تقسیم کی تائید یا پھانسی کا پھندا

اگر انسان کو آزادی مانگنے کا حق ہے تو اسے آزادی نہیں مانگنے کا حق تو بہر حال حاصل ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستانیوں کو پاکستان دو حصوں میں ملا؛ مشرقی پاکستان (جو آج بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے) اور مغربی پاکستان ۔ اقتدار اکثر مغربی پاکستان کے ہاتھ میں آیا اور مشرقی پاکستان پر حکومت کی توجہ کم ہی رہی۔ اس خطے کی عوام حکومت سے برہم رہتی اور آئے دن سیاسی احتجاجات ہوتے رہتے جوکہ دھیرے دھیرے سخت ہوتے گئے اور جدوجہد آزادی کی شکل اختیار کر گئے۔

بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ جنگ آزادی میں جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش آزادی مہم کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیا۔
اس بات سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے کبھی انکار نہیں کیا کہ وہ پاکستان کی تقسیم کے خلاف تھے۔ جماعت اسلامی ہرگز یہ نہیں چاہتی تھی کہ امت حصوں میں تقسیم ہوکر کمزور ہوچلے بلکہ ان کا موقف یہ تھا کہ اگر حکومتِ پاکستان مشرقی پاکستان کو نظر انداز کررہی ہے تو اس مسئلے کو پرامن انداز میں مطالبوں اور مہموں کے ذریعہ حل کیا جائے۔ ملک کی تقسیم مسئلہ کو مزید خراب کرسکتی ہے، جدا ہوکر کمزور تو بہرحال دونوں حصے ہوہی جائیں گے۔
بنگلہ دیش آزادی مہم کی قیادت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کیونکہ وہ کچھ توپاکستانی حکومت کے سوتیلے رویے سے تنگ آچُکے تھے اور کچھ پڑوسی ممالک سے انہیں شہ مل رہی تھی۔ اب انہیں زمین کا ایک حصہ درکار تھا جس پر کہ وہ اپنی حکومت قائم کرسکیں۔
لاکھوں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوئیں، جم کر تباہی مچی اور کروڑوں کی تعداد میں عوام نے ہجرت کی حتی کہ عورتوں کی عزتیں محفوظ نہیں رہیں۔
بہرحال جماعت اسلامی اپنے اصولوں پر قائم رہی اور امن و اتحاد کا جھنڈا آخری وقت تک بلند رکھا۔ جماعت نے نہ تو آزادی کی جدوجہد میں شرکت کی کہ وہ امت کی تقسیم کی جدوجہد کا حصہ نہیں بن سکتے تھے اور نہ ہی بنگلہ دیش کی معصوم عوام پر پاکستانی فوجوں کے قہر کا ساتھ دیا کہ وہ تو ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل سمجھتے ہیں اور اس جنگ میں تو اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہہ رہا تھا اور امن و اتحاد ہی کا تو نعرہ تھا جس نے جماعت کو فریقین سے دور بھی کیا اور قریب بھی رکھا۔
بنگلہ دیش پاکستان سے آزاد ہوگیا اور جماعت اسلامی پاکستان کا جو حصہ بنگلہ دیش میں رہا، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کہلایا۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش آزادی مہم جس نے لاکھوں مقتولین کو کاندھا دیا تھا اور پاکستانی فوجوں سے بلاواسطہ برسرپیکار تھے اور ہزاروں پاکستانی فوجیوں کو قتل کرچکے تھے، آزادی اور غلبہ حاصل ہوجانے کی صورت میں کیونکر جماعت اسلامی کے کارکنوں کو زندہ چھوڑ سکتے تھے اگر انھوں نے پاکستان کی فوجوں کا ساتھ دیا تھا۔
دراصل بنگلہ دیش آزادی مہم کی قیادت کو جماعت اسلامی کے امن و اتحاد کے موقف کا پورا علم تھا اور انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ جماعت کا فیصلہ نہ تو بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے خلاف تھا اور نہ ہی پاکستان کے مسلمانوں کے خلاف بلکہ وہ فیصلہ تو اتنا مخلص اور دوراندیش تھا کہ وہ لاکھوں جانیں بچا سکتا تھا اور امت کو مزید تقویت عطا کرسکتا تھا۔
اب پڑوسی ممالک کی مدد سے آزادی حاصل ہوجانے کے بعد پڑوسیوں کا اثر و رسوخ عرصے تک باقی رہا اور ملک کے اہم فیصلے ان کے اشاروں پر ہوتے رہے۔ تاریخ کے ساتھ کھیل کیا گیا اور جماعت اسلامی کو مختلف جنگی جرائم کا ملزم بنایا گیا، پابندیاں عائد ہوئیں لیکن جماعت اسلامی ملک کے جمہوری نظام کا حصہ بنی رہی اور عوام کا اعتماد باقی رکھ کر حکومت میں شریک رہی۔ ایک عرصے کے بعد کچھ سیاسی کشمکش میں اور کچھ خارجی اشاروں پر اسلامی طاقتوں کو کمزور کرنے کے ناپاک ارادے سے جماعت اسلامی کے قائدین پر مقدمے دائر کیے گئے اور پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کل جس کو عوام نے اپنا نمائندہ بنا کر ملک کی حکومت کرنے کے لیے بھیجا تھا اور اہم وزارتوں کو بخوبی سنبھال رہا تھا، آج وہ پچاس سالہ پرانے جنگی جرائم کے بے بنیاد الزامات کی بنا پر پھانسی کے تخت پر چڑھا دیا گیا۔
دراصل ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ تقسیم کے حق میں نہیں تھے کیونکہ انھوں نے تقسیموں کے نتائج قریب سے دیکھے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل مزید تقسیم نہیں ہے۔ اور اس سے بڑا جرم یہ کہ وہ اسلام کے علمبردار ہیں اور اسلام کو مشعل راہ سمجھتے ہیں کہ اس جرم کی سزا تو عرب کے صحراؤں سے لیکر افریقہ کے جنگلوں تک قید و قتل ہی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قید و بند اور موت کی سزائیں تحریکات کو مزید تقویت بخشتی ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ بنگلہ دیش میں چلنے والی ہواؤں کا رخ بدل جائے اور عوام اسلامی تعلیمات میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے لگے کہ راہ حق میں دی جانے والی قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں۔

(مضامین ڈیسک)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔