تقسیم کے زخم: مولانا محمد مسلم ؒ کی باتیں

ترتیب :عبدالعزیز

  مولانا محمد مسلم سہ روزہ دعوت کے ایڈیٹر تھے ۔ اسی زمانہ میں دعوت کا ہفتہ وار اخبار شائع ہونے لگا ۔ مولانا کے ’’کچھ یادیں کچھ باتیں ‘‘ کے عنوان سے عہد ماضی کی باتیں لکھتے رہے جو صفحہ آخر کی زینت بنتی رہیں ۔ ان کے ہونہار صاحبزادے اطہر مسلم نے ان تمام تحریروں کو بڑی مشکل سے یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع کی ہیں ۔   زیر نظر تحریر ان میں سے ایک ہے ۔  اس میں تقسیم ہند کے زخم کی جھلک ہے اسے پڑھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تقسیم کا زخم کتنا گہرا تھا اور ہماری حالت اس وقت کیسی تھی ۔:

  خدا جس کو زندہ رکھے اس کو کوئی مارنے والا نہیں ۔ پچھلی باردلّی کے ایک سفر کی بات کررہا تھا جو ۱۹۴۷ء میں بلووں کے شباب کے دور میں کرنا پڑا تھا ۔ میں اپنے روزنامے کیلئے کاغذ لینے آیا تھا جس کا کاروبار ہمیشہ سے دلّی کی مشہور فرم جے این سنگھ سے ہوا کرتا تھا ۔ اس زمانے میں بھی کرفیو کے اوقا کے علاوہ یہ فرم کھلا کرتی تھی ۔ اس کے منیجر غیر مسلم تھے اور مسلمانوں سے نفرت کا وہ خاص دور تھا لیکن ان کی خندہ پیشانی میں کوئی کمی نہیں تھی ۔ ملاپ ، پرتاپ بھی یہیں آچکے تھے ۔ رسالہ شمع بھی کثیر الاشاعت تھا۔ پھر انگریزی اخبارات کے گودام بھی کاغذ سے خالی تھے ۔اس لئے ہوتا یہ تھا کہ کرفیو کھلتے ہی سب اخباروں کے مدیر اس فرم میں آکر بیٹھ جاتے اور جس کو جس سائز کا جتنا کاغذ مل سکتا تھا حاصل کرلیتا تھا ۔ بڑے بڑے اخبار بھی ۴،۵ ریم کاغذ کو غنیمت سمجھتے تھے اسی میں ہمارا بھی نمبر آجاتا تھا۔ جس دن اس فرم میں حاضری میں دیر ہوگئی وہاں کا کاغذ مارا جاتا تھا۔

دوسرا سوال ہم لوگوں کے لئے یہ تھا کہ یہ کاغذ اپنے مستقر پر کیسے پہنچا یا جائے ۔ جے این سنگھ کی فرم اس کے لئے تیار نہیں تھی کہ ریلوے کی ذمہ داری بھی وہ لے ۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر میں ہر طرف قتل و غارت گری ہے اس لئے وہ اپنا آدمی اسٹیشن بھیجنے کے لئے تیار نہیں ۔ پھر ان سے زیادہ مشکل ہمارے لئے تھی ۔

 اس زمانے میں دلّی کے چیف کمشنر ایک مسلمان تھے ۔ علی گڑھ کے رہنے والے خورشید احمد خاں ۔ اب مرحوم ہوچکے ہیں ۔ بہت شریف آدمی تھے لیکن حالات نے انہیں بالکل ناکارہ بناکر رکھ دیا تھا۔ ان سے تھوڑی سی واقفیت تھی ، اس لئے سوچا کہ ان سے اس مشکل کا حال تلاش کرنے میں مدد لی جائے ۔ جامع مسجد سے لڈ لوکیسل میں جہاں ان کی قیام گاہ تھی کوئی ۴ کلو میٹر کا سڑک ۔ پھر کشمیری گیٹ کا ناراض علاقہ اور اس کے بعد پھر راہ گیروں کے لئے دن دہاڑے قزاقی کے مرکز ۔ تاہم ضرورت شدید تھی ، اس لئے ان کے یہاں کسی نہ کسی طرح پہنچے مگر انہوں نے اس معاملے میں اپنی بے بسی ظاہر کردی۔ وہاں سے ہم واپس آرہے تھے تو سوچا کہ موری گیٹ کی طرف سے ہوتے ہوئے چلے آئیں ۔ غالباً۱۱؍۱۲ بجے کا وقت ہوگا ۔ پوری سڑک سنسان پڑی تھی بس میں اور میرے ساتھی چلے جارہے تھے کہ دوسری طرف سے دو نوجوان سکھ ایک سائیکل پر آتے ہوئے دکھا دیئے ۔ انہوں نے ہمیں دیکھا تو ٹھہر گئے ۔ تلواریں ان کے ہاتھ میں تھیں او ر ہمارے پاس خنجر تو تھے لیکن اس سے زیادہ تو توکل تھا کہ اس موقع پر بھاگنے کی بجائے مقابلے کی ضرورت ہے ۔ رہی زندگی اور موت تو یہ خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ بھی حوصلہ تھا کہ اگر ۵،۱۰ اور مخالفین آجائیں تو ان سے بھی نمٹ لیا جائے گا ۔ ہم لوگ سڑک کے ایک طرف کھڑے تھے اور وہ دوسری طرف ، میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر یہ حملہ کریں تو آخر دم تک مقابلہ کرنا اور ہرگز ن بھاگنا ۔ ان حضرات نے وہیں سے کھڑے کھڑے ہم سے پنجابی میں پوچھا کہ تم مسلمان ہو۔ ہم نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں ۔ کہنے لگے کہ وہ پاکستان میں آرام سے رہتے تھے انہیں مسلمانوں نے اجاڑ دیا ۔ ہم نے کہا کہ یہ بُرا کیا۔ پھر کہنے لگے کہ راستے میں ہم نے بھی مسلمانوں کے خاندانوں سے اس اس طرح کے برے سلوک کئے ۔ ہم نے کہاکہ یہ بات بھی برُی تھی ۔ کہنے لگے تم یہاں اب بھی رہتے ہو ۔ یہ سب جواہر لال کی وجہ سے ہے ۔ ہم نے بہت نرمی سے کہا کہ ہم مسلمان کسی گاندھی اور کسی جواہر لال کے سہارے زندہ نہیں ہیں  بلکہ اللہ کے بھروسے پررہ رہے ہیں ۔ اسی اثنا میں ان میں سے ایک شخص نے تلوار اٹھاکر ہماری طرف بڑھنا چاہا لیکن اس کے دوسرے ساتھی نے اسے روک دیا کہ دیکھتے نہیں کہ یہ لوگ کس اطمینان سے کھڑے ہیں اس لئے ان سے نہ الجھو ۔ چنانچہ وہ فوراً ہی سائیکل پر بیٹھ کر اور ہمیں گالیاں دیتے ہوئے موری گیٹ کا رُخ کر لئے۔

 یہاں اس زمانے میں دو تین گھنٹے کاغذی کے یہاں حاضری دینے کے بعد باقی وقت فارغ رہتا تھا ۔ اس وقت ہمایوں کے مقبر ے میں مسلمان پناہ گزینوں کے ہجوم کے ہجوم پڑے ہوئے تھے ۔ مسلم لیگ کے کچھ کارکن وہاں کام کررہے تھے لیکن ان کے مزاج میں خدمت سے زیادہ رعونت او ر بازاری پن نظر آیا ۔ وہیں سامنے تبلیغی مرکز تھا۔ ہم اکثر ہمت کرکے بستی نظام الدین چلے جاتے تھے کہ اگر ہم سے کوئی خدمت ممکن ہوسکے تو کی جائے۔ ان سے ایک بار ہمت کرکے عرض کی کہ ہمارے یہ بھائی سامنے پڑے ہیں آپ کے پاس کارکن ہیں ، ان کی خدمت کیجئے ۔ ایک ذمہ دار صاحب نے جواب مرحوم ہوچکے ہیں ہماری بات کاٹ کر کہا کہ یہ تو خدا کا عذاب ہے جس سے دور رہنا چاہئے ۔

 ہاں جامعہ اسلامیہ سے دس بارہ باہمت پروفیسر اور ان کے شاگرد ضرور یہاں روزانہ آتے تھے اور جو بھی خدمت ممکن ہوتی تھی کرتے رہتے تھے۔ غالباً اختر حمید خاں جامعہ کے اس قافلے کے سردار ہوتے تھے ۔ خدا ان کی مغفرت کرے ، بڑے درد مند مسلمان تھے ۔ روزانہ یہاں سے نظام الدین اسٹیشن پر قافلے جاتے ۔ روزانہ پاکستان سے ہوائی جہازوں سے روٹیاں آتیں اور روزانہ حکومت ہند بھی کھانے پینے کا انتظام کرتی لیکن بیش تر رضاکاروں کا یہی حال دیکھا کہ وہ اس مصیبت کے دور میں بھی دولت کمانے اور عیش کوشی کے لئے جیسے آمادہ نظر آتے تھے ۔ جلانے کے لئے لکڑیاں یا کوئلے نہیں ملتے تھے ۔ اسی کے ساتھ وہیں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ایک دولت مند طوائفوں کے مجرے بھی کرایا کرتے تھے ۔ ایک رئیس کے پاس بے پناہ دولت تھی لیکن یہ سنا گیا کہ وہ دل شکستہ ہوکر نوٹوں کی گڈیوں سے ہاتھ تاپا کرتے تھے ۔

یہ بُرے دن گزر رہے تھے لیکن ایسامعلوم ہوتا تھا کہ آپس کی ہمدردیاں مفقود ہوگئی تھیں ۔ مصیبتوں میں اب جو آپس کا لگائو پید ا ہوتا رہتا ہے اس کیمپ میں اس جذبے کو کم ہی محسوس کیا گیا اور غالباً یہی وہ عنصر تھا جس نے پاکستان پہنچ کر صرف اپنی ذات کو ملحوظ خاطر رکھا۔

یہ زمانہ گزر گیا لیکن اب بھی جب ان واقعات کی یاد آتی ہے تو یہی جی چاہتا ہے کہ ملت میں اپنی کمزوریوں کا احتساب کرنا اور باہمی ارتباط اورخدمت کے جذبے کو بڑھانا صرف ایک دینی ضرورت ہی نہیں بلکہ باعزت انسان کی طرح زندگی گزارنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے۔  (  ہفت روزہ دعوت ۔  30 ؍ مارچ  1980)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔