تو اپنے پیراہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے

ذوالقرنین احمد

آج ملت اسلامیہ جن حالات سے گزر رہی ہے ہم اس سے واقف ہیں ہندوستان کے مسلمانوں پر جو حالات آرہے ہیں، دراصل یہ ہمارے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے۔ دین سے دوری اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے روگردانی کا سبب ہے۔ اسلیے پریشانیوں اور حالات کا رونا رو رہے  ہیں۔ جو قوم خود کو بدلنا نہیں چاہتی اللہ انکے حالات کو نہیں بدلتا آج ہندوستان کے مسلمان ہر طرح سے پریشان ہے کہی  ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کہی جھوٹے الزامات میں شک کی بنیاد پر نوجوانوں کو جیلوں کی زینت بنایا جا رہا ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے تعصب اور ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا جارہا ہے کہی اسلامی شریعت میں مداخلت کی جارہا ہے بابری مسجد کے فیصلے کو لیکر سیاسی جماعتیں اپنی اپنی روٹیاں سینک رہی ہے اور موجودہ حکومت میں فرقہ پرست عناصر کھلے عام فضا میں ذہر گھول رہے ہے اور ہندوستان کے مسلمان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوے ہیں جماعتوں اور فرقوں کے اختلافات میں مگن ہے مسلمانوں میں اختلاف و انتشار ایک گہری سازش ہے، جس کے پیچھے اسلام دشمن عناصر اور سنگھی رہنماؤں کا ہاتھ ہے پہلے شریعت مداخلت کی گی اب علماء کے ذریعے آپس میں اختلافات کو ہوا دی جارہی ہے، جس سے ہماری جان مال شریعت عبادت گاہوں اور ملی تنظیموں کو خطرہ ہونے کا قوی امکان لاحق ہے۔

  جب اختلافات اتحاد پر حاوی ہو تو انتشار ہوگا  ایسے حالات میں ہندوستان کے مسلمانوں اور ملی تنظیموں کو متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے کسی قوم ذوال کا سبب اسی قوم کے مفاد پرست لیڈر اور قوم کے مذہبی رہنماؤں کے حق گوئی سے انحراف اور میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کی وجہ سے ہوتا ہے آپسی اختلافات کو ہوا دے کر ملت کے اندر انتشار پیدا کرنا بڑے شرم کی بات ہے تنقید اور رأے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے لیکن تنقید برائے اصلاح ہونے چاہئیے اور رأے میں اختلاف ہمیشہ سے ہے اس میں شدت اختیار کرنے کے بجائے ملی تنظیموں کو آپس میں بیٹھ کر مفید حل تلاش کرنا چاہیے آج اگر اسی طرح آپس میں لڑتے رہے تو سمجھ لو دشمن تمہاری صفوں میں انتشار پیدا کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے آج ہم دشمنوں کی سازشوں کو توڑنے کے بجائے دشمن کے جال کا شکار ہورہے ہیں۔

آج ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کے ہم آپس میں ایک دوسرے پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں اور جن خامیوں کو پأے اسے درست کر نے کی کوشش کرے آج ہم تعلمی میدان میں بچھڑے ہوئے ہے ہمارے نوجوان بے روزگاری  کا شکار ہے اصلاحی و فلاحی تنظیمیں کام کر رہی پر ہمارے پاس آگے کیلے کوئی لاحہ عمل موجود نہیں جس کے ذریعے تعلیمی پسماندگی، بھوک افلاس،معاشرتی بگاڑ، کو قابو میں لایا جائے  اسکے لیے ہمیں ایک ٹارگٹ کے تحت تعلمی پالیسی تیار کرنا ہو گی ہمارے نوجوانوں کو ہر میدان کیلے تیار کرنا ہوگا، دینی مکاتب و مدارس کو منظم طریقہ سے چلانا ہوگا، بچوں کےاندر بچپن سے ہی دینی جذبہ پیدا کرنا ہوگا، سیاسی حکمت عملی تیار کرنا ہوگا، بھوک افلاس کے خاتمے کیلئے ہر گاؤں شہر میں بیت المال کا نظم قأیم  کرنا ہوگا۔

 ملی مسائل ازدواجی مسائل اور عأیلی مسائل کو شرعی عدالت کی قیام کے ذریعے حل کرنا ہوگا،ہر شہر میں  سالانہ ٹارگیٹ کے تحت پسماندہ طبقات کے ذہین طلباء کو اعلی تعلیم کیلئے فنڈنگ کے ذریعے مالی امداد کرنی ہوگی، مسجد اور مدارس کو صرف درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کے حد تک محدود نہیں کرنا ہوگا بلکہ امت کے اندر حالات حاضرہ اور سیاسی شعور کو بیدار کرنے اور ذہن سازی کے لیے بھی استعمال کرنا ہوگا اور اسی طرح ایڈمنسٹریشن کیلے ہمارے نوجوانوں کو تیار کرنا ہوگا،اور سیاست میں مخلص ملی قیادت کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اور یہ سب ایک ٹارگیٹ کو مدے نظر رکھتے ہوگی کرنا ہوگا ورنہ آنے والے حالات آنے والی نسلوں کے لیے بڑے سنگین ثابت ہو سکتے ہے جسکے لے پھر ایک عظیم قربانی درکار ہوگی اور آنے والی نسل تمہیں معاف نہیں کرے گی۔

آج ہمارے ملی قأیدین اور مذہبی رہنماؤں پر دیش دروہی کے الزامات لگائے جارہے ہیں مدارسوں پر چھاپے مارے جارہے ہماری تنظیموں پر ملت کے بہتری کیلئے کام کر رہی ہے اس پر پابندی عائد کی جا رہی ہے اور حقیقت اسکے برعکس ہے آشرمو ں میں سکس ریکٹ چل رہے ہے کہی سے ہتھیار برآمد ہو رہے ہیں پر میڈیا اسے منظر عام پر نہیں لاتا اس سے حکومت کی مسلم دشمنی عیاں ہوتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔