تلاش

سہیل بشیر کار

نام کتاب : تلاش

مصنفہ : عروبہ عامر

ناشر : الف پبلشرز نئی دہلی

صفحات : 384

  قیمت :400

 کچھ عرصہ سے خواتین مصنفین کی طرف سے اعلیٰ کتابیں مارکیٹ میں آرہی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "تلاش” بھی اس سلسلے کا اہم اضافہ ہے، کتاب کے بارے میں مشہور و معروف موٹویشنل سپیکر اور لائف کوچ قاسم علی شاہ لکھتے ہیں: "یہ کتاب قارئین کیلئے ایک تحفے سے کم نہیں کیونکہ اس میں مرکزی کردار نورالعین، پریشے  زمان اور شاہ ویز احمد کے بارے میں ایسے حالات و واقعات بیان کئے گئے ہیں جو پڑھنے والوں کو ایک بڑی انسپائریشن دیتے ہیں۔ ان کی کتاب اپنے اندر وسیع علم وفہم، اصلاح وتعمیر اور فکری بصیرت سموئے ہوئے ہے۔ جو معاشرے کی درست سمت میں رہنمائی بھی کرے گی اور قارئین میں مثبت سوچ بھی اجاگر کرے گی۔”

 کتاب کے تین مرکزی کردار نورالعین، عریشے اور حمدان ہے۔ یہ کتاب دراصل سچائی کو دیکھنے کی خواہش رکھنے والے فرد کا سفر ہے، یہ ایک ہنرمند لڑکی کو تلاش کرنے کا سفر ہے اور کمزور طبقات کے لیے جان دینے والوں کی کہانی ہے۔

 نور العین اپنے والدین ابراہیم اور آسیہ بیگم کی اکلوتی اولاد ہوتی ہے، مصنفہ نے دادیوں کا مختصر کردار دکھایا ہے۔ دادیاں اور نانیاں عام طور پر اپنے پوتے اور پوتیوں کی دوست ہوتی ہیں۔ وہ انسان کو زندگی گزارنا سکھاتی ہے۔ نور العین کو اپنی دادی پیاری پیاری باتیں سکھاتی رہتی ہے ایک جگہ کہتی ہے: "اللہ تعالیٰ انسان کو بلکل تنہا کبھی نہیں  چھوڑتا۔” (صفحہ 24) ایک اور جگہ یوں گویا ہے:”یہ یادیں ہی تو ہیں جو بڑھاپے میں انسان کا واحد سہارہ ہوتی ہیں، بس بس جس نے اپنی جوانی خوبصورتی سے گزاری ہر اس کام سے دور رہا جس کا اسے بڑھاپے میں غم ہو تو اس کے لیے یادیں خوبصورت ہی ہیں۔ "(صفحہ 19) نور العین کو دادی کے انتقال کے بعد بھی اس کو دادی کی باتیں یاد رہتی ہے؛ مصنفہ لکھتی ہیں :”اسے دادو کی کچھ دن پہلے کہی ہوئی بات یاد آئی بیٹا! ہم میں سے نوے فیصد لوگ اپنوں کے مرجانے کے غم سے نہیں روتے بلکہ اس سے جڑی ضروریات ہمیں رلاتی ہیں، اس سے جڑا کوئی احساس ٹوٹ جانے کا خوف مستقبل کی فکر کہ ہائے اب ہم اکیلے رہ جائینگے، اگر انسانوں سے جڑے یہ غم نہ ہوں تو شاید ہی کوئی کسی کے مرنے پر روئے؛ پچھڑنے کی اذیت بہت سخت ہوتی ہے۔”(صفحہ 22)نورالعین کو  ایک دوست سے واسطہ پڑتا ہے جو کہ بہت ہی نگیٹو سوچ کی ہوتی ہے۔ وہ نورالعین کو ہر ایک کے بارے میں صرف منفی باتیں بتاتی ہے لیکن یہ منفی سوچ اس کی دادی ختم کرتی رہتی ہے، دادو کے انتقال کے بعد نور العین کی والدہ چاہتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کے ساتھ رہے لیکن نور العین کو دوست بنانے میں ڈر محسوس ہوتا ہے لوگ ویسے نہیں ہونگے جیسے وہ نظر آتے ہیں اس لیے وہ ہمیشہ لوگوں سے صرف اس ڈر کی وجہ سے نہیں ملتی، اس کی ماں کی کوششوں سے اس کو ایک نئی دوست مریشے بن جاتی ہے۔ اپنی نگیٹو دوست زارا سے مختلف جو باذوق اور سلیقہ مند لڑکی ہوتی ہے۔ وہ نور العین کو اچھے اور خراب دوست کے بارے میں یوں سمجھاتی ہے: "جو دوست آپ میں کسی چیز کا خوف پیدا کر دے وہ دوست نہیں ہوتا وہ خاموش زہر ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ اندر جا کر انسان کو خراب کر دیتا ہے، منفی سوچ بھی ایک زہر قاتل ہے جو انسان کی اپنی سوچ اور رائے ختم کر دیتی ہے اور انسان ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اگر اپنے ارد گرد کوئی بھی شخص کی اور منفی سوچ کا نظر آئے تو اس سے دوری اختیار لو ورنہ وہ آپ کو آہستہ آہستہ اندر سے ختم کر دے گا وہ سمجھا رہی تھی اور نور سوچ رہی تھی کہ کاش! اسے پریشے ایک سال پہلے ملی ہوئی تو وہ آج اتنی ہی مثبت ہوئی جتنی دادو اسے دیکھنا چاہتی تھیں!” (صفحہ 34)

سچے دوست کے بارے میں کہتی: "سچا دوست کبھی بھی آپ کی کسی بات کو ایک دم سے غلط نہیں کہے گا، وہ آپ کو ہر چیز کا منفی رخ نہیں  دکھائے گا، وہ آپ کو نیچا دکھانے کی کوشش کبھی نہیں کرے گا، سچا دوست ہمیشہ آپ کو سپورٹ کرے گا تحمل سے آپ کی بات سنے گا، آپ کی کسی خوشی کو اپنے حسد کی بھینٹ نہیں چڑھائے گا، سچا دوست وہ ہوگا جو آپ کو ہردم سپورٹ کرے گا اور اگر آگے کا راستہ مشکل ہو تب بھی وہ حوصلے کا لیول بڑھائے گا نہ کے خوف دلا دلا کر رہی سہی امید بھی ختم کر دئے۔ ” (صفحہ 34)

گریجویشن کرنے کے بعد نور کی خواہش تھی کہ وہ اچھی رائٹر اور اچھی ڈبیٹر بنے اس لیے کہ اس کا ایڈمیشن اس کالج میں ہو جاتا ہے جہاں یہ دونوں چیزیں اسے ملے، والد کے دوست کی وجہ سے اس کا ایڈمیشن اس کالج میں ہو جاتا ہے ابتدا ہی سے اس کو لکھنے کی مشق کرائی جاتی ہے جس میں اس کی ساتھی پریشے اس کو مدد کرتی ہے۔ اس کے بعد تقریر کے مقابلے میں وہ اول نمبر آتی ہے۔ یہ کامیابی اس کو مزید محنت کرنے پر اکساتی ہے۔ مصنف دکھاتی ہیں کہ اچھا ڈبیٹر کیسا ہوتا ہے اور اس کے لیے کس طرح کی ضرورت ہوتی ہے، ساتھ ہی تقریر میں کیا کیا ہونا چاہیے۔ یہاں ایک تقریر کا ایک پیراگراف پیش کیا جاتا ہے: "لیکن آج کل کے نوجوان سمجھتے ہیں کہ دین صرف نماز روزہ ہی ہے وہ اس محنت کو سجھتے ہی نہیں ہیں جو اصل میں ہمارے علماء ہم تک پہنچانا چاہتے ہیں، دین نماز روزے۔ سے اوپر ہے، یہ صرف فرائض ہیں ! واجبات، اخلاق سنت ان سب پر کوئی بات نہیں کرتا، کیوں؟ ہمیں لگتا ہے کہ دین صرف چند فرائض ہیں جبکہ ہماری چوبیس گھنٹے کی زندگی دین ہے، جس میں اخلاق بھی شامل ہے، آداب، سلیقہ معاملات معاشرت غور وفکر غرض ہر چیز جو ہم پورے دن میں کرتے ہیں وہ ہمارا دین ہے۔ تبلیغ صرف کلمے کی یا نماز کی نہیں کی جاتی تبلیغ کا اصل مقصد ہے کہ آپ چلتے پھرتے بھی کسی کو اچھی بات اچھا اخلاق کوئی سنت یا کوئی حدیث بتادیں۔ ایک تبلیغ قولا ہوتی ہے اور ایک تبلیغ عملاً ہوتی ہے، پہلی والی تو آپ نے سن لی دوسری تبلیغ آپ کے عمل سے ظاہر ہوتی ہے، آپ ایسے مسلمان ہیں جس کا ہر عمل دوسرے کیلئے INSPIRATION ہو، آپ کچھ نہ بھی کہیں اور لوگ آپ کے عمل سے بہت کچھ سیکھ جائیں۔ ہم بھول گئے ہیں اس محنت اور ریاضت کو جو ہمارے نبی سے، ہمارے صحابہ اور ہمارے علماء نے ہمارے لیے کی اور کرتے آرہے ہیں۔ ہمارے ذہن میں اگر دین کا کوئی نقشہ ہے تو وہ  دقیانوسی، گلے میں مالائیں ڈالے جنگلوں میں خدا کو ڈھونڈ تے جوگیوں کا ہے۔ "(صفحہ 277)

نور العین ‘تلاش’ کا سفر جاری رکھتے ہوئے خواتین کے لئے کام کرتی ہے، کتاب کے آخر میں نور العین کی شادی حمدان سے ہوتی ہے۔ کتاب کا اہم کردار حمدان کا ہے۔ حمدان ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوتا ہے لیکن اس کی ماں کا انتقال ہو جاتا ہے۔ باپ دوسری شادی کرتا ہے، حمدان کو بوڈننگ اسکول میں داخل کیا جاتا ہے۔ سوتیلی ماں کے سوتیلے سلوک اور باپ کی کم دلچسپی کی وجہ سے وہ دھیرے دھیرے اللہ ہی سے بیزار ہونے لگتا ہے اور بالآخر دہریہ ہو جاتا ہے، حمدان کا ایڈمیشن ایم بی بی ایس میں ہو جاتا ہے۔ بوڈننگ اسکول میں ہی اس کی دوستی حمزہ سے ہو جاتی ہے۔ یہ سلجا ہوا لڑکا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں حمدان کو کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دیتا ہے، سچی اور بے غرض دوستی یسی  ہوتی ہے؛ اس کا نقشہ نہایت ہی خوبصورتی سے کھنچا گیا ہے۔ اسی دوران اس کی زندگی میں ایک خوبصورت اور سلیقہ مند مگر دین بیزار لڑکی علیزے سے ملاقات ہوتی ہے۔ دونوں کے درمیان محبت ہو جاتا ہے، کہانی کو attractive بنانے کے لیے محبت کی کہانی بھی کتاب میں دکھائی گئ ہے۔ اس دوران ایک دن گاڑی چلاتے چلاتے اس کے گاڑی کے سامنے ایک درویش شخص آجاتا ہے جو حمدان کو کہتا ہے:

 تو تو خود سے نہیں آشنا، تیری ذات تجھ پہ ہی راز ہے

تیرے قلب میں ہے چھپا ہوا، تیری روح کو جس کی تلاش ہے

 اگر اس شعر کے لفظوں پر غور کیا جائے تو یہ ایک واضح اشارہ ہے، یہ وہی چیز ہے جو اس کو اس مسجد کے سکون میں محسوس ہوتی تھی، یوں لگتا تھا جیسے کوئی ہے اس کے ساتھ اس کے دل میں مگر وہ اس سے ابھی مکمل آشنا نہیں ہوا تھا، اس کے دل میں وہی تھا جو سب کے دلوں میں موجود ہوتا ہے، وہ ہمارے ہر سوال کا جواب اندر سے دیتا ہے، ہمارے دل کو اندر سے سکون پہنچاتا ہے، ہمیں مشکل میں راستہ دکھاتا ہے اور وہ ” اللہ ” ہوتا ہے، ہر قلب میں بسنے والا، ہر دکھ کو جاننے والا، ہر بات کو سمجھنے والا اور سب سے قریب رہنےوالا۔ ” (صفحہ 298) کتاب میں اس درویش کی خوبصورت عکس بندی کی گئی ہے۔ ایک دن وہ حمدان کو ملک کی پسماندگی کی وجہ بتاتے ہو کہتا ہے:” ہمارے ذہن میں ہے کہ باہر جا کر پڑھناہی اچھے مستقبل کے لیے ضروری ہے، یہاں تک بات تو ٹھیک ہے مگر پھر جب ہم لوگ باہر سے پڑھ کر آتے ہیں تو اپنا ملک ہمیں برا لگنے لگتا ہے، ہم اپنے ملک میں خود ہی ہزاروں عیب نکالنے لگ جاتے ہیں اور آخر میں ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اب باہر ہی جا کر جاب کریں، یوں ملک کے نوجوان ملک کو ترقی دینے کے بجائے اس میں نقص نکال کر غیر ملکوں میں چلے جاتے ہیں، اپنا دماغ اپنا وقت اور اپنی محنت اپنے ملک کے لوگوں پر صرف کرنے کے بجائے باہر کے لوگوں پر کرتے ہیں ان کے ملک کو ترقی دیتے ہیں؟ بیٹا! عیب نکالنا آسان ہوتا ہے ملک کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانا مشکل میں یہ نہیں کہتا کہ باہر نہ جاؤ بیشک جاؤ مگر جو حاصل کرو اسے چند رپوں کی زیادتی کے لیے دوسرے ممالک میں نہ لگاؤ بلکہ اپنے ملک پر لگاؤ شاید کہ تم جیسے نو جوانوں سے یہ ملک تبدیل ہو جائے اور ترقی کرنے لگے شاید پھر نوجوانوں کو باہر جانے کی بھی ضرورت نہ پڑے یہ جو لفظ "باہر ہے نا یہ بالکل اپنا سا نہیں لگتا وہ خاموش ہو گئے، ان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیر رہی تھی۔ ” (صفحہ 354)

ایک موقعے پر حمدان کو بتاتا ہے: "دیکھو بیٹا رب کا سفر جتنا مشکل ہے اتنا ہی خوبصورت بھی ہے۔ ” (صفحہ 248)

 اس بندے کا اچانک سامنے آنا پھر یہ بات کہنا حمدان کو جھنجھوڑتا ہے، اس کے بعد پے درپے کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ حمدان دین اسلام کو جاننے کی کوشش کرتا ہے اس سلسلے میں وہ پروفیسر ادریس کے ماہانہ کلاس لینا شروع کرتا ہے، پروفیسر قرآن اور سائنس پر تقریر کرتا رہتا ہے ابتدا میں حمدان کو لگتا ہے کہ پروفیسر سائنس کی توہین کرتا ہے لیکن پروفیسر ادریس کے رویہ سے وہ متاثر ہو جاتا ہے اور خود بھی اسلام کی کتابیں چپکے چپکے پڑھنا شروع کرتا ہے۔ یہاں مصنف نے سائنس اور قرآن کی دلچسپ تفصیلی بحث کی ہے جس کو پڑھ کر معلومات میں اضافہ ہو جاتا ہے؛ ایک جگہ لکھتے ہیں: "بیٹا! قرآن واقعی کوئی سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر  موت تک کے تمام مسائل، رہن سہن کا طریقہ، معاشرت ومعاملات، قانون، عدالت انصاف، سچائی، ایمانداری، خلوص، حسن اخلاق، ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی اور رہنے کے قاعدے قوانین بتاتی ہے۔ یہ کتاب ہمیں  عذاب آخرت اور اچھے لوگوں کے لیے جنت کی خوش خبری اور پچھلی قوموں کے واقعات عبرت حاصل کرنے کے  لیے سمجھاتی ہے۔ قرآن ریسرچ کی کتاب نہیں ہے لیکن اللہ نے ان سب کے درمیان انسانوں کواپنے وجودکا یقین  دلانے کے لیے ایسے کئی حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں یہ جھوٹ یا مذاق نہیں ہے اور نہ ہی سائنس کی کتاب بلکہ یہ ایک خدا کا ہم انسانوں سے کلام ہے انہوں نے آسان سے آسان الفاظ اس کو سمجھانے کے لیے چنے تھے۔ پھر سائنس ریسرچ کیوں کرتی ہے ؟ اسی میں سے کیوں نہیں دیکھ لیتی؟ وہ طنز نہیں کرنا چاہتا تھا مگر وہ رہ نہیں سکا۔ "(صفحہ  194) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: "انہی منکر سائنسدانوں میں سے ISAAC NEWTON کا یہ اعتراف سنیے ذرا:

”سورج، سیاروں اور ستاروں کا یہ خوبصورت نظام صرف ایک ایسی ذات کی سلطنت سے ممکن ہے جو بہت دانا اور بہت قدرت والی ہو۔ یہی ذات تمام چیزوں پر حکومت کرتی ہے، دنیا کے اندر اس کی روح کی طرح نہیں بلکہ ایک حاکم اور بادشاہ کی طرح۔ اسی کو رب اور خدا کا نام زیبا ہے، وہی کائنات کا بادشاہ ہے۔۔ سترہویں صدی کا یہ سائنسدان اس جدید دور کے ڈارون زدہ سائنسدانوں سے علم و دانش اور تحقیق میں  کہیں زیادہ ہے، اس کائنات کو ابدی اور نیچر پروڈکشن کا نام دینے والے سائنسدان خود آج اعتراف پر مجبور ہیں۔ "(صفحہ  188)

کتابیں پڑھ کر حمدان پروفیسر ادریس کو سوال کرتا ہے کہ آخر قرآن میں ڈرایا اور دھمکایا کیوں گیا ہے؟ پروفیسر صاحب جواب دیتے ہیں :”في جنات تجري من تحتها لانهار یعنی ایسے باغ جس کے نیچے بہتی ہیں نہریں، اس میں داخل کیے جائیں گے ایمان والے، کون ہیں یہ ایمان والے؟ وہ جو یقین لائے، جنہوں نے بن دیکھے یقین کیا ہماری ذات پر، وہ جو گناہوں سے بچے جو پیغمبروں نے کہا اس پر عمل کیا وہ جو تقوی والے ہیں۔ تقویٰ کا معنی سمجھتے ہیں آپ؟ اس سے مراد ہے پر ہیز گاری گناہوں سے دور بھا گنا، اپنے اندر سادگی پیدا کرنا ہے، اگر مال زیادہ ہے تب بھی تقوی سے چلنا، اگر مال کم ہے جب بھی تقویٰ کا راستہ اختیار کرنا، اگر ارد گرد گناہ کا ماحول ہے تب تقوی اختیار کرنا جس کا تقاضہ یہ ہے کہ ان گناہوں سے دور رہ کر خود کی درستگی کی جائے، اپنے نفس پر کام کیا جائے۔ یہ لفظ ہے تو ایک لیکن اس کی وسیع تشریح ہے۔ ایمان کی بنیاد تقویٰ پر ہے، اگر یہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے سب سے پہلے عقل سے سمجھایا، پھر ایمان والوں کو خوشخبری دی، پھر جنت کا تذکرہ کیا، آخر میں اس سب کو سننے سمجھنے اور دیکھنے کے بعد ایمان نہ لانے والوں کو ڈرایا ہے۔ جس طرح ماں باپ سب سے پہلے پیارے سمجھاتے ہیں ہر پیار والا حربہ آزماتے ہیں اور آخر میں مار یا ڈانٹ سے ڈراتے ہیں بالکل ویسے! کچھ بچوں کا نیچر اچھا ہوتا ہے انہیں زیادہ سمجھانا نہیں پڑتا، ڈانٹ یا مار کی نوبت نہیں آتی اور کچھ کو ڈرانا دھمکانا پڑتا ہے، تو بس دنیا کی تکلیفیں وہی چھوٹی ڈانٹ اور مار ہے ان لوگوں کے لیے جو راستے سے بھٹکنے لگ جاتے ہیں اور دائمی عذاب صرف ان انسانوں کے لیے ہے جو پوری زندگی سمجھانے مارنے ڈانٹنے کے باوجود بھی نہیں سمجھتے اور آخر تک شرمندگی اور ندامت ان میں نظر نہیں آتی!

اللہ نے ڈائریکٹ مار کا آپشن نہیں دیا ہے، اس سے پہلے کئی اور طریقے بتائے ہیں، زندگی میں بھی اللہ ہر کچھ عرصے بعد انسان کے سامنے اپنی نشانیاں لاتا ہے، اپنی حقیقت بتلاتا رہتا ہے، اس کی اوقات دکھاتا رہتا ہے تا کہ اسے ہر دم خیال رہے کہ ہاں ایک ذات ہے اوپر جو مجھے دیکھ رہی ہے میں جو کر رہا ہوں اسے جانتی ہے، مجھ سے سوال کرے گی۔ اگر آپ قرآن میں موجود اللہ کی نشانیوں اور پیار سے سمجھانے والی آیتوں سے سمجھ رہے ہیں تو مار ڈانٹ اور دائمی عذاب کی آیتیں آپ کے لیے نہیں ہیں وہ دوسری نیچر کے انسانوں کے لیے ہیں، سمجھ آگئی ! وہ اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہوگئے۔ "(صفحہ 242)

اس دوران حمدان کا باپ بیمار ہونے لگتا ہے اور وہ حمدان کو اپنے پاس بلاتا ہے آہستہ آہستہ حمدان کا دل نرم ہونے لگتا ہے۔ اسی دوران اچانک حمدان کے والد کو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے حمدان فورا ہسپتال پہنچ جاتا ہے اور باپ کی تیمارداری کرتا ہے۔ یہ جان کر حمدان کو حیرت ہوتی ہے کہ جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سوتیلے بھائیوں نے اس کے باپ کو غلط دوائی کھلائی اصل میں وہ ساری پراپرٹی ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔ امتحان سے چند روز قبل ان کے والد کا انتقال ہوتا ہے، حمدان واپس فائنل امتحان دینے اسلام آباد آجاتا ہے۔ اس دوران وہ خدا کی طرف سفر جاری رکھتا ہے۔ اس تلاش میں اس کی ہونے والی بیوی علیزے اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے لیکن پروفیسر ادریس کے ذریعہ انہیں نور العین ملتی ہے, کتاب میں ایک سلجی ہوئی لڑکی پریشے کا کردار بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ پریشے زماں حاکم علی کی پوتی ہے کرم علی گاوں میں نہ صرف ظلم و جبر سے لوگوں کی زمینیں ہڑپ کرتا ہے بلکہ لوگوں کی زندگیاں اس نے اجیرن بنا دی ہے، اپنے ظلم کے تکمیل کے لئے وہ کئی لوگوں کا قتل کرتا ہے۔ ایک خاندان کے قتل کے سلسلے میں گاؤں کا ایک شخص شاہ ویز دس سال تک حاکم علی کے خلاف ثبوت اکھٹا کرتا ہے،لیکن شاہ ویز کے دوست کی بے وفائی سے یہ بات کرم علی کو پتہ چلتی ہے، جس رات شاہ ویز قتل ہوتا ہے اس رات وہ یہ ثبوت حاکم علی کی پوتی پریشے کو دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب تمہیں اس ظلم کے خلاف لڑنا ہے، کسی طرح کرم علی کو یہ بات معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی پوتی کے پیچھے لگتا ہے لہذا پریشے زماں کو اس کے والد کے گاؤں سے بگاتے ہے، ان کے والد چپکے چپکے ان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن جب کرم علی کو یہ معلوم ہوتا ہے تو وہ زماں کو ہی مرواتا ہے لیکن پریشے اپنا کام جاری رکھتی ہے اور ملک کے سب سے قابل وکیل کو ہائر کرتی ہے، اس دوران وہ ہر طرح تیاری جاری رکھتی ہے اور بالکل پروفشنل طریقے سے اپنے دادا کو سزا دلواتی ہے۔ پریشے کا مقصد تھا لوگوں کو انصاف دلانا۔ وہ اس میں کامیاب ہوتی ہے اگرچہ بعد میں اس کو اپنی جان بھی دینی پڑتی ہے، پریشے کی حق کی تلاش نہایت ہی خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔

بعض جگہوں پر کتاب میں غیر ضروری طوالت محسوس ہوتی ہے لیکن کتاب پڑھکر قاری کو بہت سی معلومات ملتی ہے۔ کتاب میں مختلف کتابوں، مختلف چیزوں اور بعض جگہوں کے بارے میں مختصر مگر اہم معلومات ہیں۔ کتاب کی طباعت بہت ہی اعلی ہے۔ بردار محمد گوھر اقبال باذوق شخص ہے۔ انہوں نے کتاب کا سرورق نہات ہی خوبصورتی سے بنایا ہے۔ کتاب کی قیمت 400 روپے مناسب ہے۔ امید ہے یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ کتاب الف پبلشرز دہلی سے فون نمبر 9718648338 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

مبصر سے رابطہ: 9906653927

تبصرے بند ہیں۔