قل آمنت بااللہ ثم استقم!

محمد آصف اقبال

 انسان کی ایک بہت بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ ہر چمکنے والی چیز کو سونا سمجھتاہے اسی لیے ایسے اشخاص سے کہا جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کو اس کی حقیقی حیثیت دینے سے پہلے ضرور پرکھ لیں ۔وہیں انسان کی بے شمار کمزوریوں میں شمار کی جانے والی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ تصاویر میں دکھائے جانے والی چیزوں کو حقیقی اور حقیقت جو حددرجہ واضح ہے اسے خیالی تصور کرتا ہے۔وہیں یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آتی ہے کہ جب کوئی بچہ کسی صفحہ پر تصویر بناتا ہے یا تصویر سازجب کینوس کا استعمال کرتا ہے تو دونوں ہی صورتوں میں یہ بچے اور بڑے ایک مرحلہ میں یکساں ہوتے ہیں کہ خالی کینوس یا صفحہ کا استعمال کرتے ہوئے صرف وہی تصویر بناتے ہیں جو ان کے ذہن و خیال میں موجود ہوتی ہے۔اس کے باوجود کہ ہر تصویر بنانے والا بچہ اور بڑا ایک ہی تصویر نہیں بناتا بلکہ مختلف قسم کی تصوایربناکر وہ اپنے ذہن و خیال کو تصویر کی شکل میں زبان فراہم کرتا ہے۔ان تین باتوں میں ایک ہی خیال واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں ضروری نہیں کہ حقیقت میں بھی وہ اپنی اصل میں موجود ہو بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ نظرآنے والی چیز جس پر ہم رائے قائم کر تے ہیں وہ حقیقت میں ہماری نہیں دوسروں کی ہو لیکن چونکہ ہم ایک طے شدہ یا تیار شدہ چیز کو دیکھنے ،سمجھنے اور بیان کرنے کے عادی ہو چکے ہیں لہذا یہ مناسب نہیں کہ ہم خود اس رائے کے قیام کا حصہ بن جائیں جو ہماری نہیں دوسروں کی ہے ۔

یعنی صاف لفظوں میں کہا جائے تو ایسے مواقع پر ہم شعور ذات کو نظر انداز کرتے ہوئے نیزاسے پس پشت ڈالتے ہوئے ان مفروضوں پر رائے قائم کر لیتے ہیں جو بظاہر سامنے ہوتے ہیں اس کے باوجود وہ وہ تصویر کو مکمل طور پر پیش نہیں کرتے بلکہ چند غیر اہم نکات پر ٹھہرے ہوتے ہیں ۔نیز انہیں اتنا بڑا دکھایا جاتا ہے کہ ہم اسے ہی اصل مان کر اپنے فکر و عمل میں تبدیلی لے آتے ہیں ۔ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ ہر صفحہ جو خالی نظر آتا ہے اور کینوس جس پے ابھی تصویر نہیں بنی ہے درحقیقت وہ خالی نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کی منتظر ہیں جو انہیں مختلف رنگوں سے سجانے والے ہیں ۔

ایسے مواقع پر اہم ترین سوال یہ اٹھنا چاہیے کہ دوسروں کی بنائی تصاویر سے ہم کب تک محظوظ و کنفیوژ ہوتے رہیں گے ؟یا فرد واحد یا قوم خود ان خالی صفحات کو اپنے شعور و تصورات کے رنگوں سے کب مزین کریں گے ؟یہاں پہلا سوال اور اس کا جواب آسان ہے لیکن ساتھ ہی حد درجہ خطرناک بھی ہے برخلاف اس کے دوسرے سوال کا جواب مشکل ترین اور صبر آزما ہے لیکن یہ عمل اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ ہم جس تصویر کو بنانا چاہتے ہیں وہ ہم مکمل بھی کرپائیں گے یا نہیں ؟ اس کے باوجود اس عمل میں سکون ہے اطمینان ہے اور ایک مثبت امید ہے کہ ہم محض تماش بین نہیں ہیں بلکہ محنت طلب اور مشتاق ہیں ۔

 وطن عزیز آج کل جن حالات سے دوچار ہے واقعہ یہ ہے کہ وہ حد درجہ بدترین حالات ہیں ۔مسائل میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔کمزور طبقات ظلم و زیادیتاں کا بڑے پیمانہ پر شکار ہو رہے ہیں ۔اِن افراد کو عزت و مقام عطا کرنے کی بجائے سر عام ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے۔ملک و ریاست میں غنڈے لفنگے اور دہشت پھیلانے والے افراد کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔گائوں وقصبوں میں یہاں تک کہ شہروں کے افراد خوف کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ بے گناہ لوگوں کو جھوٹے معاملات میں پھنسا کرپولیس و انتظامیہ کے سامنے کھلے عام قتل کیا جا رہا ہے اور انتہا یہ کہ مجرمین پکڑے تک نہیں جاتے۔نفرت کی آگ جو بہت پہلے سے فروغ دی جا رہی ہے اس کے پھیلائو میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے اور سائبر کرائم کنٹرول کرنے والے ذمہ داران و ادارے کو مجرمین کو گرفت میں نہیں لاتے۔جانوروں سے حد درجہ عقیدت اور انسانوں سے نفرت میں اضافہ سامنے آرہا ہے۔چلتے راہ گیروں اور تجارت سے وابستہ افراد کے ساتھ بدسلوکی کی جا رہی ہے اور انہیں ہلاک کیا جا رہا ہے۔اور ان تمام مسائل کی وجہ ایک ہے کہ لا اینڈ آڈر کو برقرار رکھنا جو ریاست کا ایک اہم ترین کام ہے وہ کمزور پڑ تا جا رہا ہے۔

ان حالات کے علاوہ اگر مسلمانوں کی بات کی جائے تو ملک میں مسلمانوں کا دائرہ دن بہ دن تنگ ہوتا جا رہا ہے۔سیاسی جماعتیں جو مسلمانوں کو بطور ووٹ بینک استعمال کرتی آئی ہیں آج صورتحال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کو صرف اس لیے اٹھانے سے گزیز کرتی ہیں کہ دیگر نظریات کے حاملین اسے فرقہ وارانہ رنگ دیں گے اور وہ ناکام ہوجائیں گے لہذا بہتر یہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل پر بات ہی نہ کی جائے۔مسلمانوں کا تشخص آغاز ہی سے آزاد ہندوستان میں ایک اہم ترین مسئلہ رہا ہے آج یہ تشخص برقرار رہنا مزید دشوار ہوتا جا رہا ہے۔اس تشخص میں سب سے پہلے ان کا خاندانی نظام ہے جس میں ان کا پرسنل لا سب سے اوپر آتا ہے تو وہیں ان کی معاشرتی شناخت بھی ہے جس پر قد غن لگانے کی کوششیں جاری ہیں ۔نیز ان کی وہ باقیات جو انہیں معاشی ومعاشرتی سطح پر مضبوط کرنے میں مدد کرتی ہیں مثلاً وقف شدہ جائدادیں ، انہیں مسخ کرنے اور مٹانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ان بڑے مسائل کے علاوہ بے شمار وہ مسائل ہیں جن سے مسلمان اور اہل ملک ہر دن دوچار ہورہے ہیں اس کے باوجود حل سامنے آنے کی بجائے حالات مزید گنجلک ہوتے جا رہے ہیں ۔

ان حالات میں دو قسم کے افراد ہمیں اپنے اطراف نظر آتے ہیں ۔ایک وہ افراد جو ان مسائل سے واقف ہیں ،اوران کی گہرائی وگیرائی سے بھی واقفیت رکھتے ہیں ساتھ ہی مسائل کے حل کے طلب گار ہیں ۔تودوسرے وہ افراد ہیں جو بدترین حالات میں رہنے کے باوجود مسائل تک سے واقف نہیں ہیں یا مسائل گرچہ ان کے سامنے ہیں اس کے باوجود انہیں نظر انداز کرکے وہ "سکون "کی زندگی گزارنے کے خواہش مندنظر آتے ہیں ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان حالات میں کیا کیا جائے؟حالات سے کیسے نبٹا جائے؟مسائل سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟اور یہ بھی کہ ہمارے کرنے کا کام کیا ہے؟کیا مظاہرے،دھرنے،جلسے جلوس اور ریلیاں ،بیانات،تقاریر اور ااسی قسم کی دیگر سرگرمیوں سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟یا کچھ ٹھوس بنیادوں پر سعی و جہد کا آغاز کیا جانا چاہیے؟لیکن وہ ٹھوس بنیادیں کیا ہوں گی؟

گفتگو کے پس منظر میں دو باتیں واضح ہو چکی ہیں ۔ایک:کینوس جس پے آپ تصویر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں وہ تصویر آپ کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ضرورت ہے کہ آپ تصویر بنانے کے لیے تصورات متجمع کیجئے اور انہیں تصویر کی شکل بخشئے۔دو:مسائل میں ملک ،اہل ملک اور ملت کے افرادمبتلا ہیں اس کے باوجود مسائل کا حل فاسق،جابر اور ظالم نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ آپ کا ساتھ دینا چاہتے ہیں ۔وہیں مشرک ،کافر اور ملحدوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آپ کے مسائل میں آپ کا ساتھ دیں گے یاتکالیف اور پریشانیوں سے وہ آپ کو نجات دلائیں گے ،یہ خیال بھی درست نہیں ہے۔اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم سماج میں موجود مختلف افکار ہائے نظریات کے ماننے والوں سے تعلقات استوار نہ کریں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف افکار ونظریات کے حاملین سے تعلقات استوار رکھیں لیکن یہ تعلقات حقیقی معنوں میں دعوتی نوعیت کے ہونے چاہیں ۔وہیں نظام عدل و انصاف میں ایک دوسرے کا تعاون لینے اور دینے کا معاملہ بھی جاری رکھیں اس کے باوجود اس بات کو کسی بھی لمحہ نظر انداز نہ ہونے دیں کہ یہ بھی ہم ہی جیسے عام انسان ہیں بلکہ دیکھا جائے تو ہم ان سے قدرے بہتر حالت ہیں کیونکہ ہم ایک اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں ۔

لہذا ہر پریشانی و دشواری میں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اور اللہ وہ ہے جو رب العالمین ہے ۔جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان لپٹا ہوا ہے۔جو حد درجہ طاقت ور اور کار ساز ہے۔نیز مسلمانوں کی حیثیت کلمہ طیبہ کی مانند ہے۔اس کلمہ کی برکات میں ایک یہ بھی ہے کہ مومن کسی بھی حال میں گھبراتانہیں ہے۔لہذا اس کا کوئی عمل ضائع نہیں ہوتا ،شرط یہ ہے کہ نیت میں اخلاص ہو۔نیزیہ حدیث بھی ہمہ وقت ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہو، اللہ میرا آقا ہے ، پھر اس پر جم جاؤ(مشکوٰۃ)۔اوراللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے کہ:  یقیناً جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے، پھر اس پر جم گئے، ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے (الاحقاف:13)۔

تبصرے بند ہیں۔