تقلید کی حقیقت

محمد عرفان شیخ يونس سراجي

 (جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ) 

تقلید کی لغوی تعریف: قلدہ قلادۃ: گردن میں ہار ڈالنا۔ (المعظم الوسیط)

شرعی تعریف:کسی کی بات بغیر کسی دلیل وحجت کے قبول کرنا۔

تقلید کی مشروعیت: 

تقلید چوتھی صدی کی ایجاد ہے اس صدی سے پہلے لوگ  کسی ایک مذہب کی تقلید خاص پر جمع نہ تھے  بلکہ صرف کتاب وسنت کےپیروکار تھے۔

تقلید کے منفی اثرات ونتائج

تاریخ شاہد ہے کہ تقلید جامد ہی کا نتیجہ ہے کہ آج امت مسلمہ آپس میں دست گریباں ہے۔ مسلک کی حمایت وتائید  میں  روز افزوں آپسی چشمک   بڑھ  ر ہی ہے۔ اختلاف وانتشار اور انارکی پھیل رہی ہے۔ اسی تقلید جامد ہی کا اثر تھا کہ مسلمانوں نے اپنے امام اور مصلے الگ کر لئے تھے۔ خانہ کعبہ میں چاروں ائمہ اپنے اپنے مسلک کے مطابق نمازپڑھاتے تھے۔ اللہ غریق رحمت کرے ان مخلص علماء ودعاۃ اور با غیرت مسلم حکمرانوں کو جنہوں نے خانہ کعبہ سے  چار مصلوں کو ختم کرکے ایک موحد ومتبع کتاب وسنت ائمہ کرام کے پیچھے نماز ادا کرنےمیں کامیابی حاصل کی۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرہ امتیاز

تمام صحابہ کرامy نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے احکام وفرامین  پر عمل کرتے تھے، ان کے عقائد ایک تھے۔ سب کی ڈگر ومنزل ایک تھی۔ ان میں جب بھی کسی طرح کا کوئی  اختلاف رونما ہو جاتا تو کتاب وسنت کو فیصل تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپسی اختلافات کو ختم کردیتے۔ کسی نے حدیث رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی متقدم و متفوق صحابہ کے آراء وقیاس کو قبول نہیں کیا۔ اگر کوئی شخص حدیث رسول کے باوجود کسی کے قول اور فتوی کو کوئی اہمیت دینا چاہتے تو انہیں سخت سرزنش کی جاتی اس لئے کہ حدیث رسول کے سامنے کسی کی کوئی بات ناقابل التفات ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرکان ہے :   ”اللہ کے نبی rنے حج تمتع کیا ہےتو عروہ بن زبیر نے کہا کہ ابوبکر وعمراس سے منع کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ وہ لوگ ہلاک وبرباد ہو جائیں گے، میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان پیش کرتا ہوں اور یہ  کہتے ہے کہ ابوبکر وعمر نے اس سے منع کیا ہے“۔ (مسند احمد: 3121)

تقلید اور علماء کرام کے اقوال

امام ابوحنیفۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”صحیح حدیث ہی میرا مذہب  ہے “۔ (الحاشیہ لابن عابدین 1/63)

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” میں انسان ہی ہوں، مجھ سے خطا وصواب دونوں کا احتمال ہے۔ اس لئے میرے اجتہادات میں غور وفکر کریں۔ جو چیزیں قرآن وحدیث کے موافق ہوں قبول  کرلیں اورجو مخالف ہو ں ترک کردیں “۔ (جامع بیان العلم وفضلہ لابن البر2/32)

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :” میری کتاب میں سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کوئی بات دستیاب ہو  اسے چھوڑدیں اور کتاب وسنت کو سینے سے لگا لیں “۔ (إعلام الموقعین 2/363-362)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” میری تقلید کرو نہ مالک کی، نہ شافعی اور اوزاعی اور ثوری کی، بلکہ قرآن وسنت سے اپنے مسائل اخذکرو“۔ (إعلام الموقعين  2/302)

شیخ اسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :” اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی شخص کے  اوامر ونواہی کے وجوب کا اعتقاد رکھنا  خلاف  اجماع ہے “۔ (الفتاوی الکبری4/625)

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  ” کتاب وسنت کو اپنا رہبر ورہنما بنائیں۔ اسے اپنی زندگی میں نافذ کریں۔ اختلاف وانتشار سے کنارہ کش ہوتے ہوئے اس کی تعلیماتت اور ارشادات  پر عمل پیرا ہوں “۔ مزیدبراں فرماتے ہیں :  ”امن وامان اورجان ومال کی سلامتی کتا ب وسنت کی پیروی میں ہے اور ہلاکت وبربادی اس سےاغماض و اعراض کرنے میں ہے“۔ (فتوح الغیب)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”اللہ تعالیٰ نے محض نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل شدہ چیزوں پر ایمان لانا واجب قرار دیا ہے “۔ مزید فرماتے ہیں :”متعصب مقلدین کے ظہور سے قبل لوگ اپنے پیش آمدہ مسائل کا حل خالص  کتاب وسنت  میں تلاش کرتے تھے، لیکن  آج  اپنے  دینی مسائل کا حل اورتصفیہ اپنےا پنے ائمہ کے آراء واقوال کی روشنی میں کرتے ہیں۔ "ذلك مبلغهم من العلم”یہی ان کے علم کی حدہے“۔ (رسالہ قول سدید) مزید براں فرماتے ہیں :جان لو کہ چوتھی صدی سے پیشترجملہ اہل اسلام کسی ایک معین مذہب کی  تقلید خاص پر جمع نہ تھے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ یہ تقلیدی مذاہب مسلمانوں میں جناب کریم صلی اللہ علیہ و سلم واصحاب کرام رضی اللہ عنہم وتابعین عظام وائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کے پورے چار سو سال گذر جانے کے بعد جاری ہوئے ان پوری چار صدیوں میں مسلمانوں میں موجودہ تفریق نہیں تھی، سب قال اللہ وقال الرسول کے متلاشی رہتے اور اسی  پرعمل پیرا تھے۔ (تحریک جماعت اسلامی اور مسلک اہل حدیث)

اشرف علی  دیوبندی تھانوی رحمہ اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ تقلیدکسے کہتے ہے؟ عرض کیا: کسی کی بات بغیر کسی دلیل وحجت کے قبول کرنا۔ اس نے کہا : کیااللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو تسلیم کرنا  تقلید کہتے ہیں ؟عرض کیا: نہیں !اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام وفرامین کی بجاآوری کو تقلید نہیں بلکہ اتباع کہتے ہیں۔ (ملفوظات حکیم الأمت)

اللہ تعالى کا فرمان ہے:

[يا ايها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولى الأمر منكم فإن تنازعتم في شيء فردوه إلى الله والرسول إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر ذلك خير وأحسن تأويلا]

ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ تعالى کی فرماں برداری کرو اور رسول  اللہ (صلى اللہ علیہ وسلم )کی فرماں برداری کرو اور تم سے اختیار والو کی۔ اور پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ ‘اللہ تعالى کی طرف اور رسول کی طرف‘اگر تمہیں اللہ تعالى پر اور قیامت کے دن پر  ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے”۔ (سورہ نساء:59)

مذکورہ بالا آیت سے   یہ معلوم ہواکہ امراء وحکام کی اطاعت  وفرماں برداری اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ حتمی نہیں بلکہ مشروط ہے۔ اسی لئے  اللہ تعالى نے ” أطيعواالله“کے بعد ” أطيعوالرسول“ تو کہا کیوں کہ  یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہے لیکن  ”أطيعواأولى الأمر“ نہیں کہا کیوں کہ ” أولی الأمر“ کی اطاعت مستقل نہیں ہےاور حدیث میں بھی آیاہے : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اطاعت وفرماں برداری اس وقت تک واجب ہے جب تک کہ معصیت کا حکم نہ دیا جائے، اگر معصیت کا حکم دیا گیا تو کوئی اطاعت وفرکاں برداری (واجب)نہیں ہے“۔ (صحيح البخاري، باب السمع والطاعة للأمام، ح:2955)

اللہ تعالى کا فرکان ہے:

[وما کان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمرا أن يكون لهم الخيرة من أمرهم و من يعص الله ورسوله فقد ضل ضلالا بعيدا]

ترجمہ: "اور کسی مومن مرد وعورت کو اللہ تعالی اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا اختیار باقی نہیں رہتا، اللہتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی جو بھی نافرمانی کرےگا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا”۔ (سورہ احزاب: 36)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا جذبہ اتباع

یہ آیت حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے لئے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح دیا، انہوں نے انکار کردیا  اور کہا کہ میں ان سے باعتبار خاندانی حسب ونسب، جاہ و جلال کے بہتر ہوں  تو اللہ تعالى نے  [وما کان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمرا أن يكون لهم الخيرة…]کا نزول فرمایا۔ یہ آیت سنتے ہی نکاح کے لئے رضامند ہوگئیں۔ (تفسیر ابن کثیر)

اللہ تعالى فرماتا ہے :

  [فلا وربك لا يؤمنون حتي يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما]

ترجمہ: "سو قسم ہے تیرے پرور دگار کی !یہ مؤمن ہو ہی نہیں سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے  دل میں تنگی نہ پائیں اور فرماں برداری کے ساتھ قبول کر لیں "۔ (سورہ نساء: 65)

اس آیت کامطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کےفیصلے سے اختلاف، دل میں کسی طرح کی تنگی  رکھناایمان کے منافی ہے۔ احمد مصطفی  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے  فرامین کے سامنے علماء، فقہاء، امراء، صلحاء کی بات نا قابل التفات ہے۔ محض آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس جہان آب و گل میں بودوباش اختیار کرنے والے کے لئے قدوہ ونمونہ ہے۔ جیساکہ اللہ تعالى کا فرمان ہے :[لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة…]”یقینا تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں عمدہ نمونہ(موجود)ہے…“۔

اس مختصر تحریر کی روشنی میں یہ حقیقت طشت از بام ہوگئ کہ خیر القرون ومشہور لہا بالغیر کا زریں دور کورانہ تقلید سے خالی تھا اور تقلید متاخر دور کی پیداوار ہے۔

علامہ اقبال رحمہ اللہ نے ایک شعر میں نقشہ کھینچا ہے۔

ہے فقط توحید وسنت امن وراحت کا طریق

فتنہ جنگ وجدل تقلید سے پیدا نہ کر

آخر میں دعا ہے کہ بار الہا ہم مسلمانوں کو سلف صالحین کے منہج ومسلک پر چلنے اور کتاب وسنت کی سنہری تعلیمات کو فروغ دینے کی توفیق ارزانی عطا فرمائے۔ (آمین)

2 تبصرے
  1. محمّد عاطف انصاری کہتے ہیں

    آپ سے مؤ دبانہ گزارش ہے کہ آپ صرف ایک دفعہ مولانا یحییٰ نعمانی صاحب کی تقلید کی شرعی حیثیت پر کتاب غیر جانب دار ہو کر مطالعہ کریں۔
    جزاک اللّه خیرا

  2. محمد عرفان شیخ یونس سراجی کہتے ہیں

    یہ مضمون کتاب وسنت کی روشنی میں لکھا گیا ہے- اگر کوئی اقتراح ہو تو پیش کریں، میں بسروچشم قبول کروں گا، اس شرط کے ساتھ کہ کتاب وسنت پر عقل و نقل کو ترجیح نہ دی گئی ہو-
    اللہ آپ کو شادوآباد رکھے –

تبصرے بند ہیں۔