ہمارا لائحہ عمل (دوسری قسط)

ترتیب :عبدالعزیز

ہماری تشخیص یہ ہے کہ اس ملک کے سیاسی نظام کی خرابیوں کا بنیادی سبب یہاں کے طریق، انتخاب کی خرابی ہے۔ جب انتخاب کا موسم آتا ہے تو منصب وجاہ کے خواہش مند لوگ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دوڑ دھوپ کرکے یا تو کسی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرتے ہیں یا آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنے لئے کوشش شروع کردیتے ہیں ۔ اس کوشش میں وہ کسی اخلاق اور کسی ضابطے کے پابند نہیں ہوتے ۔ کسی جھوٹ ، کسی فریب ، کسی چال ، کسی دبائو اور کسی ناجائز سے ناجائز ہتھکنڈے کے استعمال میں بھی ان کو دریغ نہیں ہوتا ۔ جسے لالچ دیا جاسکتا ہے اس کا ووٹ لالچ سے خریدتے ہیں ۔ جسے دھمکی سے مرعوب کیا جاسکتا ہے اسے مرعوب کرکے ووٹ حاصل کرتے ہیں ۔ جسے دھوکا دیا جاسکتا ہے اس کا ووٹ دھوکے سے لیتے ہیں اور جس کو کسی تعصب کی بنا پر اپیل کیا جاسکتا ہے اس کا ووٹ تعصب کے نام پر مانگتے ہیں ۔ ان گندے کھیل کے میدان میں قوم کے شریف عناصر اول تو اترتے ہی نہیں اور بھولے بھٹکے اگر وہ کبھی اترآتے ہیں تو پہلے ہی قدم پر انہیں میدان چھوڑ دینا پڑتا ہے۔ مقابلہ صرف ان لوگوں کے درمیان رہ جاتا ہے جنہیں نہ خدا کا خوف ہو نہ خلق کی شرم ، اور نہ کوئی بازی کھیل جانے میں کسی طرح کا باک ۔

پھر ان میں سے کامیاب ہوکر وہ نکلتا ہے ، جو سب جھوٹوں کو جھوٹ میں اور سب چال بازوں کو چال بازی میں شکست دے دے ، رائے دینے والی پبلک جس کے ووٹوں سے یہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں ، نہ اصولوں کو جانچتی ہے ، نہ پروگراموں کو پرکھتی ہے نہ سیرتوں اور صلاحیتوں کو دیکھتی ہے ۔ اُس سے جو بھی زیادہ ووٹ جھپٹ لے جائے وہ بازی جیت لیتا ہے ۔ بلکہ اب تو اس کے حقیقی دونوں کی اکثریت بھی کوئی چیز نہیں رہی ہے ۔ کرائے پر ووٹ دینے والے جعلی ووٹر ، اور بددیانت پولنگ افسر اپنے ہاتھوں کے کرتب سے بارہا اُن لوگوں کو شکست دے دیتے ہیں ، جن کو اصلی رائے دہندوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہوتا ہے ۔ بسا اوقات انتخاب کی نوبت بھی نہیں آنے پاتی ۔ ایک بے ضمیر مجسٹریٹ کسی ذاتی دلچسپی کی بنا پر یا کسی کا اشارہ پاکر تمام امیدواروں کو بیک جنبشِ قلم میدان سے ہٹا دیتا ہے اور منظورِ نظر آدمی بلا مقابلہ پورے حلقۂ انتخاب کا نمائندہ بن جاتا ہے خواہ وہ واقعی نمائندہ ہو یا نہ ہو ۔

  ہر شخص جو کچھ بھی عقل رکھتا ہے ، اِن حالات کو دیکھ کر خود یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ جب تک یہ طریقِ انتخاب جاری ہے ، کبھی قوم کے شریف اور نیک اور ایمان دار آدمیوں کے ابھرنے کا امکان ہی نہیں ہے ۔ اس طریقے کا تو مزاج ہی ایسا ہے کہ قوم کے بدتر سے بدتر عناصر چھٹ کر سطح پر آئیں اور جس بداخلاقی و بدکرداری سے وہ انتخاب جیتتے ہیں اسی کی بنیاد پر وہ ملک کا انتظام چلائیں ۔

یہ طریقے یکسر بدل دینے کے لائق ہیں ۔ ان کے بجائے دوسرے کیا طریقے ہوسکتے ہیں جن کے ذریعے سے بہتر آدمی اوپر آسکیں ؟ ان کی ایک مختصر سی تشریح میں آپ کے سامنے کرتا ہوں ۔ آپ خود دیکھ لیں کہ آیا ان طریقوں سے نظامِ حکومت کی اصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے یا نہیں

اول یہ کہ انتخابات اصولوں کی بنیاد پر ہوں نہ کہ شخصی یا علاقائی یا قبائلی مفادات کی بنیاد پر ۔ دوم پروگرام کو نا فذ کرنے کے لئے کس قسم کے آدمی موزوں ہوسکتے ہیں اور ان میں کیا اخلاقی صفات اور ذہنی صلاحیتیں ہونی چاہئیں ۔

سوم یہ کہ لوگوں کے خود امیدار بن کر کھڑے ہونے اور خود روپئے صرف کرکے ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ بند ہونا چاہئے ۔ کیوں کہ اس طرح بالعموم صرف خود غرض لوگ ہی منتخب ہوکر آئیں گے ۔ اس کے بجائے کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہئے، جس سے ہر حلقہ ٔ انتخاب کے شریف و معقول لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں ۔ کسی موزوں آدمی کو تلاش کرکے اور اپنامال صرف کرکے اسے کامیاب کرنے کی کوشش کریں ۔ اس طرح جو لوگ منتخب ہوں گے وہی بے غرض ہوکر اپنے نفس کے لئے نہیں بلکہ ملک کی بہتری کے لئے کام کریں گے۔

 چہارم یہ کہ جس شخص کو اس طرح کی کوئی پنچایت اپنے علاقے کی نمائندگی کے لئے تجویز کرے اس سے برسرِ عام یہ عہد لیا جائے کہ وہ پنچایت کے منظور کئے ہوئے منشور کا پابند رہے ، پارلیمنٹ میں پہنچ کر ان لوگوں کے ساتھ مل کر کام کریگا جو اسی منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسی طریقہ پر کامیاب ہوکر دوسرے علاقوں سے وہاں پہنچیں ۔ اور جب کبھی پنچایت پر اظہار بے اعتمادی کرے وہ مستعفی ہوکر واپس آجائے گا۔

پنجم یہ کہ پنچایت کے جو کارکن اس شخص کو کامیاب کرانے کی جدو جہد کریں ان سے قسم لی جائے کہ وہ اخلاق کے حدود اور انتخابی ضابطوں کی پوری پابندی کریں گے ۔ کسی تعصب کے نام پر اپیل نہ کریں گے ۔ کسی کے جواب میں جھوٹ اور بہتان تراشی اور چال بازیوں سے کام نہ لیں گے ۔ کسی کی رائے روپے سے خریدنے یا دبائو سے حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں گے ۔ کوئی جعلی ووٹ نہ بھگتائیں گے ۔ خواہ جیتیں یا ہاریں ، بہر حال شروع سے آخر تک پوری انتخابی جنگ صداقت اور دیانت کے ساتھ بالکل بااصول طریقہ سے لڑیں گے ۔

 میرا خیال یہ ہے کہ اگر انتخابات میں ان پانچ طریقوں کو آزمایا جائے تو جمہوریت کو قریب قریب بالکل پاک کیا جاسکتا ہے اور بدکردار لوگوں کے لئے برسر اقتدار آنے کے دروازے بند کئے جاسکتے ہیں ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے بہتر نتائج پہلے ہی قدم پر ظاہر ہوجائیں ۔ لیکن اگر اس رخ پر ایک دفعہ انتخابات کو ڈال دیا جائے تو جمہوریت کا مزاج یکسر تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ ممکن ہے کہ ان طریقوں سے نظامِ حکومت کی واقعی تبدیلی میں پچیس تیس سال صرف ہوجائیں ، یا اس سے بھی زیادہ ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی کا صحیح راستہ یہی ہے اور جو تبدیلی اس طریقے سے ہوگی وہ انشاء اللہ پائیدار و مستحکم ہوگی۔

 حضرات ! میں نے اس تقریر میں مرض اور اسبابِ مرض کی پوری تشخیص و تشریح آپ کے سامنے رکھ دی ہے ، طریقِ علاج بھی بیان کردیا ہے اور وہ مقصد بھی پیش کردیا ہے جس کے لئے ہم علاج کی یہ کوششیں کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے بعد یہ رائے قائم کرنا آپ کا اپنا کام ہے کہ میری باتیں کہاں تک قابلِ قبول ہیں ۔ ٭

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔