تقوی ہی تمام عبادات کی اساس!

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

جب بندگی کا حقیقی شعوربیدار ہوتا ہے،معصیت کی تاریکی کااحساس پیداہوتاہے اور ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ عام ہو جاتا ہے تو پھر پورا معاشرہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگ جاتا اور پورا ماحول ایمان کے نور سے منور ہو جاتاہے، پھر کفر و شرک وہاں سے مٹ جاتا اور معصیت و نا فرمانی کی تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں ، ہر طرف ’’صِبْغَةُ اللہ‘‘ ہی کی جلوہ آرائی اور دین و شریعت ہی کی روشنی نظر آتی ہے۔

اسی شعور و آگہی کا نام تقویٰ ہے؛جو بندےکو رب سےمربوط رکھتاہے، اُسے اپنے رب سے کئے گئےعہد کا پاس و لحاظ کراتا ہے،اُسے نیکیوں کا خوگر بنا تا ہے اور بالآخر  شرافت وکرامت کی اوج ثریاتک پہونچادیتاہے۔

تقویٰ کااستعمال شریعت میں دو معنی کےلئے ہوتا ہے ایک ڈرنا، دوسرے بچنا اور تامل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصود تو بچنا ہی ہے یعنی معاصی سے مگر سبب اس کا ڈرنا ہے؛ کیونکہ جب کسی چیز کا خوف دل میں ہوتا ہے، جب ہی اس سے بچا جاتا ہے، پس تقویٰ کا مفہوم ہوا تمام ظاہری باطنی گناہوں سے بچنا اور وہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ معاصی سے بچا جائے اور مامورات کو بجالایا جائے کیونکہ ترک ماموربہ بھی معصیت ہے۔

ایک مرتبہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے(تعلیم امت کے لئے) پوچھا کہ تقوی کی حقیقت کیا ہے؟  انہوں نے کہا ،کیا تم کبھی ایسے راستےمیں نہیں چلے جس میں کانٹے ہوں ۔ فرمایا ،ہاں !۔ کہا اس حالت میں تم نے کیا کیا ۔ فرمایا،میں نے کوشش کی کہ کانٹوں سے بچ کر نکل جاوں ۔ کہا ،یہی تقوی کی حقیقت ہے ۔

حضرت مجددالف ثانی رحمہ اللہ  تقوی کی حقیقت کوبیان کرتے ہوئےاپنے مکتوبات میں تحریر فرماتے ہیں :

”بعض علمائے ربانی فرماتے ہیں کہ نجات کامدار دواجزا پر ہے: اوامرکابجالانا اور نواہی سے رُک جانا۔اور ان دونوں اجزا میں سے آخری جز زیادہ عظمت والا ہے، جس کو ورع وتقویٰ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کاذکر عبادت واجتہاد کے ساتھ اور دوسرے شخص کاذکرورع کے ساتھ کیاگیاتو نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ ورع یعنی پرہیزگاری کے برابر کوئی چیز نہیں اور نیز رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ملاک دینکم الورع ․(تمہارے دین کامقصود پرہیز گاری ہے۔)
اور فرشتوں پر انسان کی فضیلت اسی جز سے ثابت ہے اور قرب کے درجوں پرترقی بھی اسی جز سے ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ فرشتے جزوِ اول میں شریک ہیں اور ترقی ان میں مفقود ہے۔ پس ورع وتقویٰ کے جز کامد نظر رکھنا اسلام کے اعلیٰ ترین مقاصد اور دین کی اشد ضروریات میں سے ہے۔“ (مکتوب76، جلداول)

مفسر قرآن مولانا ابوالکلام آزادؔ ‘‘تقوی’’کےتعلق سے یوں ارقام فرماتے ہیں :

‘‘زندگی کی تمام باتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں ؛ بعض طبیعتیں محتاط ہوتی ہیں ،بعض بے پرواہ ہوتی ہیں ؛جن کی طبیعت محتاط ہوتی ہے ، وہ ہر بات میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں ،اچھے برے ،نفع ونقصان ،نشیب و فراز کا خیال رکھتے ہیں ، جس بات میں برائی پاتے ہیں ،چھوڑ دیتے ہیں ، جس میں اچھائی دیکھتے ہیں ،اختیار کر لیتے ہیں ، برخلاف اس کے جو لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں ، ان کی طبیعتیں بے لگام اور چھوٹ ہوتی ہیں ؛ جو راہ دکھائی دے گی ، چل پڑیں گے، جس کام کا خیال آگیا کر بیٹھیں گے ، جو غذا سامنے آگئی کھا لیں گے ، جس بات پر اڑنا چاہیں گے ،اڑبیٹھیں گے ، اچھائی برائی ، نفع ونقصان ،دلیل اور توجہ کسی کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی ۔

جن حالات کو ہم نے یہاں ‘‘ احتیاط’’ سے تعبیر کیا ہے اس کو قرآن تقوی سے تعبیر کرتا ہے ۔’’ (ترجمان القرآن)

تمام عبادات کا مقصود‘‘تقوی’’ 

نماز: اللہ تعالی سےتعلق کا بہترین اظہار نماز کی شکل میں ہوتا ہے؛کیوں کہ اس عبادت میں بندے کا اپنے رب سے رشتہ جڑ جاتا ہے، وہ اسے ملجا و ماوی اور سب کچھ سمجھتا ہےاور اس کے آگے سربسجودہوجاتاہے۔نماز جیسی اہم عبادت کے تعلق سےبھی بہ طور خاص تقوی  کومطلوب بتلاتے ہوئےاللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور برائیوں سے روکتی ہے۔ (سورۃ العنکوت ۴۵) نوٹ:بے حیائی اور برائیوں سے رکنےکانام ہی تقویٰ ہے۔

زکوۃ: راہ خدا میں ہرسال مال کا چالیسواں حصہ فقراء ومساکین کو دینا؛تاکہ مال پاک ہوجائے اور نفس کی اصلاح ہوتی رہے،زکوۃ کہلاتاہے؛یہی وجہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرے اور بندوں کے حقوق نہ پہچانے،اس کا مال ناپاک ہوجاتا ہے، اور ناپاک مال میں جینے والا صاحبِ تقوی نہیں ہوسکتا، تقوی کا مقامِ بلند مال کے تزکیہ کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے اور انسان اللہ تعالی کی بے پایاں نعمتوں کا مستحق ہوتا ہے،ارشاد باری ہے: جہنم سے وہ شخص دور رکھا جائے گا جو بڑے تقوی والا ہے، جو اپنا مال اس غرض سے دیتا ہے کہ پاک ہوجائے، اس پر کسی کا احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ اسے دینا ہو، وہ تو صرف اپنے رب اعلی کی رضا جوئی چاہتا ہے اور وہ ضرور اس سے خوش ہوگا۔ (الیل:21-17)

روزہ :روزہ اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سارے مکلف مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں روزہ رکھیں اور اپنے پاک کلام میں روزہ کی فرضیت کی یہی حکمت بتائی ہے کہ روزہ سے انسان میں تقویٰ پیداہوتا ہےجیساکہ  فرمان الہی ہے: ے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔(البقرۃ، آیت نمبر :183)

حج: حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، اس کی ادائیگی میں مالی صرفہ بھی ہے اور جانی مشقت بھی ،حج کے سفر کے دوران عازمین حج زاد سفر اختیار کرتےہیں اور متعدد چیزوں سے آراستہ ہوکرجاتےہیں ؛مگر فرمان الٰہی ہے : اور (حج کے سفر میں ) زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو؛کیونکہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ (سورۃ البقرہ 197) یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا شریعت اسلامیہ کے خلاف نہیں ہے لیکن سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف ہے۔

قربانی: قربانی کرنا(راہ خدا میں جانورذبح کرنا) بھی ایک ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے،اور اس اہم عبادت کا مقصد بھی تقوی ہے ؛جیساکہ فرمان خداوندی ہے:

ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں ) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔

(الحج، 22: 37) معلوم ہوا کہ قربانی کا بظاہر مقصد جانور ذبح کرنا ہے مگر اس کی اصل روح تقویٰ اور اخلاص کی آبیاری ہوتی ہے۔

اسلاف کا تقوی:

حضرت انس ؓنے (اپنے زمانے کے مسلمانوں کو مخاطب کرکے) فرمایا کہ تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں لیکن ہم ان کاموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موبقات یعنی ہلاک کرنے والے کاموں میں شمار کرتے تھے۔

مطلب یہ ہے کہ تم لوگ ایسے کام کرتے ہو اور ایسی ایسی چیزیں اختیار کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بہت معمولی درجہ کی اور بہت حقیر ہیں ، زیادہ سے زیادہ تم ان کو مکروہات میں شمار کرتے ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کام اور وہ چیزیں بڑی نقصان دہ ہیں اور بڑی تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم لوگ ایسے کاموں کو بھی ان کاموں میں شمار کرتے تھے جو اخروی انجام کے اعتبار سے ہلاکت میں ڈالنے والے ہیں ۔

(مظاہر حق جدید)

تابعین میں حضرت امام ابوحنیفہؒ تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر فائزتھے، چنانچہ کوفہ میں ایک مرتبہ کسی کی بکری چوری ہوگئی تو آپ نے سات سال تک بکری کا گوشت نہیں کھایا، اس لئے کہ بکری کی عمر سات سال ہوتی ہے۔ (مفتاح العادة)

ایک مرتبہ سخت گرمی اور دھوپ میں آپ مکانوں کے سایہ میں چل رہے تھے کہ ناگاہ ایک مکان کے قریب سایہ سے نکل کر دھوپ میں چلنے لگے، کسی نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا اس گھر کے مالک نے مجھ سے قرض لیا ہے، میرے لئے اس گھر کے سایہ سے نفع اٹھانا تقویٰ کے خلاف ہے۔

امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء علوم الدین میں ایک حکایت نقل کی ہے، حضرت علی بن معبد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک کرایہ کے مکان میں رہتا تھا، ایک بار میں نے خط لکھا، روشنائی کو سکھانے کے لیے مٹی کی ضرورت تھی، میں نے سوچا دیوار سے مٹی کھرچ کر روشنائی خشک کر لوں پھر خیال آیا کہ یہ میری ملکیت تو نہیں ہے، لیکن سوچنے لگا کہ اتنی سی مٹی لینے میں کیا حرج ہے۔ فرماتے ہیں کہ جب شام کو سویا تو خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ فرمارہے تھے کہ ابھی تو نہیں لیکن کل قیامت میں پتہ چل جائے گا کہ ذرا سی مٹی لینے میں کیا حرج ہے۔

علامہ ابن عابدین نے ”ردالمحتارعلی الدرالمختار ”میں امام ابویوسف کے تذکرہ میں لکھاہے کہ جب ان کے انتقال کے وقت قریب آیاتورونے لگے ،کسی نے عرض کیا کہ آپ کیوں رورہے ہیں حالانکہ آپ نے اس طرح کے بے لاگ اورعدل وانصاف سے فیصلے کئے۔فرمایا میں اس لئے رورہاہوں کہ ایک مرتبہ میں نے عدل کا خیال نہیں رکھا،معاملہ ہارون رشید اورایک نصرانی کاتھا ۔اس نصرانی نے ہارون رشید پر دعویٰ دائر کیاتھامیں نے باوجود اس کے کہ ہارون رشید کے خلاف فیصلہ کیاتھا لیکن میرے دل میں چاہت تھی کہ ہارون رشید صحیح نکلے اورنصرانی کادعویٰ غلط ہو۔(بحوالہ القضاء فی الاسلام25)

ہم تقوی شعار کیسے بنیں ؟

اللہ والوں کے تقوی اور زہدو ورع کے قصے پڑھ کر یقینا پاکیزہ طبیعتوں میں یہ داعیہ پیدا ہوگا کہ ان کے اندر بھی وہ صفات پیدا ہوجائیں ، اور واقعی اگر ہمارے اندر یہ عزم و حوصلہ پیدا ہوگیا تو سمجھیں کہ ہم کامیاب ہیں لیکن آپ پوچھیں گے کہ وہ کونسا ایسا نسخہ ہے جسے اپنا کر ہم تقوی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں ؟ تو اس سلسلے میں چند وسائل کی طرف رہنمائی کی جا رہی ہے جنہیں آپ اپنی انگلیوں پر شمار کر سکتے ہیں ۔

فرائض کی دائیگی، محرمات ومنہیات سے اجتناب، نفس کے ساتھ ریاضت اور مجاہدہ، کتاب وسنت پر عمل اور قرآن کریم کی تلاوت، پرہیزگاروں کی مصاحبت وغیرہ۔

ان امور کی محافظت سے ضرور ہمارے اندر تقوی پیدا ہوگا اور ہم بھی ان انعامات کے مستحق بن سکیں گے جن کا اللہ تعالی نےمتقیوں سے وعدہ فرمایا ہے۔ اللهمَّ ! آتِ نفوسنا تقواها و زكِّها أنت خيرُ مَن زكَّاها أنت وليُّها ومولاها

تبصرے بند ہیں۔