تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازار

نجم الہدی ثانی

چند دنوں پہلےاردوکے مشہورادیب ودانش ورپروفیسرمحمد حسن کے ایک پرانے مضمون ۔ ۔ ۔ اردو کی سرگزشت ۔ ۔ ۔  پرنظرپڑی۔ ابتداء ہی میں ایک فارسی شعرنے راستہ روکنے کی کوشش کی مگر ہم نے بھی ہمت نہیں ہاری اورخودکویہ تسلی دیتے ہوئے آگے بڑھے کہ پرانے وقتوں کے لوگ کسی مضمون یا کتاب کے آغاز میں عربی یا فارسی کا کوئی شعربطورتبرک لکھ دیا کرتے تھے جس کا سمجھنا، دوسری متبرک چیزوں کی طرح، ضروری نہیں ہوتا۔ دامن سمیٹ کراورنگاہیں نیچی کرکے گذرجانا ہی کافی ہوتا ہے۔

خیر، مضمون پڑھتے ہوئے مجھے اپنے پچپن کی یاد آگئی جب گھرکی کوئی بڑی بوڑھی ہماری پیدائش سے پہلے کے خاندانی واقعات ہمیں سناتی تھیں ۔ یہ دلچسپ بھی ہوتے تھے اورمعلوماتی بھی۔ اگریہ کہا جائے کہ یہ مضمون آزاد ہندوستان میں اردوکا ‘لیکھا جوکھا’ پیش کرتاہے توغلط نہیں ہوگا۔  آزاد ہندوستان میں اردو کے مسائل اورسیاست کی ناہمواریوں سے پروفیسرمحمد حسن کی واقفیت تو مسلم ہے ہی، ان کے انداز بیان کی شگفتگی نے مرثیہ میں بھی غزل کا لطف پیدا کردیا ہے۔ ابتداء ہی میں لکھتے ہیں کہ ‘1947 کے بعد ہندوستان میں اردو پر کیا؟ گذری فیض کے ایک مصرعے کی آپ بیتی نے اس جگ بیتی کو سمیٹ لیا ہے۔ ‘تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازار’۔

آزادی کے بعد حکومتی سطح پراردوکشی اورہندی دوستی کے پس منظر میں اردوکی عوامی مقبولیت کاتذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں : ‘اوربازارکا یہ حال کہ سرکاری ریڈیوخواہ کسی قسم کی جناتی زبان کیوں نہ بولے سڑکوں ، گلیوں اورگھروں میں اردو ہی کا راج قائم و دائم ۔ اقتدار کے فیصلے ایک طرف اورزبان کا فرمان اس کے برخلاف دوسری طرف۔ ’

آزاد ہندوستان میں اردوکے ساتھ ایک عحیب وغریب صورت حال یہ پیش آئی کہ وہ لوگ جو اس بات کو مانتے تھے کہ اردو یہیں پیدا ہوئی اورپروان چڑھی اوراس کی ‘ہندوستانیت’ دیگر کسی بھی زبان سے کم نہیں ہے وہ بھی اپنے دوراقتدارمیں اردو کے لئے کچھ زیادہ نہیں کرسکے۔ جدید ہند کے معماراورملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہروکے بارے میں لکھتے ہیں کہ ‘حکومت کے سربراہ پنڈت جواہرلال نہرو کھلے کھلم یہ بات دہراتے رہے مگر پتہ نہیں کس کے لئے یہ باتیں دہرائی گئیں کیوں کہ ان پر عمل کرنے والے بھی وہی تھے۔’

اس سلسلے میں انہوں نے یوپی کے سابق وزیراعلیٰ  سمپورنانند جی کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ سمپورنانند جی کا جواب اردو کے متعلق آزاد ہندوستان میں ہمارے سیاسی طبقہ کے رویہ کا عکاس ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ ‘1950 کے آس پاس کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ میں سمپورنانند جی وزیراعلیٰ تھے جو خود اردو ہی میں نہیں بلکہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے، آنند تخلص کرتے تھے۔ ان سے اردو ادیبوں کا ایک وفد ملا، جس میں آنند نرائن ملا بھی شامل تھے، جن کا مشہور شعرہے:

لب مادرنے ملا لوریاں جس میں سنائی تھیں

وہ دن آیا ہے اب اس کو بھی غیروں کی زباں سمجھو

سمپورنانند جی پون گھنٹے تک اردووفد کی فریاد سنتے رہے۔ بولے توصرف اتنا کہ میں آپ کے سب مطالبے منظورکرنے کو تیار ہوں مگرشرط یہ ہے کہ ان پرعمل درآمد کی تاریخ آج سے پچاس سال بعد کی ہوگی۔ اس وقت تک نہ اردو باقی رہے گی نہ آپ کے مطالبات!’

اردواکادمیوں کی معنویت اوراردوکی ترویج و اشاعت کے متعلق ان کی سرگرمیوں اوروژن کے معتلق اکثربے اطمئنانی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یوپی اردو اکادمی کے قیام کے پس منظرپرروشنی ڈالنے کے بعد لکھتے ہیں ‘اختیارات اس اکادمی کوسب ہوں گے مگراردوکی تعلیم کا انتظام اس کے اختیارات سے باہرہوگا۔ ہاں ، معذوراورمعمرادیبوں کوعلاج معالجے یا گذراوقات کے لے وظائف دینا اوراردو میں چھپنے والی کتابوں پرمصنفین کوانعام دینا یا اردوکی کتابیں چھپوانا یہ سب اس کی کارکردگی میں شامل ہوگا۔’ مگراصل لطف اس صورت حال پر ان کے مختصرمگرجامع تبصرہ میں ہے۔ لکھتے ہیں : ‘گویا گھربارآپ کا ہے شرط یہ ہے کہ کوٹھی کوٹھریوں کو ہاتھ نہ لگائیں ۔’

اردو کی ترویج و ترقی کے متعلق گجرال کمیٹی اوراس کے نتیجے میں آل احمد سروراورعلی سردارجعفری کی صدارت میں بننے والی اردوکمیٹیوں کا ذکر خیر ہمارے اردوحلقوں میں ماضی قریب تک ہوتا رہا ہے۔ ان کمیٹیوں سے اردوکا کتنا بھلا ہوا وہ ہم سب جانتے ہیں مگراس کے متعلق محمد حسن صاحب کا سوال کچھ مختلف ہے۔ ان کی سفارشات ایک مدت تک راز بنی رہیں مگریہ اپنے آپ میں بے ضررسفارشات تھیں ۔ اس پورے قضیہ پران کا تبصرہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مختصراً ان سفارشات کا ذکرکرکے لکھتے ہیں کہ ‘بس لے دے کے یہ سفارشیں تھیں جو مدتوں راز بنی رہیں ۔ اب اترپردیش اوربہار کی سرکاروں نے تو اپنی اپنی ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا  بل کم سے کم اسمبلیوں کی سطح پرمنظورکردیا ہے۔ بہار میں اس پرعمل درآمد میں سرد مہری برتی گئی ہے تو اترپردیش میں یہ قانونی پیچیدگیوں میں الجھا دیا گیا ہے (یعنی وہی حشرجو سہ لسانی فارمولے میں اردوکی جگہ سنسکرت کودے کراٹھایاگیا تھا)۔ گویا گجرال کمیٹی نے بہت بڑھ چڑھ کرجوسفارش کی تھی اس سے تو کہیں زیادہ بہاراوراترپردیش کے اردوجاں بازوں نے خود اپنی قوت بازو سے حاصل کرہی لیا ہے۔

اسی طرح ایک اردو یونی ورسٹی تو حیدرآباد میں قایم ہوگئی ہے۔ رہا معاملہ مترجمین کا توجگن ناتھ مشرا، لالو پرشاد یادو کے دورمیں بہار میں اورہیم وتی نندن بہوگنا کے دورمیں اترپردیش میں کئی ہزاراردومترجمین کا تقرر ہوہی چکا ہے (گو سننے میں آیا ہے کہ ان سے گھنٹہ بجانےکا کام لیا جاتا ہے اردوکے نئے مقررکے ہوئے مدرسین کی طرح)۔ ٹریننگ کالجوں میں اردو کے اساتذہ کے لے گنتی کی جگہیں مخصوص ہیں اورخود ان میں بے دلی اتنی زیادہ اور عام واقفیت اتنی کم ہے کہ ان جگہوں کے لے اول تو صحٰیح تعداد میں درخواستیں ہی موصول نہیں ہوتیں اوراگر ہوتی بھی ہیں تو نصاب اس قدر ناقص ہے کہ اس سے اردوپڑھانے کی کوئی تربیت حاصل ہی نہیں ہوتی۔ عام استاد کے لے اصول سے واقفیت ضرورہوجاتی ہے’۔

چلئے، یہ تو ایک وزیراعظم کی بات ہوئی۔ اب ایک دوسرے وزیراعظم کی بات کرتے ہیں ۔ وی پی سنگھ اس وقت یوپی کے وزیراعلیٰ تھے۔ معروف صنعت کاراوراردوکے شیدائی مقبول احمد لاری مرحوم کے دولت کدے پرتقریرکرتے ہوئے انہوں نے اردوکودوسری سرکاری زبان کے سارے حقوق دینے کا وعدہ کیا۔ محفل میں کسی نے اپنے شک و شبہ کا اظہار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘یہ مردکی زبان ہے اورمردزبان کا پابند ہوتا ہے’۔ اس پران کا دلچسپ تبصرہ سنئے: ‘شری وی پی سنگھ کا دورحکومت یوپی سے ختم بھی ہوگیا۔ پھروہ مرکزمیں وزیراعظم بھی ہوئےمگرمرد کی زبان کو کوئی مرد نہیں ملا جواپنی زبان کا پاس کرتا’۔

آزاد ہندوستان میں اردو کی کسی بھی سرگذ شت میں آس کا پہلو ہمیشہ یاس سے دب جاتا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ مسائل کے انبار میں اکثر ہماری نظریں امکانات کو نہں تلاش کرپاتی ہیں ۔ اس مضمون میں بھی مسائل پر بات کی گئی ہے اورسیاست دانوں کے تعصب کا پردہ بھی چاک کیا گیا ہے۔ مگراس میں غصہ ہے نہ جھنجھلاہٹ، محرومی کا احساس ہے نہ بے بسی کا کرب۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک حقیقی دانش ورکی طرح پروفیسرمحمد حسن کے یہاں مسائل کا ادراک دانش وری کے اتنے اعلیٰ سطح پر ہے جہاں سے مستقبل کی شاہرہ عمل بھی نظرآتی ہے۔ اسی لئے آزاد ہندوستان میں اردوکوکبھی تنہا پس زنداں اورکبھی رسواسربازاردیکھنے والا یہ دانش ور حال کی تیرگی کا شاکی تونظرآتا ہے مگر مستقبل کے متعلق کبھی مایوس نہیں ۔

مضمون کا اختتام قنوطیت کے ساتھ ہوتا ہے نہ خوش فہمی کے ساتھ ۔ اس کے برعکس اردو کی نئی اورتازہ دم نسل کو ایک پیغام دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘اس جد جہد کے دو رخ ہیں ۔ ایک، حکومت وقت سے مطالبات کرتے رہنا اوران مطالبات کے لے رائے عامہ ہموارکرنا اوردوسرے، اپنے طورپرحکومت سے بے نیاز ہوکراردوکی تعلیم وتدریس کا انتظام کرنا۔ اوریہ دونوں کام جب تک پہلو بہ پہلو چلتے رہیں گے اس وقت تک اردو کی خدمت بھی برے بھلے ہوتی رہے گی۔ یہ البتہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اردو ہماری صدیوں کی میراث ہے۔ اس نے ہمیں زندگی اورروشنی بخشی ہے مگراس کی زندگی اورروشنی صرف ہمارے رحم وکرم پر نہیں کہ اس کے لے مقامات آہ وفغاں اوربھی ہیں ۔ ضرورت ہے تو ہمت مردانہ کی ہے۔ لگن اورحوصلے ہی سے مشکل کام آسان ہوتے ہیں’۔

تبصرے بند ہیں۔