دیدہ بازی آنکھ کی بدکاری ہے!

 ترتیب:عبدالعزیز

 اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے:

  ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کیلئے پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے‘‘۔ (النور:30)

 اصل میں الفاظ ہیں ’  یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ‘۔ غض کے معنی ہیں کسی چیز کو کم کرنے، گھٹانے اور پست کرنے کے۔ ’ غض بصر‘کا ترجمہ عام طور پر نگاہ نیچی کرنا یا رکھنا کیا جاتا ہے، لیکن در اصل اس حکم کا مطلب ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہنا نہیں ہے بلکہ پوری طرح نگاہ بھر کر نہ دیکھنا، اور نگاہوں کو دیکھنے کیلئے بالکل آزاد نہ چھوڑ دینا ہے۔ یہ مفہوم ’’نظر بچانے‘‘ سے ٹھیک ادا ہوتا ہے، یعنی جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو اس سے نظر ہٹالی جائے، قطع نظر اس سے کہ آدمی نگاہ نیچی کرے یا کسی اور طرف اسے بچالے جائے۔ من ابصارہم میں من تبعیض کیلئے ہے، یعنی حکم تمام نظروں کو بچانے کا نہیں ہے بلکہ بعض نظروں کو بچانے کا ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ کا منشا یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھا جائے بلکہ وہ صرف ایک مخصوص دائرے میں نگاہ پر یہ پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ بات سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے کہ یہ پابندی جس چیز پر عائد کی گئی ہے وہ ہے مردوں کا عورتوں کو دیکھنا یا دوسرے لوگوں کے ستر پر نگاہ ڈالنا یا فحش مناظر پرنگاہ جمانا۔

  کتاب اللہ کے اس حکم کی جو تشریح سنت نے کی ہے اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :

(1 آدمی کیلئے یہ بات حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑجائے تو وہ معاف ہے، لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو وہاں پھر نظر دوڑائے۔ نبی صلی اللہ علیہ نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ دیکھنا، آنکھوں کی زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت، زبان کی زنا ہے۔ آواز سے لذت لینا، کانوں کی زناہے۔ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کیلئے چلنا، ہاتھ پاؤں کی زنا ہے۔ بدکاری کی یہ ساری تمہیدیں جب پوری ہوچکتی ہیں تب شرمگاہیں یا تو اس کی تکمیل کر دیتی ہیں یا تکمیل کرنے سے رہ جاتی ہیں ۔ (بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔

حضرت بریدہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’اے علی! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے مگر دوسری معاف نہیں ‘‘۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد، دارمی)… حضرت جریر بن عبداللہ بَجَلیؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اچانک نگاہ پڑ جائے تو کیا کروں ؟ فرمایا: ’’فوراً نگاہ پھیر لو یا نیچی کرلو‘‘۔ (مسلم، احمد، ترمذی، ابو داؤد، نسائی)۔

 عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جو شخص مجھ سے ڈرکر اس کو چھوڑ دے گا میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا‘‘۔ (طبرانی)

 ابو اُمامہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹالے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے‘‘۔ (مسند احمد)… امام جعفر صادقؒ اپنے والد امام محمد باقرؒ سے اور وہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی فضل بن عباسؓ (جو اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے) ’مشعر حرام‘ سے واپسی کے وقت حضورؐ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ راستے سے جب عورتیں گزرنے لگیں تو فضل ان کی طرف دیکھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اسے دوسری طرف پھیر دیا۔ (ابو داؤد) … اسی حجۃ الوداع کا قصہ ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت راستہ میں حضورؐ کو روک کر حج کے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی اور فضل بن عباس نے اس پر نگاہیں گاڑ دیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کردیا۔ (بخاری، ابو داؤد، ترمذی)

(2 اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی تبھی تو غض بصر کا حکم دیا گیا، ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جاچکا ہوتا تو پھر نظر بچانے یا نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔عقلی حیثیت سے یہ اس لئے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہوجانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہوجائے۔ اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہوسکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہر حال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی، لہٰذا محض غض بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو  مستلزم ہے۔ اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لئے غلط ہے کہ سورۂ احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔

 واقعۂ افک کے متعلق حضرت عائشہؓ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مردی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ ’’جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہو اکہ وہیں پڑ کر سوگئی۔ صبح کو صفوان بن معطل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آگیا۔ ’’وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کے حکم سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے منہ ڈھانک لیا‘‘۔ (بخاری، مسلم، احمد، ابن جریر، سیرت ابن ہشام) ۔

 ابو داؤد، کتاب الجہاد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک خاتون اُم خَلّاد کا لڑکا ایک جنگ میں شہید ہوگیا تھا۔ وہ اس کے متعلق دریافت کرنے کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ، مگر اس حال میں بھی چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ بعض صحابہؓ نے حیرت کے ساتھ کہاکہ اس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے؟ یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا اور تم اس اطمینان کے ساتھ باپردہ آئی۔ جواب میں کہنے لگیں ’’میں نے بیٹا تو ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیا تو نہیں کھودی‘‘۔ ابو داؤد ہی میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درخواست دی۔ حضورؐ نے پوچھا یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا؟ اس نے عرض کیا عورت ہی کا ہے۔ فرمایا ’’عورت کا ہاتھ ہے تو کم از کم ناخن ہی مہندی سے رنگ لئے ہوتے‘‘۔

رہے حج کے موقع کے وہ دو واقعات جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو وہ عہد نبویؐ میں چہرے کا پردہ نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے، کیونکہ احرام کے لباس میں نقاب کا استعمال ممنوع ہے، تاہم اس حالت میں بھی محتاط خواتین غیر مردوں کے سامنے چہرہ کھول دینا پسند نہیں کرتی تھیں ۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں ہم لوگ بحالت احرام مکہ کی طرف جارہے تھے۔ جب مسافر ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم عورتیں اپنے سر سے چادریں کھینچ کر منہ پر ڈال لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم منہ کھول لیتی تھیں ‘‘۔ (ابو داؤد، باب فی المحرمۃ تغطی وجہھا)۔

 (3 غض بصر کے اس حکم سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت ہو۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو۔ اس غرض کیلئے عورت کو دیکھ لینے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ایسا کرنا کم از کم مستحب تو ضرور ہے۔ مغیرہ بن شعبہ کی روایت ہے کہ میں نے ایک جگہ کا پیغام دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے لڑکی کو دیکھ بھی لیا ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں ۔ فرمایا: ’’اسے دیکھ لو، اس طرح زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ تمہارے درمیان موافقت ہوگی‘‘ ۔ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) … ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے کہیں شادی کا پیغام دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لڑکی کو دیکھ لو، کیونکہ انصاری کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہوتی ہے‘‘۔ (مسلم، نسائی، احمد)… جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کا خواستگار ہو تو حتی الامکان اسے دیکھ کر یہ اطمینان کرلینا چاہئے کہ آیا عورت میں ایسی کوئی خوبی ہے جو اس کے ساتھ نکاح کی طرف راغب کرنے والی ہو‘‘۔ (احمد، ابو داؤد)… مسند احمد میں ابو حُمیدہ کی روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض کیلئے دیکھنے کی اجازت کو فلا جناح علیہ کے الفاظ میں بیان کیا، یعنی ایسا کرلینے میں مضائقہ نہیں ہے۔ نیز اس کی بھی اجازت  دی کہ لڑکی کی بے خبری میں بھی اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی سے فقہاء نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بضرورت دیکھنے کی دوسری صورتیں بھی جائز ہیں ۔ مثلاً تفتیشِ جرائم کے سلسلے میں کسی مشتبہ عورت کو دیکھنا یا عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کا کسی گواہ عورت کو دیکھنا یا علاج کیلئے طبیب کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔

 (4 غض بصر کے حکم کا منشا یہ بھی ہے کہ آدمی کسی عورت یا مرد کے ستر پر نگاہ نہ ڈالے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور کوئی عورت کسی عورت کے ستر کونہ دیکھے‘‘ (احمد، مسلم، ابو داؤد، ترمذی)۔ حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ’’کسی زندہ یا مردہ انسان کی ران پر نگاہ نہ ڈالو‘‘۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ)۔

 شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد محض ناجائز شہوت رانی سے پرہیز ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے سے پرہیز بھی ہے۔ مرد کیلئے ستر کے حدود نبی صلی اللہ علیہ نے ناف سے گھٹنے تک مقرر فرمائے ہیں ۔ مرد کا ستر اس کی ناف سے گھنٹے تک ہے‘‘۔ (دار قطنی، بیہقی)۔ اس حصۂ جسم کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداً کھولنا حرام ہے۔ حضرت جَرہدِاسلمی جو اصحاب صفہ میں سے ایک بزرگ تھے، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ میری ران کھلی ہوئی تھی۔ حضورؐ نے فرمایا ’’کیا تمہیں معلوم نہیں ہے، ران چھپانے کے قابل چیز ہے‘‘؟ (ترمذی، ابو داؤد، مؤطا)… حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی ران کبھی نہ کھولو‘‘۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ)… صرف دوسروں کے سامنے ہی نہیں ، تنہائی میں بھی ننگا رہنا ممنوع ہے؛ چنانچہ حضورؐ کا ارشاد ہے: ’’خبر دار؛ کبھی ننگے نہ رہو کیونکہ تمہارے ساتھ وہ ہیں جو کبھی تم سے جدا نہیں ہوتے (یعنی خیر اور رحمت کے فرشتے) سوائے اس وقت کے جب تم رفع حاجت کرتے ہو یا اپنی بیویوں کے پاس جاتے ہو، لہٰذا ان سے شرم کرو اور ان کا احترام ملحوظ رکھو‘‘۔ (ترمذی)… ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’اپنے ستر کو اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے محفوظ رکھو‘‘۔ سائل نے پوچھا اور جب ہم تنہائی میں ہوں ؟ فرمایا: ’’تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)

تبصرے بند ہیں۔