تلنگانہ میں مجوزہ عالمی اردو کانفرنس تجاویز اور عملی اقدامات

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

ریاست تلنگانہ میں عالمی تلگو کانفرنس کے کامیاب انعقاد کے پس منظر میں نائب وزیر اعلیٰ جناب محمود علی صاحب نے کہا کہ اسی پیمانے پر ریاست میں بہت جلد عالمی اردو کانفرنس منعقدہوگی اس کے لئے انہوں نے اہل اردو کو پیشرفت کرنے اور تجاویز کا مشورہ دیا ہے۔ تلگو کانفرنس کے انعقاد سے بہت پہلے سے ہی جناب محمد محمود علی صاحب اردو کے اکثر جلسوں اور سمیناروں میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ریاست میں عالمی اردو کانفرنس شاندار پیمانے پر منعقد ہوگی۔تشکیل تلنگانہ کے بعد مثالی ریاست تلنگانہ کو سنہرے تلنگانہ میں بدلنے کی خاطر تلنگانہ کے وزیر اعلی اور تشکیل تلنگانہ کے اہم محرک جناب کے چندر شیکھر رائو نے مثالی حکمرانی کی کئی مثالیں پیش کی ہیں اور ہندو مسلم سکھ عیسائی تہواروں کے موقع پر حکومت کی جانب سے مختلف مراعات کی پیشکشی کے علاوہ انہوں نے ریاست میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا اور اس جانب پہل کرتے ہوئے ریاست کے سرکاری دفاتر میں اردو مترجمین کی66نئی جائدادوں کی تشکیل عمل میں لائی جن پر عنقریب تقررات ہونے والے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہرش وردھن‘اشوک‘ چندر گپت موریا اور اکبر ‘قطب شاہی و آصف جاہی سلاطین وغیرہ ایسے کئی حکمرانوں کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے اپنے دربار سے زبان و ادب کی سرپرستی کی تھی اور اپنے دور میں زبان کی ترقی کے کئی اقدامات کئے۔ یہی وجہہ کے موجودہ حکومت بھی نظام دور حکومت کی بہت سی باتوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے تلگو کے بعد اردو کے فروغ کے لئے عالمی اردوکانفرنس منعقد کرنے کو سبز جھنڈی دکھا دی ہے۔عالمی اردو کانفرنس کیسی ہو اس کی ایک مثال تلگو کانفرنس ہوسکتی ہے ۔تلگو ایک علاقائی زبان ہے لیکن اردو عالمی سطح پر مقبول زبان ہے۔

اردو کی عالمی بستیاں اب یورپ ‘امریکہ ‘افریقہ اور آسٹریلیا تک پھیل چکی ہیں اس لئے اس مجوزہ عالمی اردو کانفرنس کا دائرہ کار بھی عالمی سطح کا ہونا چاہئے۔ اردو کے حوالے سے سب سے اچھی بات ہے کہ اسے تلنگا نہ میں اب سرکاری سرپرستی حاصل ہورہی ہے جس کی عدم سرپرستی کی ماضی میں شکایت رہی ہے۔ اب حکومت بھی اردو اکیڈیمی اور محکمہ اقلیتی بہبود سے کئی اسکیمات کے تحت فروغ اردو کے اقدامات کر رہی ہے۔ اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام اردو شعرا اور ادیبوں کی تخلیقات پر مالی اعانت اسکیم‘ کتابوں پر انعامات‘اردو کے کارنامہ حیات ایوارڈز‘ اردو اداروں کے لئے امداد‘سمیناروں اور ادبی اجلاسوںکے لئے مالی تعاون‘ قومی زبان کی اشاعت‘اردو اکیڈیمی کے زیر اہتمام کتب خانے اور کمپیوٹر سنٹرس چلایا جانا اور دیگر اسکیمات شامل ہیں۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے زیر اہتمام تشکیل تلنگانہ کی تاسیس کے موقع پر اردو تہذیبی پروگراموں کا انعقاد بھی حکومت کی اردو سرپرستی کے ضمن میں شمار کیا جاتا ہے۔

عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد سے قبل ایک تفصیلی لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ریاست میں فروغ اردو کا جو کام ہورہا ہے اس کے ٹھوس نتائج عالمی سطح پر بھی مرتب ہوں۔ تلگو کانفرنس کے لئے حکومت نے ذائد از پچاس کروڑ روپئے منظور کئے اور اب اردو کی عالمی کانفرنس کے انعقاد کے لئے حکومت تلنگانہ دس سے پندرہ کروڑ روپئے منظور کرنے تیار ہے۔ اردو کے فروغ کے لئے یہ خطیر رقم ہے جس کا منصوبہ بند سے طریقے سے استعمال فروغ اردو کا ضامن ہوسکتا ہے۔ پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایک ہفتے کی عالمی اردو کانفرنس کے نام پر 15کروڑ روپئے خرچ کرنا ضروری ہے جب کہ اردو کے فروغ کے طویل مدتی ٹھوس اقدامات یا اسکیمات بھی چلائی جاسکتی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کارپوریٹ زمانہ ہے ہر کام میں دکھاوا اور ہنگامہ خیزی زیادہ ہے تب ہی کہیں جا کر کسی کام کا چرچا ہوتا ہے اس لحاظ سے اس عالمی اردو کانفرنس کا دھوم دھام سے منانا چاہئے۔

کانفرنس کے اصل میزبان کون ہوں گے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت تلنگانہ محکمہ اقلیتی بہبود ار اردو اکیڈیمی کے ذریعے اس عالمی اردو کانفرنس کی میزبانی کرے گی۔ حکومت کے مشیران اقلیتی بہبود ایک فعال اور غیر جانبدار اور اردو کی ہمدرد انتظامی کمیٹی تشکیل دے جس میں ماہرین اردو ادب اساتذہ‘صحافی‘دانشور اور سرکاری افسران ہوں۔ اس انتظامی کمیٹی کی پہلی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ حکومت کے سامنے اس عالمی اردو کانفرنس کا ایجنڈہ رکھے کہ کانفرنس کب ہوگی۔ کتنے دن کی ہوگی اور اس میں اردو زبان و تہذیب کو اجاگر کرتے کون کونسے پروگرام ہوں گے۔ عالمی اردو کانفرنس کے اعلان سے انعقاد کے لئے تین سے چار ماہ درکار ہوں گے۔ اگر جنوری میں بھی اس کانفرنس کا اعلا ن کیا جائے تو اس کانفرنس کے لئے موزوں وقت ماہ اپریل یا ماہ مئی میں رمضان سے قبل کا وقت مناسب ہوگا۔ یونیورسٹی اور کالجس کو تعطیلات شروع ہوجائی گی اور دن میں آڈیٹوریمس اور شام میں ٹھنڈی ہوا میں کھلے میدانوں میں اردو پروگرامس کامیابی کے ساتھ منعقد ہوسکتے ہیں۔ کانفرنس کے بلیو پرنٹ میں پروگراموں کی نوعیت سب سے اہم ہوگی۔

عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اردو کے شاندار ماضی کا احیاء‘اردو زبا ن و ادب کی موجودہ صورتحال اور اردو کو درپیش قومی و عالمی مسائل سے واقفیت ہیں۔ چنانچہ کانفرس میں ایک سہ روزہ عالمی سمینار منعقد ہو جس میں اردو شعر و ادب کے ماضی اور حال پر مفصل گفتگو ہو اردو شاعری ‘اردو غزل‘ اردو فکشن ناول اور افسانہ‘اردو تحقیق و تنقید‘اردو صحافت‘اردو زبان اور رسم الخط کے مسائل اور اردو اور ٹیکنالوجی اور اردو زبان کے عالمی زبانوں اور ادب پر اثرات کا احاطہ کیا جائے۔ اردو کی شعری و نثری اصناف میں نئے تجربات اور امکانات پر بات ہو۔ اردو صرف شعر و ادب کی زبان نہیں ہے بلکہ اردو ایک علمی زبان بھی ہے اردو میں روایتی اور فنی علوم کی تعلیم کے مسائل اجاگر کرنے کے لئے ایک مکمل سیشن ہو جس میں جامعہ عثمانیہ کے اردو میں فنی علوم کی تعلیم کے تجربات کی روشنی میں موجودہ دور میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی اور آندھرا پردیش کی اردو یونیورسٹی کے کردار اور مستقبل کے طریقہ کار پر تکنیکی انداز میں بات ہو۔اردو میں نصابی کتب کی تیاری پر بات ہو جس کے لئے ترجمہ نگاری کی اہمیت اور عصری تقاضوںکو ہم آہنگ کرتی اردو اصطلاح سازی کی ضرورت پر بات ہو۔چونکہ یہ عالمی اردو کانفرنس ہے اس لئے ایک سیشن میں اردو کی عالمی بستیوں برطانیہ امریکہ کناڈا خلیجی ممالک اور دیگر ممالک میں اردو کی صورتحال اور وہاں اردو کے فروغ کے امکانات اور مسائل پر گفتگو ہو۔

عالمی سمینار کے لئے برطانیہ امریکہ کناڈا خلیجی ممالک سے اردو شعر و ادب کے ماہرین کا با اتفاق رائے انتخاب ہو اور انہیں بروقت اس عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعو کیا جائے۔ اور قومی و مقامی سطح پر موضوع کے ماہرین سے پیشہ وارانہ انداز میں مقالے لکھوائے جائیں اور انہیں منظم انداز میں پیش کرتے ہوئے بعد میں سوونیر کی شکل میں پیش کیا جائے تاکہ سمینار کے مباحث سے عملی نتائج کا حصول ممکن ہو۔ اس کانفرنس میں سہ روزہ سمینار کے علاوہ ہر دن مختلف موضوعات پر الگ الگ پروگرام ہوں۔ جس طرح دہلی میں جشن ریختہ مقبول ہورہا ہے جس میں ایک نمائش کی شکل میں بڑے میدان میں پروگرام رکھے جارہے ہیں اسی طرح تلنگانہ کی یہ عالمی اردو کانفرنس میں حیدرآباد میں نظام کالج کے میدان میں مرکزی مقام کے طور پر رکھی جائے اور مختلف آڈیٹوریمس میں الگ الگ پروگراموں کی شکل میں منعقد کی جائے۔

 کانفرنس کے موقع پر شاعر سے ملئے پروگرام۔ اردو کے مختلف موضوعات پر عوامی مباحث‘ بیت بازی‘ نظم خوانی‘ اور محفل لطیفہ گوئی پروگرام منعقد ہوں۔ سہ روزہ سمینار کے طرز پر سنجیدہ اور مزاحیہ عالمی مشاعرے منعقد ہوں۔ شام افسانہ‘ داستان گوئی کی محفل ’ڈرامہ کی پیشکشی‘ تمثیلی مشاعرے کی پیشکشی اور انشائیے پیش کرنے کی محفل منعقد ہو۔ محفل خواتین‘ بچوں اور نوجوانوں کے اجلاس ‘ موضوعاتی مقابلے‘ جیسے تصویر پر شعر‘ اردو خطاطی کے علاوہ اردو کی قدیم اور جدید کتابوں کی نمائش منعقد ہو۔ اردو کے تمام پبلشروںکو مدعو کیا جائے اور لوگوں کو کتابوں کی خریداری کی ترغیب دلائی جائے۔ اردو کے شاندار ماضی کو اجاگر کرتے ویڈیو پروگرام پیش کئے جائیں اور اردو کے مستقبل کو لاحق مسائل جیسے اردو کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کے عملی اقدامات اور اردو رسم الخط کے تحفظ کے مسائل پر بات ہو۔عالمی اردو کانفرنس کے لئے ایک معلوماتی مجلہ جاری کیا جائے جس کے لئے عالمی سطح پر مختلف موضوعات پر مضامین لکھوائے جائیں۔

کانفرنس کے سبھی پروگراموں کو براہ راست ٹیلی ویژن‘یوٹیوب اور فیس بک پر پیش کیا جائے۔اردو کے محسنین جیسے راموجی رائو ای ٹی وی اردو‘ سنجیو سراف ریختہ ڈاٹ کام اور ہندوستان اور عالمی سطح کے اردو اداروں کے سربراہان نامور شعرا ادیبوں صحافیوں کو مدعو کیا جائے۔ عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر اردو کی بقید حیات اہم شخصیات کو تہنیت پیش کی جائے۔ اور اس کانفرنس کے اہم تحفہ کے طور پر غیر اردو دانوں کو اردو سکھانے کے ایک پائلٹ پروگرام کا آغاز کیا جائے جس میں آڈیو ویڈیو کی مدد سے اردو حروف تہجی کو سیکھنے اور اردو کے الفاظ کو ادا کرنے کی عملی مشق ہو اور ایک ایسی کتاب کو پیش کیا جائے جس میں انگریزی کی مدد سے اردو سیکھنے کی ترغیب ہو۔

اردو کو درپیش سب سے اہم مسئلہ اردو رسم الخط کا تحفظ ہے اور فی زمانہ انگریزی میڈیم تعلیم کی روش سے اردو مادری زبان بولنے والے گھرانوں کے بچے اردو رسم الخط سے عدم واقفیت کے سبب اردو سے دور ہوتے جارہے ہیں ایسے میں پرنٹ و الیکڑانک میڈیا کے وسائل جیسے اخبارات و رسائل کی اہمیت‘ اور ٹینکالوجی میں اردو رسم الخط کے استعمال جیسے فون اور کمپیوٹر میں اردو رسم الخط کے استعمال کا طریقہ سکھانا جس سے ہم سوشل میڈیا فیس بک واٹس اپ ٹویٹر انسٹا گرام میں اردو پیغامات لکھ سکیں اور اردو میں ہی خط و کتاب ہو۔ آج سوشل میڈیا سے اردو رسم الخط جتنا عام ہورہا ہے شائد ہی اس سے قبل ہوا ہوگا عالمی اردو کانفرنس میں اردو رسم الخط کے تحفظ کے لئے ان وسائل کے استعمال پر زور دیا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں اردو کو روزگار سے جوڑنے کے ضمن میں تجاویز بھی اس کانفرنس کا اہم موضوع ہو ۔ جب کہ اردو میڈیم سے پڑھنے والے طلبا اور نوجوانوں کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ اردو سے پڑھنے سے ان کے مستقبل کا کیا ہوگا۔ اردو سے روزگار کے مواقع کی جانب رہبری‘ اردو ان پیج اور ڈی ٹی پی اور اردو گرافکس سے خود روزگاری کے مواقع‘ اردو میں بلاگنگ اور یوٹیوب پروگراموں کے ذریعے کمائی کی رہبری‘ اردو ترجمے کے ذریعے روزگار کے مواقع اور اردو میں الیکٹرانک میڈیا میںمواقع جیسے اہم امور ہیں۔

اردو کو سرکاری کام کاج میں استعمال کی راہ میں رکاوٹیں اور انہیں دور کرنے کے لئے تجاویز اور مستقبل کے امکانات کی رہبری شامل ہے۔ مجوزہ عالمی اردو کانفرنس میں عالمی سطح کے مندوبین کے علاوہ ہندوستان بھر سے اور خاص طور سے حیدرآباد اور اضلاع سے اردو کے سبھی نامور شعرا ادیبوں صحافیوں اساتذہ اور طلباء کو شرکت کے یکساں مواقع ملیں۔ جو کچھ روپیہ منظور ہو اس میں انتظامی امور میں کم خرچ ہو اور اردو کے فروغ کی ٹھوس اسکیمات پر زیادہ خرچ ہو۔ جب کوئی کام شروع کیا جائے تو تنقیدی اور تجاویز تو سامنے آئیں گی جنہیں خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے اور اس کانفرنس کو مثالی عالمی کانفرنس بنایا جائے۔اس کے لئے مختلف زمروں کے ماہرین کی نشاندہی ہو اور ان سے صلاحیت کے اعتبار سے کام لیا جائے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اردو اکیڈیمی اور محکمہ اقلیتی بہبود چیف منسٹر جناب کے سی آر صاحب اور ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی صاحب سے فوری ملاقات کرتے ہوئے اس عالمی اردو کانفرنس کی منظوری حاصل کرلیں اور رائے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے اسے ایک کامیاب عالمی اردو کانفرنس بنائی تاکہ فروغ اردو کی شمع کی ضیاء پاش کرنیں عالمی سطح پر اردو کی شمع کو منور کرسکے۔

تبصرے بند ہیں۔