تنِ حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ!

سید شجاعت حسینی

دلوں کو تڑپانے والی رقت انگیز اپیلوں کے ساتھ ہی تمام مصلیوں نے ثواب جاریہ کے بہتے چشمہ سے تا قیامت سیراب ہونے کی نیت کے ساتھ  بآواز  بلند اپنی  اعانتوں کا اعلان فرمایا۔ مطالبہ بھی یہ ہورہا تھا کہ اصحاب خیر اپنی دریا دلی کا اظہار اونچی آواز میں فرمائیں۔ادھر منبر سے ” فاستبقو الخیرات ” کے حوالے سے،مسابقت کی پراشک اپیل   پرکئی آنکھیں نم ہوئی جارہی تھیں۔ دوستوں نے اپنی جیبوں کو انڈیل دیا، بہنوں نے گہنوں کے نذرانے دیے اور یوں ہماری مسجد  مکمل ائر کنڈیشنڈ ہوگئی۔

ہر چند سال بعد قالین،  جدید ماربل اور گرینائٹ سے مساجد کی  تزئین نو اور اے سی کی تنصیب، شہری علاقوں کی مساجد کمیٹیوں کا نیا مشغلہ بنتا جارہا ہے۔ ہماری ناقص عقل یہ نہیں سمجھ پائی کہ جس قوم میں صحت، صفائی اور تعلیم کا معیار ملکی  اوسط سے کہیں کم ہے اور جہاں مختلف میدانوں میں صلاحیتوں  کا بدترین بحران اور قحط برپا ہے، کیا مساجد کی اضافی تزئین و آرائش اور ائرکنڈیشننگ  واقعی ثواب جاریہ کہلائے گا؟  ( واضح رہے کہ حسب ضرورت  تعمیر مساجد اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ایک اہم ترجیح ہے جو  یہاں زیربحث نہیں )

نبوی ماڈل

دیگر مباحث سے پہلے یہ نکتہ  زیادہ اہم ہے کہ دنیا کے ہر مبلغ  سے زیادہ تکریم کے لائق میرے نبی ﷺکا اُسوہ  اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟

مدینہ ہجرت کے بعدترجیحاًسب سے پہلا کام رسول خدا ﷺکی رہ نمائی میں مسجد نبوی کی تعمیر کی صورت میں انجام پایا۔ اس کے بعد انصار نے کچھ مال جمع کیا اور عرض کیا کہ ہم کب تک ایک چھپر کے نیچے نماز ادا کرتے رہیں گے، اسے پختہ کر لیتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا: ’میں اپنے بھائی موسی علیہ السلام کے طرز عمل سے رو گردانی نہیں کرنا چاہتا۔ایسا چھپر کافی ہے۔‘

معلوم ہوا کہ بقدرِ ضرورت تعمیر درست ہی نہیں، ترجیح  ہے لیکن بیجا اسراف،  ڈیکوریشن، آسائش، فضول خرچی، تصنع  اور دکھاوے کے لیے اضافی خرچ  درست نہیں۔ہادئ اعظمؐ کا عملی  اسوہ ایک نہایت  واضح اور پر وقار پیغام ہے۔ یہ کہ ضرورت کے مطابق تعمیر مسجداولین  ترجیح ہونی چاہیے، لیکن تزئین اور اضافی ڈیکوریشن ناپسندیدہ عمل ہےجس  سے بچناضروری ہے۔ ایک موقع پر آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ

ما اساء قوم قط الا زخرفوا مساجدھم (ابن ماجہ )

جب کسی قوم کے اعمال بگڑتے ہیں تو وہ اپنی مسجدوں کو مزین کرتی ہیں۔

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے آپؐ کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا ہے۔

اذازخرفتم مساجدکم وحلیتم مصاحفکم فالدمار علیکم۔ (الاشاعۃ 155، حاکم)

جب تم مساجد کو مزین کرنے لگو اور قرآن کریم کو زرق برق لباس (جزدان) پہنانے لگو تو سمجھ لو کہ قیامت آنے والی ہے۔

ممکن ہے یہ سوال اٹھے کہ بیل بوٹوں کی تزئین اورماربل اور  ائر کنڈیشننگ دو مختلف عمل ہیں۔ لیکن اصل یہ ہے کہ ائر کنڈیشننگ، بیل بوٹوں کی تزئین سے زیادہ قبیح عمل ہے، اس نکتہ پر ہم آگے گفتگو کریں گے۔

فہم اور بیداری

صارفیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب  نے ہمارے فہم وادراک کو بھی دھندلا  دیا ہے۔ نتیجتاً:

تھا جو ناخوب  بتدریج وہی خوب ہوا

اے سی ہندوستان میں سب سے زیادہ تیز ی سے پھیلنے والا صارفی عنصر ہے۔ یہاں اگرچہ دو فیصدآبادی اے سی کا استعمال کرتی ہے  لیکن آبادی کےتناسب کے  لحاظ سے کم و بیش ڈھائی کروڑ لوگ اے سی کے حصاروں میں ہوتے ہیں اور یہ رجحان سالانہ بیس فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اے سی چار دیواروں کے اندرونی ماحول کو ٹھنڈا کرتا ہے  اور بس۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مشین محض  اندرونی ماحول کو ٹھندا نہیں کرتی بلکہ کمروں کی تپش کو کھینچ کر باہر پھینکتی ہے،  اوراصلاً   اطراف کے ایک بڑے رقبے کو گرماتی ہے جس کا ضمنی اثر یہ ہوتا ہے کہ وسیع تر ماحول کے شدید نقصان کی قیمت پر محدود رقبہ ٹھنڈا  ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسےاپنے  گھر کو چمکانے کے لیے خوب صفائی کی اور پورا کوڑا کرکٹ پڑوسی کے آنگن میں انڈیل دیا۔  اگر یہ کام مسجدوں سے رقت انگیز اپیلوں کے سہارے ہو تو  پھر ہمارے اجتماعی شعور کا جائزہ ضروری ہوجاتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک عام حیلہ یہ سامنے آتا ہے کہ ہمارے مکان تو اے سی، قالین اور دیگر لوازمات سے مزین ہوں لیکن خدا کا گھرہی سادگی کا تختۂ مشق کیوں  بنے؟ اس ناقابل فہم استدلال کےضمن میں چند باتیں عرض ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ واضح  رہے کہ مساجد کی سادگی پر اصرار  کسی  کی ذاتی پسند  کے سبب نہیں  بلکہ حضرت خیرالانام ﷺ کی واضح نصیحت، بے شمار احادیث   اور سخت تنبیہ  کی بنیاد پر ہے۔ اگر یہ بات ذہن نشین رہے تو پھر  ذہن میں کسی پھسپھسی حجت کے سر اٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔

دوسری بات یہ کہ ایسی توجیہات ہمارے ذہنی زوال کی علامت ہیں۔ مساجد ہمارے اجتماعی وقار کی علامت و مرکز  ہونی چاہئیں  جہاں سے  اچھے رجحانات کے  چشمے پھوٹیں اور لوگ مثبت افکار و اعمال  یہاں سے سیکھ کر انفرادی سطح پر نافذ کریں۔ یہ نہیں کہ کوئی  اپنے انفرادی کرتوت، تعیش  و آسائشوں کی دنیا کو  مسجد کی چہار دیواری  تک کھینچ لائے  اور شوق سے  اجتماعی بگاڑ کے بیج بوتا پھرے۔

تیسری بات یہ ہے کہ مساجد کی سادگی پر اصرار اس گمان کا سبب نہیں ہونا چاہیے  کہ بیزاری اور لاپروائی کی ترغیب دی جارہی ہے۔ سادگی اور پھوہڑ پن میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ایک سلیقہ مندی اورتہذیب کی علامت ہے اور دوسرا بد سلیقگی اور ناشائستگی کی۔ پھوہڑ پن بھی اتنا ہی قابل ملامت ہے جتنی  تزئین و آرائش۔

اور ایک بات یہ بھی کہ دستیاب سہولیات سے استفادے پر قطعاً اعتراض نہیں،  ہم موسم کی مناسبت  سے ماحول دوست ذرائع کا ضرور استعمال کریں لیکن ہماری عبادت گاہیں سماج کی اکثریت کی معیار زندگی سے مطابقت رکھتی  ہوں، یہ نہیں کہ مٹھی بھر  افراد کی پر تعیش زندگی کے  عکس کو یہاں  زبردستی لادنے  کی کوشش کی جائے۔

حسب ذیل  گراف درجہ حرارت میں اضافے  کے مقابلے  بجلی کی طلب کی کیفیت کوظاہر کرتا ہے۔

(Source: Air Conditioning and Energy Demand in India :Energy Institute at HAAS: Berkely Haas)

چارٹ  بتاتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں  گرمی میں معمولی اضافے  کے مقابلے ہمارے ملک میں توانائی کی طلب میں اضافے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ ظاہر ہے یہ اے سی کی دین ہے۔ عام پنکھوں /  کولر کے مقابلے  اے سی  20 گنا زیادہ توانائی صرف کرتا ہے۔  ملک میں برقی توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ تھرمل پاور ہے جہاں لاکھوں ٹن کوئلہ روزانہ جلا کر بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ کوئلے کے قدرتی عطیے کو ہم جس بے دردی سے صرف کرتے ہیں اس کا نظارہ کسی تھرمل اسٹیشن پر کیا جاسکتا ہے۔جہاں روزانہ سیکڑوں ویگن کوئلہ جلاکر پورے علاقے کو گرمی سے دہکایا جاتا ہے۔ قدرت کے عطا کردہ   ایک محدود ذخیرے کا ایسا اسراف ہماری مستقبل  بینی پر بھی سوال کھڑا کرتا ہے۔  کہیں ہم اپنی معصوم نسلوں کے منھ سے نوالے چھین کر اپنا پیٹ تو نہیں بھررہے ہیں؟ نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی ایک تحقیق کے مطابق اے سی کا چلن غیر معمولی رفتار سے بڑھ رہا ہے اورصدی کے اختتام تک ہماری توانائی کی ضرورتوں میں 83 فیصد اضافہ ہوگا۔

یہی نہیں بلکہ ہم قومی و اجتماعی سطح پر اس عیش کوشی  کا بوجھ سہنے کے متحمل نہیں۔توانائی کے محدود ذرائع ہمیں اجازت  نہیں دیتے کہ ہم بیس گنا زائد بجلی صرف کریں۔ ظاہر ہے  کہ اس صورت میں کسی ایک کی آسائش کئی لوگوں کی مصیبت کی قیمت ہی پر ممکن ہوسکتی ہے۔ ہماری حکومتیں سماجی تفریق کے معاملے میں ظلم کی حد تک بے حس ہیں۔ یہاں مختلف حیلے بہانوں سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب کمزور طبقات،  غیر شہری علاقوں  اور پسماندہ بستیوں کے سر تھوپنے کو بہت بے حسی اور آسانی سے جائز ٹھہرا لیا جاتا ہے۔ نتیجتاً امیر شہر اپنے گھر کی ٹھنڈک کے لیے منٹوں میں  اتنی توانائی کھا جاتا ہے جتنی عام آدمی کا پنکھا پورے   موسم میں خرچ نہیں کرپاتا۔ لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ  اس پنکھے کو بھی سخت گرمی میں چند گھنٹے چلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

اس تناظر میں، کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ خدا کا گھر بھی اس سماجی تفاوت اور   بے حسی کا وسیلہ بنے؟

تھرمل اسٹیشن کی حدت اور آلودگی مزید ماحولیاتی بگاڑ اور تپش کا سبب بنتی ہے اورماحولیاتی بگاڑ زیادہ گرمی اورمزید اے سی کی طلب کا سبب، اور یہ ایک ایسا تسلسل بن جاتا ہے جس کا سرا نظر نہیں آتا۔سی ڈی ڈی (   کولنگ ڈگری ڈیز) کی شرح کے اعتبار سے ہندوستان دنیا میں پہلے مقام پر ہے۔  اس اعتبار سے ہمیں ٹھنڈے ماحول کی یقیناً ضرورت ہے، لیکن یہ  کام جہاں تک ممکن ہو  ماحول دوست ذرائع سے انجام پانا چاہیے۔  اور اس  کی عمدہ اور باوقا رمثالیں ہماری مساجد  کے ذریعے پیش کی جانی چاہئیں، اس لیے کہ ہماری مساجد اسلامی فکر اور ہمارے اجتماعی شعور کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ ہماری کمیٹیوں میں یہ جرأت ہونی چاہیے کہ غیر ضروری  آسائش وآرائش کی پیش کش کو سلیقہ سے رد کرکے  ثواب جاریہ  کے دیگر سر چشموں کی نشاندہی کریں، اور ترغیب  بھی دلائیں۔

وژن اور ترجیحات :

اصل مسئلہ یہ ہے کہ اجتماعی ترجیحات کا فہم، تصورِ انفاق اوراس کی روح کا شعور ہماری صفوں میں دھندلاگیا  ہے۔ ہر  بے جا اپیل  ہماری آنکھوں کو نم کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ نتیجتاً  اس زوال آمادہ دور میں  ایسے ناقابلِ یقین مناظر بھی نظر آتے ہیں۔

چند ماہ قبل ایک مضافاتی علاقے میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا موقعہ ملا۔ یہ ایک مسلم بستی ہے۔ مسجد پہنچنے کے لیے ہر چند فٹ  کے فاصلے پر رکھے پتھروں کی پگڈنڈی  اور کچھ بڑی چٹانوں کے ’جزیروں‘ پر قدم جماکر  بھینسوں اور مرغیوں سے بچتے ہوئےکیچڑ کے دلد ل کو پار کرنا تھا۔مسجد کے سامنے بستی کا اکلوتا کلینک تھا  جو اپنی حالت زار پر رورہا تھا۔ بمشکل تمام جب ہم مسجد میں داخل ہوئے تو ایک شاہانہ فانوس سے مزین وہ پر تکلف ماحول نظر آیا جو  ناداری اور بے بسی  کی ان تصویروں پر خود فریبی کے دبیز پردے ڈالنے کے لیے کافی تھا۔  ہمارا مستقبل جہالت اور ڈائریا کے جراثیم کے بیچ دم توڑے اور قالینوں اور و فانوسوں کے سہارےہم  اجر جاریہ کے چشمے کھودنے میں مگن رہیں، یہ کیسا انفاق، کیسی ترجیحات اور کیسا ویژن  ہے؟

ایک عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ کمیٹیاں عموماً ایسے فارغ البال احباب پر مشتمل ہوتی ہے جو صلاحیتیں ضرور رکھتے ہیں لیکن اپنی صلاحیتوں کے اطلاق کے بے شمار میدان اور ان کی حقیقی ضرورتوں کا ادراک نہیں رکھتے۔ نتیجہ،  ایک مسجد کے قالین اور قمقموں  کو اتارنے چڑھانے میں زندگی بیت جاتی ہے  اور دل بھی بڑا مطمئن رہتا ہے کہ خانہ خدا کی خوب خدمت ہورہی ہے اور آخرت بھی زبردست سنور رہی ہے۔ ایسی ’فعال‘ کمیٹیوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وژن کی درستی ہماری  کتنی اہم اجتماعی ضرورت ہے۔ بورویل کی کھدائی اور مصلوں  کی تعمیر ہی ثواب جاریہ نہیں بلکہ مستقبل ساز دماغوں کو ڈھالنااور  قابل افراد کی تیاری بھی اجر عظیم کا سبب ہے، اس تصور کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

حضر ت عمرفاروق نے اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے افراد سےایک مرتبہ فرمایا:اپنی اپنی آرزوئیں بیان کرو۔ ایک شخص نے کہا: میری تمنا ہے، یہ گھر درہموں سے بھرا ہو اور میں وہ سب اﷲ کی راہ میں دے ڈالوں۔ دوسرے نے کہا: میرا دل چاہتا ہے یہ مکان سونے سے پُر ہو اورمیں سارا سونا اﷲ کی راہ میں لٹا دوں۔ تیسرے نے اپنی یہ آرزو بتائی: یہ حویلی جواہرات سے لب ریز ہو اور میں وہ جواہرات فی سبیل ﷲ انفاق کر دوں۔ سیدنا عمرؓنے پھرکہا: اپنی تمنائیں بتاؤتو اہل مجلس نے کہا: اب ہماری کوئی تمنا نہیں۔ اب سیدنا عمرؓنے خود اپنی آرزو کا اظہار یوں کیا: یہ گھر ابوعبیدہؓ بن جراح،معاذؓ بن جبل اور حذیفہؓ بن یمان جیسے لوگوں سے بھرا ہو اور میں ان کو اطاعتِ الٰہی کی تکمیل کرنے کے لیے عامل مقرر کر دوں۔

ایک وژنری قائد عروج و کامیابی کی راہوں کو یوں ڈھونڈھ نکالتا ہے اور جب وژن ہی دم توڑ دے تو وہ مناظر عام ہوئے جاتے ہیں، جس کی تصویر  عامر عثمانی نے یوں پیش کی۔

کتنی قبروں پہ چڑھتی رہیں چادریں         کتنےلاشےپڑےرہ گئےبےکفن

علامہ اقبال نے پیرس کی نوتعمیر شدہ عالی شان  مسجد کو دیکھ کر بہت درد کے ساتھ فرمایا تھا۔

مری نگاہ کمال و ہنر کو کیا دیکھے

کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ

حرم نہیں ہے فرنگی کرشمہ بازوں نے

تنِ حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ

اقبال  نے  سامراجیت ( امپیریلزم )  کے روپ میں تن حرم میں روح بت خانہ چھپی دیکھی تھی جو آج  صارفیت  کے روپ میں جھلکتی ہے۔

اور اسی صارفیت پر مختار مسعود نے  یوں چوٹ کی: ’زندہ قومیں عمل اور جرأت سے پہچانی جاتی ہیں نہ کہ فرش اور فرنیچر سے۔‘

’اسراف جرم ہے، اور غربت میں اسراف دوہرا جرم!‘

تبصرے بند ہیں۔