رمضان المبارک میں دعا کی خصوصیات!

ترتیب: عبدالعزیز

ذکراور دعا کا اہتمام پوری زندگی میں ہر وقت ضروری ہے۔ ذکر کیا ہے؟ ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ذکر ہے، خواہ دل سے ہو، یا زبان سے، یا اعضا و جوارح سے۔ روزہ بھی ان معنوں میں ذکر ہے، بھوک پیاس بھی ذکر ہے، اور تلاوت قرآن، خصوصاً نماز میں ، تو ہے ہی ذکر کی بڑی اعلیٰ و ارفع صورت۔ لیکن رمضان المبارک میں زبان سے ذکر ، یعنی کلمات ذکر کا ورد اور دعا کا اہتمام بہت ضروری اور نافع ہے۔ یہ نفل ہے مگر ثواب فرض کا پاتا ہے، اس سے غفلت دور ہوتی ہے، اور توجہ رمضان کی خیروبرکت حاصل کرنے پر مرکوز رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔

رمضان المبارک میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، سُبْحَانَ  اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ، اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ، اَتُوْبُ اِلَیْہِ جیسے کلمات کا ورد کثرت سے کیجئے تاکہ زبان اللہ کی یاد سے تر رہے۔

ذکر کی ایک صورت دعا ہے۔ دعا کی بنیاد یہ ایمان ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ سے ہی مل سکتا ہے، اور سارے اختیارات اور خزانوں کا مالک صرف وہی ہے۔ دعا اپنے سراپا محتاج اور فقیر ہونے کا اقرار ہے۔ ہم اپنے کو صرف اللہ کا محتاج اور فقیر سمجھیں ، یہی عبودیت کی روح ہے، کیونکہ رمضان المبارک کا ہر لمحہ عظیم خیر وبرکت کا حامل ہے اس لئے بار بار اپنے آقا کے آگے ہاتھ پھیلانا چاہئے۔ رمضان میں عام اوقات کے علاوہ قبولیت کے خاص اوقات بھی ہیں ۔ ان میں افطار کاوقت بھی ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوتی ہے۔

اس ضمن میں کوشش کریں کہ پہلے عشرہ میں رحمت کی طلب کثرت سے کریں ، دوسرے عشرہ میں مغفرت کی، اور تیسرے عشرہ میں نار جہنم سے رہائی کی۔ نبی کریم ﷺ نے ان عشروں کی یہ برکات بیان فرمائی ہیں ۔ (بیہقی : سلمان فارسیؓ)

چند اذکار یاد کرکے اپنے نصاب ذکر بنائیں ، اور اس کی پابندی کریں ۔ مختلف اوقات اور حالات کی دعاؤں ، او ر جامع مسنون دعاؤں میں سے بھی ہر رمضان میں چند دعائیں یاد کرلیا کریں ۔

قرآن مجید میں رمضان المبارک کے احکام و فضائل کو بیان کرتے ہوئے درمیان میں دعا کا ذکر ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

وَاِذَ سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَالدَّاعِ اِذَا دَعَانِیْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلَیُؤْمِنُوْ ابِیْ(سورہ بقرہ : 187)

یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں (تو ان سے کہدو کہ) میں ان سے قریب ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو میں سنتا ہوں ، جب وہ مجھے پکارتا ہے، لوگوں کو چاہئے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں ۔

قرآن مجید کا یہ انداز بیان ظاہر کررہا ہے کہ رمضان اور دعا میں انتہائی گہرا ربط پایا جاتا ہے دعا کی مقبولیت کے بیشتر اوقات اس ماہ میں رکھے گئے ہیں ۔

رمضان عبادت کا مقدس، پاکیزہ اور پر بہار موسم ہے۔ اور دعا کے بارے میں ارشاد نبوی ہے۔

اَلـدُّعَـائُ مُــخُّ الْعِبَـادَۃِ (جامع ترمذی)

دعا عبادت کا مغز اور گودا ہے۔

اسی بنا پر روزہ دار کی دعا خصوصاًافطار کے وقت اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔

رمضان اور دعا میں جو گہری مناسبت ہے، اس کی بنا پر دعا کی اہمیت اور آداب و فضائل کو قدرے تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔

دعا کی فضیلت اور اہمیت

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام اور اپنے دوسرے برگزیدہ بندوں کا نمایاں وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور دعا کرتے ہیں فرمایا:

یَدْ عُوْنَنَا رَغَبًا وَرَھَبًا (الانبیاء:90)

وہ ہم کو رغبت اور خوف سے پکارتے ہیں

دعا کا حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے۔

اَدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المومن:60)

مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا

حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اَلدُّعَائُ ھُوَ الْعِبَادَۃِ (مسند ابن احمد)

دعا ہی عبادت ہے

ایک موقع پر آپ نے فرمایا:

اَلدُّعَائُ سِلَاحُ الْمُؤْمِنُ (مستدرک حاکم)

دعا مومن کا ہتھیار ہے۔

اور فرمایا

لیس شیئی اکرم علی اللہ من الدعا (جامع ترمذی)

اللہ تعالیٰ کو دعا سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے

ایک حدیث میں ہے:

مَنْ لَمْ یَسْئَلِ اللّٰہَ یَغْضَبْ عَلَیہِ(مشکوٰۃ)

جو اللہ سے سوال و دعا نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے۔

کسی نے کیا خوب کہاہے۔

لا تسئل بنی ادم حاجۃ

واسئل الذی ابوابہ لا تحجب

اللہ یغضب ان ترکت سؤالہ

وابن ادم حین یسئل یغضب

یعنی انسان کے سامنے اپنی ضروریات کیلئے ہاتھ نہ پھیلاؤ۔ اس سے مانگو جس کے فضل وکرم کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں ۔ اگر بندہ اپنے رب سے مانگنا چھوڑ دے تو وہ ناراض ہوتا ہے لیکن انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جب کوئی اس سے مانگتا ہے تو وہ غضب ناک ہوجاتا ہے۔

رُوحِ دُعـا

دعا کے لطف سے صحیح معنٰی میں انسان اسی وقت آشنا ہوسکتا ہے جب وہ اوپر وہی کیفیت طاری کرلے جسے شاہ ولی اللہ ؒ نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:

’’دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والی ہر قوت و حرکت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھے۔ اور اس کی قدرت و عظمت کے مقابلہ میں اپنے آپ کو اس طرح بے کس اور بے بس سمجھے جس طرح مردہ غسال کے ہاتھوں میں یا بے جان صورتیں حرکت دینے والے کے قبضے میں (مجبور محض) ہوتی ہیں ۔ اور پھر اس کیفیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مناجات اور سر گوشی کی لذت اسے حاصل ہو۔

دعا کے آداب و شرائط

لیکن روح دعا کی یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب قبولیت دعا کے ان شرائط و آداب کو بھی ملحوظ رکھا جائے جو قرآن و سنت میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ۔ اس کی مثال ظاہری و جسمانی علاج کی طرح ہے، بیمار دوا کے ذریعہ شفا یاب اسی وقت ہوسکتا ہے جب ان شرائط و ہدایات کو ملحوظ رکھے جو معالج نے اسے بتائی ہیں ۔ اور ان چیزوں سے پرہیز کرے جن سے بچنے کا اس نے حکم دیا ہے۔ محض دوا کا استعمال ہی کافی نہیں ہے۔ یہی حال اس روحانی علاج کا ہے۔ قرآن و حدیث کی دعائیں باطنی اور ظاہری امراض کیلئے اسی وقت مفید ہوسکتی ہیں جب ان کے اثر کو قبول کرنے کی صلاحیت و استعداد بھی مریض میں موجود ہو اور پرہیز اور احتیاط کے ان تمام تقاضوں کو بھی وہ پورا کرے جو اس راہ میں ناگزیر ہیں ۔

قبولیت دعا کے شرائط

1)اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر ایمانِ کامل ، قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

وَاِذَ سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَالدَّاعِ اِذَا دَعَانِیْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلَیُؤْمِنُوْ ابِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (سورہ بقرہ : ۱۸۷)

اور (اے پیغمبر )جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے دریافت کریں تو ان کو سمجھا دو کہ میں ان کے قریب ہوں، میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے تو چاہئے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں ۔

2) داعی کا دل اخلاص، انابت، حضورِ قلب اور سوزِ یقین سے معمور ہو، قرآن میں ارشاد ہے:

وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ

عبادت کو اسی کیلئے خاص کرتے ہوئے دعا کرو

حدیث میں ہے:

اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کا یقین رکھتے ہوئے اس سے دعا کرو، اور یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ غافل بے پروا دل کی دعا کو شرف قبولیت نہیں بخشتا۔

3) کسبِ حلال کا اہتمام کیا جائے، حرام کمائی کے ساتھ دعا بارگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں ہوتی

حدیث میں ہے:

انسان دور دراز مقام کا سفر کرتا ہے۔ پراگندہ حال غبار آلود صورت میں اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہتا ہے اے رب! اے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، پینا حرام ہے، لباس حرام ہے، اور اس کے گوشت پوست کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہے تو ایسی حالت میں دعا کیسے قبول ہو۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام ک کسبِ حلال کا حکم دیا ہے فرمایا

یٰاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوامِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْ صٰلِحًا

اے رسولو! پاکیزہ رزق کھاؤ اور نیک اعمال کرو

مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے:

یٰاَیُّھَا الذِّیْنَ اٰمِنُوْا کُلُوْا

مِنْ طَیِّبَاتِ مَارَزَقْنٰکُمْ

اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں پاکیزہ رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ۔

4) کبائر سے پرہیز مثلاً مکرو فریب، غیبت، چغلی، حسد، تکبر، کینہ سے اپنے نفس کو پاک رکھے، اس قسم کے روحانی اور اخلاقی امراض کے ہوتے ہوئے یہ ناممکن ہے کہ دعا بارگاہِ خداوندی میں پہنچنے کیلئے بلند مدارج طے کرسکے، جیسا کہ ارشاد ہے:

اِلَیْہِ یَصَْدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ

وَوالْعَمَلُ الصَّالِحَ یَرْفَعُہٗ

اسی کی طرف پاکیزہ کلمات بڑھتے ہیں اور نیک اعمال کے ذریعے بلند مدارج طے کرتے ہیں ۔

یعنی عمل صالح کے ذریعہ پاک کلمات خدا کے ہاں مقبولیت کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ اسی بنا پر نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر دعا کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے جیسا کہ غار والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تین شخص کہیں جاتے ہوئے بادوباراں کے طوفان میں گھر گئے۔ انہوں نے ایک غار میں پناہ لی ۔ اتفاق سے ایک چٹان لڑھک کر غار کے دہانے پر گر پڑی۔ اور باہر نکلنے کا راستہ بند ہوگیا۔ اس موقع پر ہر ایک نے اپنی دعا میں اپنے سابقہ نیک اعمال کو پیش کرکے اس قید سے نجات حاصل کی۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو صحیح بخاری، مشکوٰۃ باب الرحمۃ والشفقۃ علی الخلق، اس سے ثابت ہوا کہ حسنِ عمل دعا کی قبولیت کا سبب ہے اور بد عملی اس راہ کی بڑی رکاوٹ۔

دعا کیلئے باطنی اور ظاہری آداب

قرآن مجید میں دعا کے آداب کی طرف مندرجہ ذیل آیت میں رہنمائی کی گئی ہے:

اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ گڑگڑاتے ہوئے پوشیدہ پکارو، بلاشبہ وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں اصلاح کے بعد فسادبرپا مت کرو، اور اسے خوف و طمع (دونوں قسم کے ملے جلے جذبات) کے ساتھ پکارو، بیشک اللہ کی رحمت محسنوں سے قریب ہے۔(الاعراف:49)

اس آیت میں صراحۃً اور اشارۃً دعا کے چھ آداب بیان کئے گئے ہیں ۔

(1) دعا کے وقت تضرع، خشوع اور عاجزی و انکساری انسان کی ہر ہر حرکت اور ادا سے نمایاں ہو اس کا دل اپنے رب کی عظمت و جلال سے پوری طرح بھر پور ہو۔

(2)اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی توقع اور اس کے عذاب کے اندیشے سے ملے جلے جذبات دل میں امید وبیم کی ایک اضطرابی کیفیت پید اکئے ہوئے ہوں ۔

اسی خصوصیت کو دوسری آیات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

بیشک وہ (انبیاء کرام) نیکیوں میں سبقت کرتے تھے اور ہم کو رغبت و خوف کے ساتھ پکارتے تھے اور وہ ہماری سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔(الانبیاء:90)

ان کے پہلو خواب گاہون سے الگ ہوجاتے ہیں ۔ وہ ڈرتے ہوئے امید رکھتے ہوئے اپنے رب کو پکارتے ہیں ۔ (السجدۃ:16)

قرآن مجید می مومنین صالحین کی صفات میں خوف اور طمع دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا ہے کیونکہ ان دونوں کی یکجائی ہی سے انسان میں توازن اور اعتدال پیدا ہوسکتا ہے اگر انسان کے سامنے صرف اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور فضل و کرم ہی کا تصور ہوتو اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ سراپا گناہوں پر دلیرنہ ہوجائے۔ اور اگر عذاب ہی کا نقشہ پیش نظر رہے تو مایوسی اور قوت عمل کے تعطل کا قوی اندیشہ ہے۔

حافظ ابن قیم ؒ نے اس حقیقت کو ایک لطیف مثال کے ذریعہ واضح کیا ہے  وہ فرماتے ہیں :

’’یوں سمجھنا چاہئے کہ اس دنیا کے سفر میں خوف بمنزلہ کوڑے اور تازیانے کے ہے اور امید حدی خوانی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے سفر کی مشقتیں بآسانی برادشت ہوسکتی ہیں ۔ محبت رہنما کے درجہ میں ہے جو سواری کی نکیل تھامے ہوئے ہے۔ اگر سوار کے پاس سواری کو قابو میں رکھنے کیلئے کوڑا نہ ہو تو سیدھی راہ سے ہٹ جانے اور پگڈنڈیوں میں بھٹک جانے کا قوی امکان ہے اس خوف کے تازیانے کے بغیر حدود الٰہیہ کی حفاظت ناممکن اور گمراہی یقینی ہے۔ خوف اور محبت سے جو دل بھی خالی ہوگا اس کی اصلاح کی کبھی بھی توقع نہیں کی جاسکتی اور جس قدر یہ صفات کمزور ہوں گی اسی لحاظ سے ایمان میں بھی ضعف نمایاں ہوگا۔

(3) دعا میں جہاں تک ہوسکے اخفا سے کام لیا جائے، یعنی خاموشی اور آہستگی سے اپنے رب کے حضور سرگوشی اور مناجات کی جائے۔ دعا کا اصل ادب یہی ہے اِلایہ کہ کسی موقع پر خود شارع ہی نے بلند آواز سے دعا کرنے کا حکم دیا ہو۔

حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ سری اور جہری دعا کے درمیان ستر گنا فرق ہے۔ حضرت زکریا ں کی سری دعا کو اللہ تعالیٰ نے مقامِ مدح میں ذکر فرمایا ہے:

اِذْنَادٰی رَبَّـہٗ نِدَآئً خَفِیًّا (مریم: 30)

جب اس نے اپنے رب کو پوشیدہ طور پر چھپ چھپاتے پکارا۔

سری دعا کے فوائد و منافع بجائے خودنہایت اہم اور اثر انگیز ہیں ۔

(الف)دعا یہ طریقہ ایمان اور یقین کی پختگی کا پتہ دیتا ہے کیونکہ داعی یہ ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سرگوشیوں کو بھی سنتا ہے۔ اس کا حال اس شخص کا سا نہیں ہوتا جو یہ خیال کرتا ہے کہ اگر ہم بلند آواز سے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ سنتا ہے ورنہ نہیں ۔

(ب)ادب و تعظیم کے لحاظ سے بھی یہی طریقہ موزوں ہے۔ دنیا میں بادشاہوں اور حاکموں کے درباروں میں گفتگو کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ آواز بلند کرنا گستاخی اور خلافِ ادب قرار دیا جاتا ہے۔ پھر وہ خدا جو ہلکی سے ہلکی آواز بھی سن لیتا ہے اس کے حضور میں تو سری دعا اور زیادہ مناسب ہے۔

(ج)یہ صورت خشوع و خضوع اور گریہ زاری کے لحاظ سے بھی زیادہ موزوں ہے۔ یہ ادا دعا کی روح اور مغز ہے۔ ایسے موقع پر دعا کرنے والے کا حال اس عاجز و مسکین کا سا ہوتا ہے جس کا دل ٹوٹ چکا ہے۔ اعضا ڈھیلے پڑ چکے ہیں ، آواز پست ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ عاجزی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ زبان کو گویائی کی تاب نہیں ہے۔ اب حال یہ ہے کہ دل آہ وزاری کے ساتھ دعاء و مناجات میں مشغول ہے۔ اور زبان انتہائی عاجزی اور مسکینی کی بنا پر خاموش ہے۔ یہ وقت انگیز منظرآواز بلند کرنے کی صورت میں حاصل نہیں ہوسکتا۔

(د) اس شکل میں ریاکاری اور نمائش پسندی کے بجائے اخلاص کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔

(ہ) پوری یکسوئی اور دل جمعی کے ساتھ بندہ اپنے رب سے راز و نیاز کا موقع پاتا ہے۔ بلند آوازی سے یکسوئی اور جمعیت خاطر پراگندہ ہوجاتی ہے جس قدر آواز پست ہوگی اسی قدر خدا سے لگاؤ اور تعلق میں اضافہ ہوگا۔

(و) پست آوازی میں ایک لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے، گویا وہ اس طرح سرگوشی کررہا ہے جس طرح ایک قریبی دوست اپنے دوست سے کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا ؑ کی سری دعا کی مدح فرمائی ہے۔

بندہ جس قدر حضور قلب کے ساتھ خدا کو پکارے گا، اسی لحاظ سے اس کو اپنے رب کا قرب حاصل ہوگا اور جب یہ تصور دل میں جم جائے گا کہ وہ ہر قریب سے بھی زیادہ قریب ہے تو نہایت رازداری سے اپنی درخواست اس کی بارگاہ میں پیش کرے گا۔ ایسے موقع پر بلند آوازی پسندیدہ نہ ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اگر ہم نشین ساتھی آہستہ گفتگو سن لیتا ہے تو ایسی صورت میں بلند آواز سے چیخنا چلانا عام طور پر معیوب ہی سمجھا جائے گا۔

اس امر کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ صحابہ ؓ نے ایک سفر میں بلند آواز سے تکبیر کہنا شروع کردی تھیں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا:

اربعواعلی انفسکم

اپنے اوپر رحم کرو

تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔ تم ایسی ہستی کو پکار رہے ہو جو سننے والی اور تم سے انتہائی قریب ہے۔ جتنی سواری کی گردن تم سے قریب ہے اس سے کہیں زیادہ وہ تم سے قریب ہے۔

(ح) خدا کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی طرف کامل یکسوئی اور پوری توجہ کے مواقع حاصل کرسکے۔ اس نعمت سے بڑھ کر دوسری نعمت اور کیا ہوسکتی ہے۔

(4)دعا کا چوتھا ادب یہ ہے کہ دعا مانگنے میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے یہ ادب قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ اس اعتداء (حد سے بڑھنے) کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔

دعا میں ایسی چیز طلب کرنا جن کا داعی اہل نہیں ہے۔ مثلاً انبیاء کرام کے درجات و مراتب مانگنا۔

حرام کام پر نصرت کی طلب۔

سب سے بڑا اور خطرناک ’’اعتدا‘‘یہ ہے کہ بندہ دعا و عبادت میں غیر خدا کو بھی شریک کرلے اور ان سے اسی طرح مدد طلب کرے جس طرح خدا سے طلب کی جاتی ہے۔

دعا یا عبادت میں ایسے طریقے اختیار کرنا جو شریعت سے ثابت نہیں ہیں ۔

(5) مذکورہ بالا آیات میں ذکر و دعا کے آداب جتلاتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:

لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدِ اِصْلَاحِھَا

زمین میں اصلاح اور درستگی کے بعد فساد اور بگاڑ نہ پیدا کرو۔

آیت کے سیاق و سباق سے یہ لطیف اشارہ نکلتا ہے کہ مفسدین فی الارض کی دعاء بارگاہِ خداوندی میں شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتی۔

تبصرے بند ہیں۔