تمہارا دل ظفر چھوٹا بہت ہے

ظفر شیر شاہ آبادی

اگر چہ راستا ٹیڑھا بہت ہے
” محبت کا سفر اچھا بہت ہے ”
مصائب سے بھرا پُر پیچ رستہ
نشانِ رہ گزر دھندلا بہت ہے
اگر چہ آند ھیا ں ہیں زور آور
ہما را عز م بھی پختہ بہت ہے
بلا کا حسن ہے اس مہ جبیں میں
گلی کوچے میں یہ چر چا بہت ہے
ہر اک شے قیمتی ہے اس جہاں میں
مگر پھر خون کیوں سستا بہت ہے
تڑپتا چھوڑ کر اک شخص مجھ کو
جناں کے باغ میں ہنستا بہت ہے
تجھے ہر مو ڑ پر مفقو د پا یا
تر ا ہم را ز یہ تنہا بہت ہے
کرے ہے حق بیانی کیوں ہمیشہ
اسی عادت سے تو رسوا بہت ہے
وہ دن کچھ اور تھے جب نام ور تھے
ہمارا حا ل اب خستہ بہت ہے
ذرا سی با ت پہ ر و نے لگو ہو
تمہارا دل ظفرؔ ! چھوٹا بہت ہے

تبصرے بند ہیں۔