مومنانہ کردار

محمد رضی الاسلام ندوی

سماج میں دو طرح کے کردار پائے جاتے ہیں : ایک دوسروں کے ناشائستہ رویّوں کی پروا نہ کرنا اور اپنی طرف سے انھیں فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے رہنا اور دوسرا سماج میں خلفشار پیدا کرنے ، انسانوں کو باہم لڑانے اور انہیں ضرر پہنچانے میں لگے رہنا _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے کو مومنانہ کردار اور دوسرے کو فاجرانہ کردار قرار دیا ہے _

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :
” المُؤمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ، وَالفَاجِرُ خِبٌّ لئيمٌ ". (أبو داود:4790،ترمذي :1964 )

اس حدیث میں دو جملے ہیں اور دونوں میں متضاد باتیں کہی گئی ہیں _ ہر جملہ تین الفاظ پر مشتمل ہے _

مومن کے دو اوصاف بیان کیے گئے ہیں : ایک یہ کہ وہ سادہ لوح ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ نیک طینت اور فیاض ہوتا ہے _ سادہ لوحی کا مطلب بے وقوفی نہیں ہے _ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن ہر وقت اپنے مفاد کے چکّر نہیں رہتا ، بلکہ دوسروں کے سلسلے میں اس پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ان پر نگاہ رکھتا ہے ، جب کہ بسااوقات دوسرے لوگ اس کی شرافت سے غلط فائدہ اٹھانے اور صرف اپنا الّو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں _ چنانچہ اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے وہ دوسروں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرتا ہے ، ان کے لیے فیض رساں ہوتا ہے اور ہر موقع پر ان کے کام آتا ہے _

مومن کے مقابلے میں فاجر کا لفظ آیا ہے _ اس کی بھی دو بری خصلتیں بیان کی گئی ہیں : ایک یہ کہ وہ فسادی اور جھگڑالو ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ وہ کمینہ ہوتا ہے ، اس کی ذات سے کسی کو فیض نہیں پہنچتا، بلکہ اس کی بدخلقی سے سب پریشان رہتے ہیں _

محدثین نے بیان کیا ہے کہ ہر جملے میں جو دو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے دوسرا وصف پہلے وصف کا سبب اور پہلا وصف دوسرے وصف کا نتیجہ ہوتا ہے _

ہمیں اپنے اندر مومنانہ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان برے اوصاف سے بچنا چاہیے جو فسق و فجور کی پیداوار ہوتے ہیں _

تبصرے بند ہیں۔