عوامی لیگ کی غیر عوامی حکومت کا جنگل راج

انصاف اور انسانیت کا قتل عام

ہندوستان کا پڑوسی ملک جسے پہلے مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا، 1971ء سے وہ ’’بنگلہ دیش‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ در اصل ’مشرقی پاکستان‘ پاکستان کا حصہ تھا۔ مشرقی پاکستان سے پہلے اسے ’’مشرقی بنگال‘‘کے نام سے پکارا جاتا تھا جو غیر منقسم بنگال کا حصہ تھا۔  بنگال کو انگریزوں نے دو حصوں میں تقسیم کیا تھا جس کی بنگال کے ہندو اور مسلمان سبھی نے مخالفت کی تھی، مگر انگریزوں نے مشرقی بنگال کے مخالفین کو تختہ دار پر نہیں چڑھایا اور نہ کوئی انتقامی کارروائی کی۔ مشرقی پاکستان کو ہندوستان سے الگ کرنے میں مغربی بنگال اور مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے حصہ لیا تھا، جس میں مسلم لیگ کے لیڈر مجیب الرحمن بھی شامل تھے جنھوں نے بعد میں عوامی لیگ کی بنیاد ڈالی اور بعض وجوہ سے لسانی تعصب کے ایسے علم بردار بنے کہ لسانی تعصب کی بنیاد پر مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علاحدہ کرکے دم لیا اور اسے بنگلہ دیش بنا دیا ۔  دنیا جانتی ہے کہ علاحدگی کی اس تحریک میں بائیں بازو کے کچھ لوگ اور دائیں بازو کی تمام جماعتیں اور شخصیات شامل نہیں ہوئیں۔  جو لوگ علاحدگی پسند تحریک میں شامل نہیں ہوئے، بنگلہ دیش بننے کے بعد ان کے خلاف آواز جب تیزی سے اٹھنے لگی اور ان پر مقدمہ چلانے یا سزا دینے کا مطالبہ ہونے لگا تو خود شیخ مجیب الرحمن نے کڑی تفتیش کے بعد پاکستانی فوج کے 195 افسروں اور دیگر فوجی عہدے داروں کو جنگی مجرم قرار دیا۔ ان لوگوں پر مقدمہ چلانے کیلئے 19 جولائی 1973ء کو پارلیمنٹ میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل ایکٹ پاس کروایا، لیکن 9 اپریل 1974ء کو دہلی میں بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان کے وزراء خارجہ کے سہ فریقی مذاکرات ہوئے جن کے نتیجے میں 195 مجرم قرار دیئے جانے والے افراد کو معاف کر دیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ کبھی بھی کسی سیویلین کو مجیب الرحمن نے جنگی مجرم قرار نہیں دیا۔ جولوگ بنگلہ دیش بنانے کی مہم میں شامل نہ تھے بلکہ اس کے مخالف تھے اور پاکستان آرمی کے ساتھ تھے، مجیب حکومت نے ان لوگوں کو کولیبوریٹر یعنی تعاون کرنے والا قرار دیا۔ جو تنظیمیں البدر، الشمس اور رضاکار کے نام پر پاکستانی فوج کی مدد کر رہی تھیں ان رضا کار تنظیموں کو مجیب حکومت نے کولیبوریٹر ٹھہرایا۔ 24جنوری 1972ء کو کولیبوریٹرز آرڈر جاری کیا گیا۔ جس کے تحت ایک لاکھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں 38,471 افراد پر الزامات عائد کئے گئے لیکن ان میں سے بھی 32,848 کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مقدمہ دائر کرنا ممکن نہ ہوسکا۔ آخر کار صرف 2,848 افراد کے خلاف مقدمات بنے اور عدالت نے ان میں سے 752 کے خلاف جرم ثابت ہونے پر مختلف سزاؤں کے فیصلے دیئے جبکہ 2094 افراد کو بری کر دیا گیا۔ بعد ازاں 1973ء میں حکومت کی طرف سے عام معافی کااعلان کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں مذکورہ بالا سزا یافتہ افراد بھی رہا ہوگئے۔ لیکن وہ لوگ جو قتل، عصمت دری، لوٹ مار اور آگ زنی جیسے جرائم میں سزا یافتہ تھے ان کو عام معافی کا فائدہ نہ دیا گیا۔ پھر اس عام معافی کا یہ استثنا بھی خود بخود ختم ہوگیا۔ اس وقت جن لوگوں کے خلاف کسی قسم کے جرم کے الزامات بھی نہیں لگائے گئے تھے اور وہ گرفتار بھی نہیں کئے گئے تھے،حکومت چالیس سال گزرنے کے بعد جعلی انٹرنیشنل ٹریبونل بناکر انھیں پھانسی پرلٹکا رہی ہے۔ اب تک بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے صف اول کے کئی رہنما جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ گزشتہ منگل کی شب 12بجے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سب سے بڑے لیڈر مطیع الرحمن نظامی کو تختہ دار پر بنگلہ دیش کی ظالم حکومت نے لٹکا کر اپنی حیوانیت کا وہی مظاہرہ کیا ہے جو فرعون اور نمرود کی حکومتوں نے کیا تھا۔ اس طرح شیخ حسینہ واجد نے بھی اپنے آپ کو فرعون اور نمرود کی صف میں شامل کرلیا اور فرعونی تاریخ کا حصہ بن گئیں۔

بنگلہ دیش جماعت اسلامی ہی ہدف کیوں؟

 یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 1980ء کے عشرے میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جنرل حسین محمد ارشاد کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی اور عوامی لیگ نے مل کر جدوجہد کی تھی۔ اس کے بعد 1994ء سے خالدہ ضیاء کی جماعت ’بی این پی‘ کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی نے عوام لیگ کے ساتھ مل کر عبوری حکومت کی تشکیل کیلئے جدوجہد کی جس کا مقصد بنگلہ دیش میں شفاف انتخابات کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس وقت بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کی اس جدوجہد میں چھوٹی چھوٹی دوسری پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ ان تمام جماعتوں کے سربراہان پر مشتمل ایک مشاورتی کمیٹی بنائی گئی تھی۔ یہ کمیٹی اس پوری تحریک کے پروگراموں کا شیڈول طے کرتی تھی۔ جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کی قیادت اکٹھے بیٹھ کر میٹنگیں کرتی تھی۔ اس دوران کبھی کسی نے نہیں کہاکہ ان کے درمیان کوئی جنگی مجرم بھی بیٹھا ہے۔

 فروری 1991ء میں بنگلہ دیش میں جو عام انتخابات ہوئے تھے ان میں بی این پی اور عوامی لیگ میں سے کسی کو بھی اتنی سیٹیں نہیں ملی تھیں کہ وہ تنہا اپنے بل بوتے پر حکومت تشکیل دے لیں۔ عوامی لیگ کی قیادت حکومت قائم کرنے کی غرض سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ووٹوں کی بھیک مانگنے جماعتی لیڈروں کے پاس گئی تھی۔ عوامی لیگ کے ایک سینئر مرکزی رہنما امیر حسین عامو نے جماعت اسلامی کے سکریٹری جنرل علی احسن مجاہد کو پیغام دیا کہ ’’ہم لوگ پروفیسر غلام اعظم کو وزیر بنانے کیلئے تیار ہیں‘‘۔ کیا اس وقت عوامی لیگ کی نظر میں جماعت کے لوگ جنگی مجرم نہیں تھے؟ اس کے بعد عوامی لیگ کی طرف سے بنگلہ دیش کی صدارت کے امیدوار جسٹس بدر الحیدر چودھری، جماعت اسلامی کا تعاون حاصل کرنے کیلئے جماعت کے پروفیسر غلام اعظم کے پاس گئے تھے۔ اس وقت بھی کسی نے نہیں کہا کہ جماعت کا کوئی فرد جنگی مجرم ہے لیکن چوالیس، پینتالیس سال کے بعد خانہ ساز ٹریبونل کے ذریعے راتوں رات جماعت کے چوٹی کے لیڈروں کو جنگی مجرم قرار دینے اور تختہ دار پر چڑھا دینے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا گیا۔ ایسے لوگ ننگ دین اور ننگ انسانیت ہیں جو عدل و انصاف سے عاری ہوکر انسان کو کسی بہانے سے قتل کرنا اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک کا قاتل سب کا قاتل ہوتا ہے۔ یہ جماعت کے چار پانچ لیڈروں کا قتل نہیں ہے بلکہ ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔

بنگلہ دیش عوامی لیگ کو گزشتہ انتخاب میں صرف 5 فی صد ووٹ ملے تھے۔ جس ملک میں کسی پارٹی کے 95 فی صد خلاف ہوں، اسے آخر کیسے حکمرانی کرنے کا حق حاصل ہوسکتا ہے؟ مگر فوج اور پولیس کے بل بوتے پر عوامی لیگ بنگلہ دیش میں جبر و ظلم کی حکمرانی کر رہی ہے اور اپوزیشن کے لیڈروں خاص طور سے جماعت اسلامی کے لیڈروں کو اپنے راستہ سے ہٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ یہی کام شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن نے بھی کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے فوج کا ایک حصہ ان سے بیزار ہوگیا اور بالآخر انھیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ جب کسی ملک یا کسی خطہ میں جنگل کا قانون رائج ہوجاتا ہے تو پھر قانون کی بالادستی ختم ہوجاتی ہے۔ عدل و انصاف کا خون ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ آج بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی فرعونی حکومت کے خلاف جو بھی سر اٹھاتا ہے اس کا سر قلم کر دیا جاتا ہے یا پس زنداں کر دیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں غیر علانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی بی این پی کے لیڈران بھی ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔ ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے۔ جماعت اسلامی کے سارے دفاتر بند ہیں۔ ان کی تحریک پر قدغن لگا ہوا ہے۔

بنگلہ دیش کی اس غیر جمہوری، غیر انسانی اور حیوانی حکومت کب تک ستم ڈھاتی رہے گی کہنا مشکل ہے مگر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔