انسان اور زمین کی حکومت (قسط 53)

رستم علی خان

چنانچہ اللہ کی طرف سے حکم اور اشارہ ملنے کے بعد جناب موسی نے اپنی قوم کو اکٹھا کیا اور انہیں اللہ کے حکم کے بارے بتایا- اور خوشخبری سنائی کہ اب تمہارا فرعون سے نجات پانے کا وقت آ گیا ہے- پس جس کسی کا جو کچھ سامان وغیرہ ہے سمیٹ لے تاکہ رات کو سب ایک ساتھ نکل سکیں-

چنانچہ تمام لوگ مرد بنی اسرائیل کے فرعون کے پاس پنہچے اور اس سے زیوارت وغیرہ عاریتا مانگے- چونکہ بنی اسرائیل کے تمام خزانے اور مال اسباب فرعون نے ضبط کر رکھا تھا- پس جب انہیں کوئی ضرورت پیش آتی یا عید کی نماز پڑھنے جاتے تو زیورات فرعون سے عاریتا مانگ کر لے جایا کرتے-

پس فرعون سمجھا کہ ایسی ہی کسی ضرورت کے لیے مانگ رہے ہیں اور کوئی گمان ان کے فرار کا اس کے ذہن میں ہرگز نہ آیا اور خزانچیوں کو حکم جاری کیا کہ آج کے دن بنی اسرائیل والوں کو نہ روکا جائے بلکہ جس کسی کو جو کچھ چاہئیے عاریتا اسے دیا جائے- چنانچہ فرعون کا حکم ملنے کے بعد بنی اسرائیل والوں نے زیوارت وغیرہ ضرورت کے خزانے سے لیے اور کچھ زیورات قطبیوں کے ہر گھر سے عاریتا مانگے اور گھروں میں آ کر رات کا انتظار کرنے لگے-

رات کو وہ تمام لوگ حضرت ہارون علیہ السلام کی قیادت میں وہاں سے نکلے جن کی تعداد قریب سوا لاکھ مرد بیان ہوئی ہے باقی بچے اور عورتیں اس تعداد میں شامل نہیں- حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے کہنے پر تمام بنی اسرائیل کو ساتھ لیکر دریائے نیل کے کنارے ایک میدان میں جا کر بیٹھ رہے- اور حضرت موسی خود بھی ان کے پیچھے وہاں اس میدان میں پنہچے- اور یہ نو محرم الحرام کی رات تھی-

مروی ہے کہ جس رات حضرت موسی بنی اسرائیل کو لیکر نکلے اسی رات اللہ کی طرف سے تمام قبطیوں کے گھر میں کسی نہ کسی کی موت ہو گئی اور یہ بھی آتا ہے کہ ہر قبطی کا بڑا لڑکا مر گیا- چنانچہ تمام قبطی ادھر مصروف ہو گئے اور کسی کو بھی بنی اسرائیل والوں کے نکلنے کی خبر نہ ہوئی-

لیکن دوسرے دن جب فرعون اور اس کی قوم نے بنی اسرائیل والوں کے کسی شخص کو نہ دیکھا تو سمجھے- تب فرعون ملعون نے ان سے کہا کہ موسی اور اس کی قوم کا پیچھا کرو اور انہیں ختم کر دو اور وہ تمہارے زیورات اور خزانے کے زیورات بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں-

تب ایک بڑا لشکر فرعون نے تیار کیا اور اس میں سو سرداروں کو الگ الگ سو سو سپاہیوں کے ساتھ بھیجا- اور باقی کا لشکر خود ساتھ رکھا اور اس کا سردار ہامان ملعون کو بنایا- اور تمام لشکر کی تعداد قریب سات لاکھ سپاہیوں کے تھی-

چنانچہ تینوں طرف سے حضرت موسی اور ان کی قوم کو دریا کے کنارے پر جا لیا- جب بنی اسرائیل والوں نے دیکھا کہ فرعون اور اس کا لشکر ہم کو ڈھونڈ چکے ہیں- اور اب بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں کہ سامنے دریا ہے اور تین طرف فرعون اور کا لشکر تب کہنے لگے کہ اب ہم نہیں بچیں گے بلکہ یقینا فرعون کا لشکر ہمیں تباہ کر دے گا اور سب کو مار ڈالے گا اور کوئی زندہ نہ بچے گا- اور ہم اتنے لشکر سے ہرگز مقابلہ نہ کر سکیں گے-

تب کہنے لگے کہ ہم پر یہ سب موسی کی وجہ سے ہو رہا ہے- اس سے پہلے فرعون ہم پر اتنا ظالم ہرگز نہ تھا- تب جناب موسی نے فرمایا کہ تم فرعون سے نہ ڈرو میرا اللہ میرے ساتھ ہے وہ یقینا ہمارے لیے کوئی بہتر راستہ نکالے گا- تب کہنے لگے اے موسی تم اور تمہارا خدا جانو ہم تو یہ بیٹھے ہیں- اب فرعون اور اس کے لشکر سے تم اور تمہارا رب ہی جنگ کرو اور ہم سے کوئی امید ہرگز نہ رکھنا اور الگ ہو کر بیٹھ رہے- تب حضرت موسی نے اللہ سے مناجات کی تو حکم ہوا اے موسی اپنا عصا دریائے نیل کے پانی پر ماریں- ہم اس میں سے آپ کے لیے راستہ بنا دیں گے- پھر آپ اپنی قوم کے ساتھ نکل جائیں تب ہم فرعون کو اسی پانی میں ڈبو کر غرق کریں گے۔چنانچہ اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اے موسی اپنا عصا پانی پر مارو ہم اس میں سے تمہارے اور تمہاری قوم کی نجات کے لیے راستہ بنا دیں گے- پھر اسی پانی میں فرعون کو غرق کریں گے کہ وہ ظالم اور کافر ہے-

تب حکم الہی سے جناب موسی علیہ السلام نے اپنا عصا پانی پر مارا تو اللہ کے حکم سے دریائے نیل میں سے بارہ راستے بن گئے- چونکہ بنی اسرائیل میں بارہ قبیلے تھے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کی نسل سے تھے- پس ہر قبیلہ اپنے الگ الگ راستوں سے گزر کر پار نکلنے لگا- اور راستوں کے دونوں طرف کا پانی پہاڑوں کی طرح ساکت اور جامد تھا-

دوسری جانب فرعون اور اس کا لشکر دریا کے کنارے پر کھڑے یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے- اور فرعون کو خبر تھی کہ یہ سب کسی جادو سے نہیں ہو رہا بلکہ یہ سب رب موسی کے حکم اور امر سے ہے کہ تمام طاقتیں اور اختیار جس کے قبضہ قدرت میں ہیں- کائنات کی ہر شے اس کا حکم بجا لانے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں برتتی-

اتنی بڑی نشانی اور علامت دیکھنے کے بعد بھی اس کے دل سے پردہ نہ ہٹا اور اپنے لشکر والوں سے کہنے لگا؛ دیکھا تم نے کہ موسی کس قدر بڑا جادوگر ہے کہ اس نے اپنے جادو کے زور سے پانی میں راستے پیدا کر لیے ہیں اور اس کے جادو سے پانی اپنی فطرت سے ہٹ کر بہنا چھوڑ کر رکا کھڑا ہے مانند کسی پہاڑ کے-

ایک طرف فرعون اپنے سرداروں اور لشکریوں کو اس بات کے لیے ابھار رہا تھا کہ وہ موسی علیہ السلام کو جادوگر ہی سمجھتے رہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اس قدر کھلی نشانی دیکھ کر موسی پر ایمان نہ لے آئیں- اور دوسری جانب اسے اس بات کا بھی علم تھا کہ یہ پانی موسی و ہارون علیہم السلام اور ان کی قوم کے لیے ٹھہر رہا ہے رب موسی کی مرضی سے کہ انہیں پار لگا سکے- چنانچہ اپنا گھوڑا دریا میں ڈالتے ہوئے بھی ڈر رہا تھا چونکہ ملعون کو خبر تھی کہ اس کا لشکر دریا میں اترا تو ضرور غرق ہو گا-

روایت ہے کہ ایک دن فرعون اپنے محل میں بیٹھا تھا کہ خبر ملی دریائے نیل کا پانی خشک ہو گیا ہے- پس اگر فرعون رب ہے تو اسے چلا کر دکھائے- چنانچہ فرعون ایک لاکھ سواروں کے ساتھ وہاں گیا اور سب کو باہر کھڑا کر کے خود ایک غار میں گھس گیا اور مناجات کرنے لگا- تب اس کی مناجات دربار الہی میں قبول ہوئیں اور دریائے نیل رواں ہوا اور ظالم کو مہلت عطا کی گئی- تب جب غار سے باہر آیا تو ایک حضرت جبرائیل امین اسے غار کے سرے پر ملے جو ایک جوان مرد کی صورت تھے-

جبرائیل نے فرعون کو روکا اور کہا کہ ایک مسلئے کے لیے آپ کا فیصلہ درکار ہے- میں دور ملک سے آیا ہوں- فرعون نے کہا کل دربار میں آ جانا فیصلہ کر دوں گا- حضرت جبرائیل نے اسے پھر روکا اور کہا بس چھوٹا سا مسلئہ ہے اس کا فیصلہ کر دو میں یہیں سے لوٹ جاوں گا- تبھی سپاہیوں نے آ کے دریا کی روانی کی خوشخبری سنائی اور فرعون کے آگے سجدہ ریز ہوئے- تب خوش ہو کر حضرت جبرائیل سے کہا کہ بتاو تمہارا کیا مسلئہ ہے میں اس خوشی میں یہیں اس کا فیصلہ کئیے دیتا ہوں- جبرائیل نے فرمایا ایک غلام جو ہر وقت اپنے آقا کی نعمتوں سے فیضیاب ہوتا ہو اور پھر بھی نافرمان اور گستاخ ہو اور خود کو آقا کے مقام و مرتبہ سمجھے اس کی سزا کیا ہو گی- فرعون نے فورا کہا ایسے ظالم کو دریائے نیل میں غرق کر دینا چاہئیے- جبرائیل نے فرمایا کہ اپنا فیصلہ لکھ دو تاکہ شک نہ رہے- چنانچہ اسی وقت حکم نامہ لکھا اور نیچے اپنی مہر لگا کر دی- حضرت جبرائیل چلے تو فرعون نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو- فرمایا بہت جلد تمہیں معلوم پڑ جائے گا اور تب ہم دوبارہ ملنے والے ہیں- اور ظالم کو خبر نہ تھی کہ اپنے لیے کیا سزا تجویز کر چکا ہے-

الغرض ابھی اسی سوچ میں تھا کہ کیا کرے گھوڑا دریا میں اتارے یا یہیں سے واپس لوٹ جائے- اتنے میں حضرت جبرائیل ایک مادہ گھوڑی پر بیٹھ کر دریا میں اترے ادھر فرعون کے پاس نر گھوڑا تھا- جب گھوڑے نے اپنی مادہ کو دیکھا تو بےقابو ہو کر دریا میں اترا- جب لشکریوں نے فرعون کے گھوڑے کو اترتا دیکھا تو اس کے پیچھے سب دریا میں اتر گئے- اور حضرت موسی کے بنائے راستے پر ان کے پیچھے گھوڑے دوڑا دئیے-

جب حضرت موسی دوسرے کنارے پنہچے تو دیکھا پیچھے فرعون اور اس کا لشکر بھی آ رہے ہیں- تب بحکم الہی دوبارہ عصا پانی پر مارا تو تمام پانی جو آپ کے لیے رکا ہوا تھا اور رکاوٹ کی وجہ سے پیچھے پانی بہت جمع ہو گیا تھا وہ ایک ساتھ چلا جس سے فرعون کے لشکریوں کے گھوڑوں کے پاوں نکل گئے اور وہ سب پانی میں ڈوب کر غرق ہو گئے-

جب فرعون غرق ہونے لگا تو حضرت جبرائیل امین صورت اسی مرد کی فرعون کے سامنے آئے اور اسے وہ سزا والا رقعہ دیا اور فرمایا کہ یہ تیری تجویز کردہ سزا ہے تیرے واسطے اور بیشک تو ہی اپنے آقا کا سب سے بڑا نافرمان ہے جو خود کو مقام و مرتبے میں اس کے برابر سمجھتا تھا- تب پکارا کہ میں ایمان لایا موسی اور ہارون پر اور ان کے رب پر- تب حکم ہوا کہ اب کوئی فائدہ نہیں تیرے ایمان لانے کا اور نہ اب تیرا ایمان لانا تجھے اللہ کی پکڑ سے بچا سکتا ہے- پس فرعون اور اس کا لشکر تمام غرق ہوا- باطل کا خاتمہ ہوا اور حق غالب ٹھہرا۔

چنانچہ جب فرعون اور اس کا لشکر سب غرق ہو گیا دریائے نیل میں اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالی نے حفاظت سے دوسرے کنارے پنہچا دیا تب حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن شکرانے کا روزہ رکھا اور اس دن دس محرم کا دن تھا-

بعد اس کے آپ کی قوم والوں نے کہا کہ ہم جب تک اپنی آنکھوں سے فرعون کی لاش کو دیکھ نہ لیں گے تب تک ہم یقین نہیں کریں گے کہ فرعون اور اس کا لشکر پانی میں غرق ہو گیا- پس اے موسی آپ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمیں فرعون کی لاش دکھا دے تاکہ ہمارے دل اطمینان پکڑیں-

چنانچہ حضرت موسی نے بارگاہ الہی میں مناجات کی تب اللہ تعالی نے پانی کو حکم دیا کہ فرعون اور اس کے لشکریوں کی لاش باہر نکال دے- چنانچہ حکم الہی سے پانی نے لاشیں ان کی باہر دیں- اور جس ٹیلے پر بنی اسرائیل والے تھے وہاں پھینک دیں- تب دیکھا انہوں نے کہ کسی میں رمق بھر جان باقی نہیں ہے اور ہڈیاں ان کی درہم برہم ہو چکی ہیں- اور گوشت تمام جسم کا گل چکا ہے- اور فرمایا کہ اب شکر ادا کرو اپنے رب کا جس نے تمہیں فرعون کے ظلم سے نجات عطا کی اور اسے تمہارے سامنے غرقآب کیا-

تب سب نے فرعون کے وزیر ہامان کی لاش کو یا اسے بہت ڈھونڈا لیکن لشکر میں موجود نہ پایا- تب اللہ تعالی نے فرمایا اے موسی اب آپ اپنی قوم کے ساتھ مصر میں جا رہیں- اور ہامان بھی تمہیں وہیں ملے گا اور اسے دوسرے عذاب میں مبتلا کروں گا-
تب موسی اور ہارون علیہم السلام قوم بنی اسرائیل کو ساتھ لیکر مصر میں واپس آئے اور قبطیوں کے گھروں میں رہنے لگے- اور مال و دولت خوب ان کے ہاتھ لگا- چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے؛

ترجمہ: پس نکالا ہم نے فرعون کو اور اس کی قوم کو باغوں سے اور چشموں سے اور گنجوں سے اور پاکیزہ مکانوں سے اسی طرح سے کیا اور وارث کر دیا ہم نے بنی اسرائیل کو-

مفسرین نے لکھا ہے کہ اسرائیلیوں کو اللہ تعالی نے فرعون کی قوم کے گھروں اور باغات اور مال املاک وغیرہ کا وارث کیا اور مصر پر ان کی حکومت دوبارہ سے قائم ہوئی- اور ہامان جو وزیر فرعون کا تھا اسے بھی وہیں پایا اور وہ اندھا ہو کر بھیک مانگا کرتا اور ٹکڑے ٹکڑے کا مختاج ہوا-

تب جناب موسی نے اللہ تعالی سے عرض کی کہ الہی تو نے فرمایا تھا کہ ان سب کو ڈبو کر ہلاک کروں گا پر ہامان تو ابھی تک زندہ ہے- تب فرمایا اے موسی اس کو میں نے خلق میں مختاج کیا اور در در مانگتے پھرنا اس کے لیے موت سے زیادہ ازیت ناک ہے- اور یہ اس لیے کہ خلق اس سے عبرت پکڑے کہ اللہ تعالی جب چاہے بادشاہوں کو گدا کر دے اور وہ بےنیاز ہے- تب یہ سنکر حضرت موسی شکر بجا لائے اور اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوئے-

جب ملک مصر تمام ان کے ہاتھ میں آیا اور کافر نیست و نابود ہوئے اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالی نے فرعون سے نجات دی اور حق غالب ہوا اور باطل غرقآب ہوا- تب اس طرف سے مطمئن ہونے کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی بیوی کا خیال آیا جنہیں طوی کے قریب ایک میدان میں اللہ کے سہارے پر چھوڑ آئے تھے- تب وہاں سے چلے اور اپنی بیوی کے پاس آئے تو دیکھا کہ دو لڑکے ان کے بطن سے پیدا ہوئے اور دونوں توانا تھے- اور بھیڑ بکریاں سب سلامت ہیں بلکہ پہلے سے اور دونی ہوئی ہیں- اور تمام درندے جنگل کے حکم الہی سے آپ کے اہل و عیال اور بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال اور خدمت کرتے ہیں- تب اپنی بیوی اور بیٹوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں کو بھی ساتھ لیا اور وہاں سے واپس مصر تشریف لائے- اور اپنی والدہ کی خدمت میں جا رہے-

پس حضرت موسی مصر میں اپنے بھائی ہارون اور آپ کی والدہ اور بیوی بچوں کے ساتھ کچھ عرصہ مقیم رہے- اور ہمیشہ اس بات کے منتظر رہتے کہ اللہ کی طرف سے حکم نازل ہو تو کوہ طور پر جا کر مناجات کریں- تب جلد ہی اللہ نے انہیں طور پر بلا لیا مناجات کے واسطے کہ قصہ فرعون کا ختم ہو چکا تھا اور اللہ کا وعدہ پورا ہوا فرعون کے باب میں۔

اس تمام تبلیغ کے عرصے اور حضرت موسیٰؑ کے بچوں کی عمروں کے بارے کوئی حوالہ کہیں نہیں کے کتنا عرصہ لگا باقی اللہ بہتر جانتا اس بارے…اگر کسی کے پاس کوئی حوالہ موجود ہو تو یہاں شئیر کر دے…جزاک اللہ الخیر.

تبصرے بند ہیں۔