار بصیرت آنکھ والو۔ جو لکھا ہے پس دیوار پڑھنا  (۲)مسلم مسائل اور میڈیا:مصیبت سوچنا آزار پڑھنا۔ عذاب جاں ہوا اخبار پڑھنا  (۳)یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی !اس کے ذیل میں مندرجہ ذیل اشعار بھی درج ہیں کہ ’’ اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے۔ تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی۔۔نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا۔ خلافت کی کرنے لگا تو گدائی۔ ۔خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے۔ مسلماں کو ننگ ہے وہ پادشاہی  (۴)دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے۔ صلح ہو جائے کبھی پھر سے تو شرمندہ نہ ہوں (۵) اُٹھ کہ تخلیق جہاں تازہ ہو۔ قوت بازو کا بھی اندازہ ہو (۶)بارے اپنا بھی کچھ بیاں ہو جائے ۔ اور اس باب کے آخر میں مندرجہ ذیل عبارت ہے :’’دنیا نے خیر و شر کے جو معیار بنائے ہیں وہ بس کہنے اور سننے کے لیے ہیں۔ عملاً تو نظریاتی چودھراہٹوں کے لیے دنیا میں لاکھوں انسانوں کا خون بہایا گیا ہے اور آج بھی )بے دریغ ) بہایا جارہا ہے۔ اسلام کے اپنے معیارات خیر و شر ہیں۔ وہ دنیا کے بنائے ہوئے معیاروں کو قطعاً نہیں دیکھتا، کہ اگر دنیا کے کچھ لوگ (کچھ)چیزوں کو اچھا کہنے لگیں تو اسلام بھی اس کو اچھا کہنے لگے۔ آزادی فکر و خیال کا ہر وہ تصور جو دنیا کے کچھ دوسرے لوگ رکھتے ہوں، اسلام اس کو اپنانے کا ہر گز پابند نہیں ہے۔ اور اسی لیے اسلام ڈیڑھ ہزار برس سے اپنا سیاسی و نظریاتی وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ دنیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کو اپنے لیے کسی ناصح ِ مشفق کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘

صفحہ ۲۱۹ پر سورہ مائدہ کی ۵۶ویں آیت درج ہے کہ ’’بے شک اللہ ہی کی جماعت غالب ہونے والی ہے‘‘ اسی کے نیچے ’’ نوید سحر ‘‘ نظر آتا ہے اس بیان کے ساتھ کہ ’’دنیا پرست لوگوں کا یہ طریقہ ہے کہ جب ان کو کسی قسم کا اقتدار ملتا ہے تو سب سے پہلے وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے سابق مخالفین کو سزا دیں اور ان کو ان کے منصب سے ہٹا کر اپنے عقیدتمندوں (بھکتوں )کو تمام مناصب پر بٹھا دیں۔ ہر صاحب اقتدار موافق اور مخالف کی اصطلاحوں میں سوچتا ہے۔ موافقین کو اٹھانا اور مخالفین کو کچلنا اس کی پالیسی کا سب سے اہم جز ہوتا ہے۔ مگر رسول ا للہ ﷺ کو عرب میں اقتدار حاصل ہوا تو آپ نے اس کے بالکل بر عکس معاملہ کیا۔ آپ ﷺ نے معاملات کو ’’موافق ‘‘اور ’’مخالف ‘‘کے اعتبار سے نہیں دیکھا بلکہ حق پسندی اور امانت داری کے لحاظ سے دیکھا۔ اور تمام شکایتی باتوں کو نظر انداز کر کے ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو رحمت اور عدل کا تقاضہ تھا۔ ‘‘

  کتاب کے نویں اور  آخری باب ’’ نوید سحر ‘‘میں جن  چار عنوانات کے تحت عالم نقوی نے اپنے علم و ہنر کی رو سے مختلف  متعلقہ  نکات کو واضح کیا ہے  وہ درج ذیل ہیں :

(۱)مرا امتیاز یہی جنوں !اس باب کا آغاز  جگر مرادآبادی کے اس شعر سے ہوتا  ہے :

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے  

وہ لکھتے ہیں :’’ہمارا عہد اسی شعر کی تفسیر ہے۔ علم اور عقل کا استحصال ہی انسانیت کے زوال کا سبب بنا ہے۔

(۲)اس باب کا دوسرا  رشید کوثر فاروقی کے ایک شعر کا پہلا مصرع ہے اور مضمون کے اختتام پرپورا شعر درج ہے جو یہ ہے  :

’’تم اگر طوفاں اٹھاتے ہو تو اتنا سوچ لو۔ ۔ہم بھی ہیں آخر انہیں دریاؤں کے پالے ہوئے !

(۳)ہم مایوس نہیں ہیں۔ ۔اور نہ احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ ہماری قیادت نالائق ہے۔ ہماری اکثریت جاہل ہے۔ ہمارے بیشتر علما ء بے عمل ہیں۔ ہمارے اُمراء بے فیض ہیں۔ یہ سب کچھ درست پھر بھی ہم بہ حیثیت مجموعی نہ مایوس ہیں نہ احساس کمتری کے شکار۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ۔ ۔پمارے اندر اتنی ہمت پیدا ہو چکی ہے کہ ہم مسئلے کی جڑ کو نشانہ بنا سکیں۔ الا اللہ کی ضرب سے پہلے لا الہ کی کاٹ ضروری ہے۔ ’لا ‘ کا یہ مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ ۔ لاکھ سیاہی چھائی ہو ابر رواں سے کیا ڈرنا۔ سورج کا مرکز ہے معین، ظلمت چلتا سایہ ہے !

(۴)آٹھویں باب اور کتاب، دونوں کا اختتامیہ :بس اک دعا کہ یہی آخری سہارا ہے !

 سچ یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں، مانتے  بھی ہیں کہ اللہ کی رحمت سے نامیدی کفر ہے کہ وہی تو مظلوم کو سر بلند  کرتا ہے اورظالم کو سر نگوں۔ نیک اعمال کی جزا عطا کرتا ہے اور ظالمین اور بدکاروں کے لیے رسوا کر دینے والا عذاب ہے۔

 کوئی بھی انسان جس کے دل میں انسانیت کی لہریں اس کے انسانی جذبات کو مہمیز کرتی ہوں، جس کی نظر اطراف کے حالات پر ہو، معصوم رخساروں سے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر جو خود غم میں مبتلا ہو جاتا ہو اور کچھ نہیں تو کم سے کم جذبہ انسانی سے اسے دلاسہ ہی دے دیتا ہو کہ ’’صبح ہونے کو ہے ‘‘اُسے عالم نقوی کے مضامین اور ان کی کتابوں میں وہ پیغام ملتا ہے جو الفاظ کے پیکر میں یہ پیغام رکھتا ہے کہ :

نہ گھبرا، سویرا ہوا چاہتا ہے

اُٹھا سر، نظام کہن جا رہا ہے

آخر میں، میں اپنے اس مضمون کواس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اللہ عالم نقوی کو صحت و توانائی کے ساتھ زندہ سلامت رکھے کہ ابھی انہیں بہت کچھ اور لکھنا ہے کہ آج اور کل اور اس کے بعد بھی  اُن کے پیغام کو ہر درد مند دل تک پہنچنا ہے اور ضرور پہنچنا ہے۔

حواشی:(۱)مصنف مضمون ھٰذاکا شعر  (۲)دیباچہ لہو چراغ، عالم نقوی، اسلامی ریلیف کمیٹی گجرات، احمدآباد نومبر ۲۰۰۲ص ۱۴(۳)سن لو مری نوا کہ یہ شاید ہو آخری، امید، نقش پبلشرز، انگوری باغ، اورنگ آباد، مہاراشٹر نومبر ۲۰۰۹ ص ۱۳(۴)امید ص ۲۱(۵)امید ص ۱۶۱(۶)امید ص ۱۶۲

تبصرے بند ہیں۔