تلخیِ زیست سے ڈر جائوں میں

افتخار راغبؔ

تلخیِ زیست سے ڈر جائوں میں

اِس سے بہتر ہے کہ مر جائوں میں

خاک چھانوں میں کسی صحرا کی

یا سمندر میں اُتر جائوں میں

ایسے چوراہے پہ لائی ہے حیات

کشمکش میں ہوں کدھر جائوں میں

کیا کروں میں کہ یہ دل بس میں رہے

جب بھی اُس شوخ کے گھر جائوں میں

تیری یادوں کی گزر گاہوں سے

کیسے چپ چاپ گزر جائوں میں

کل سنور جائے مقدّر شاید

کوئی دن اور ٹھہر جائوں میں

کم سے کم سامنے اُن کے راغبؔ

پونچھ کر دیدئہ تر جائوں میں

تبصرے بند ہیں۔