ادبی اجلاس ومشاعرہ

اردوکے مشاہیرین واکابرین کوچاہئے کہ وقت اورحالات کی مناسبت سے ابھرتے ہوئے نوجوان قلمکاروں کی ہمت افزائی کریں تاکہ ان میں تحقیق و تخلیق کا مادہ پیدا ہو اوریہ نسل نو اردو زبان و ادب کے فروغ کے سلسلہ میں کمر بستہ ہوجائے اور وہ اپنی زبان وادب اور تہذیبی سرمایہ کی حفاظت کے لیے آگے آسکیں۔ ان زرین خیالات کا اظہار ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم سابق چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز اردو اورینٹل حیدرآبادنے دکن لٹریری اسوسی ایشن و آل انڈیا اردوماس سوسائٹی فارپیس کی جانب سے حیدرآباد کے نوجوان صحافی وسماجی جہد کار محسن خان کی کتاب رشحات محسن وجلسہ اعترف خدمات جناب حلیم بابر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں موجودہ حالت میں اردوکے مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور ساتھ ہی ایک دوسرے پربیجا تنقیدوں سے باز آنا چاہے کیونکہ تنقید بیجاسے انسان کی تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہوجاتی ہیں ۔ ڈاکٹرموصوف نے اس موقع پراردو کے مشہور ومعروف استاد پروفیسر گیان چندجین کی اردوکے حوالے سے پچیس سال قبل کی گئی پیش گوئی کا حوالہ دیا اوربتایاکہ جین صاحب نے اس وقت کہاتھاکہ آئندہ پچیس سال میں اردو ختم ہوجائے گی لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ اردومزید پھل پھول رہی ہے جس کا کھلا ثبوت آج کی یہ محفل ہے اساتذہ پرتنقید کرنے کے بجائے ہرشخص اردوکی ترقی کا بیڑا اٹھالے تومیں سمجھتا ہوں کہ اردوپھرسے اپنی آن بان وشان کے ساتھ زمانہ کے سامنے نمایاں ہوجائے گی۔

 انہوں نے اس موقع پر عبرانی زبان کی مثال بھی پیش کی جوصدیوں بعد پھر سے اس کے بولنے والوں کی جانب سے زندہ کردی گئی۔ موصوف نے کہاکہ زبان ایک نامیاتی شئے ہے جس کی ترقی کا دارومدار اس کے بولنے والوں پرمنحصر ہوتا ہے اب یہ اردوالے طئے کریں کہ ہمیں اس کی ترقی وترویج کے لیے کس طرح کے اقدامات کرنے چاہئے۔ اس موقع پر ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم نے محسن خان اورسینئرشاعر حلیم بابر کی خدمات کی بھرپورستائش کی اور مبارک باد پیش کیا۔ مہمان خصوصی ڈاکٹرم ق سلیم نے کہاکہ آج اردوکو نوجوان نسل کی ضرورت ہے تاکہ اس سے اردوکواستحکام پہنچ سکے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی میں خوشی محسوس کررہا ہوں کہ کچھ نوجوان اپنے اظہار کے لیے اردوزبان کومنتخب کیا اوراپنے رشحات قلم سے مختلف موضوعات اور عنوانات کے تحت کتابیں تصنیف کررہے ہیں جس کابین ثبوت آج کی یہ تقریب ہے جس میں حیدرآباد کے نوجوان فرزند محسن خان نے’رشحات محسن‘‘ جیسی بیش بہا کتاب تحریر کرتے ہوئے دیاہے۔

انہوں نے حلیم بابر کی 50 سالہ ادبی خدمات کو خراج پیش کیا۔ معروف ڈرامہ نویس ڈاکٹرجاوید کمال نے کہاکہ میں محسن خان کودیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ متحرک نوجوان اردو زبان کامستقبل ہے۔ نسل نو کی اردو زبان وادب سے گہری دلچسپی اردو کے فروغ میں کارگر ثابت ہوگی ضرورت ہے کہ اردو زبان وادب کو روزگار سے جوڑا جائے اور ٹکنالوجی کے اس دور میں اردو کے فروغ کے سلسلہ میں عملی اقدامات ہونے چاہئے۔ ڈاکٹرجاوید کمال نے سلسلہ خطاب کوجاری رکھتے ہوئے کہاکہ قلیل سے عرصہ میں دوکتابیں تصنیف کرنا آج کے اس اردوکش زمانہ میں کسی کارنامہ کوانجام دینے سے کم نہیں ۔انہوں نے حلیم بابر کی طویل مدتی خدمات کو سراہا۔ تقریب سے شرف تخاطب حاصل کرتے ہوئے جناب مصطفی علی سروری اسوسی ایٹ پروفیسر ‘مانو نے کہاکہ اردوداں حضرات کوچاہے کہ وہ کتابیں خرید کرپڑھیں تاکہ لکھنے والوں کی ہمت افزائی ہو،اکثر اردو میں کتابیں مفت میں تقسیم کرنے کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ یہ کسی بھی صحت مند معاشرہ کے لیے مناسب فعل نہیں ہے کیونکہ زبان کی ترقی دارومدار صحت مند رحجانات پر قائم ودائم رہتاہے۔

ادبی اجلاس کا آغاز مولانا عابدحسین نظامی کی قرأت کلام پاک سے ہوا جبکہ کمسن نعت خواں بلاول حسین نے بارگاہ خیرالانام میں ہدیہ نعت پیش کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹرمحسن جلگانوی نے بھی خطاب فرمایا۔صدرآل انڈیا اردوماس سوسائٹی فارپیس ڈاکٹر مختاراحمدفردین نے خیرمقدمی تقریرکی۔ اس موقع پرکتاب پرتبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹرجہانگیراحساس نے کہاکہ محسن خان نے معاشرے کے ایسے عصری موضوعات کو اپنی تحریر کا عنوان بنایاہے جو ایک طرح سے نوجوان طبقے کودعوت فکر دیتے ہیں ۔ موصوف نے جہاں صحافت پر خامہ فرسائی کی وہیں خواتین سے جڑے مسائل ‘اردو زبان وادب ‘کھیل کود سے جڑے مسائل ‘سوشیل میڈیا‘سیاسی موضوعات اوراپنی سرزمین سے جڑے مسائل پربھی روشنی ڈالی ہے۔

 مہمانان خصوصی کے دست مبارک سے محسن خان کی کتاب رشحات محسن کی رسم رونمائی انجام پائی اور اس موقع پر آل انڈیا اردوماس سوسائٹی فارپیس کے صدر ڈاکٹرمختاراحمدفردین نے بزرگ شاعر حلیم بابر کی دیرینہ شعری وادبی خدمات کو مدنظررکھتے ہوئے انھیں ’’اردو انمول رتن ‘‘ایوارڈ پیش کیا۔ساتھ ہی محسن خان کو بھی سوسائٹی کی جانب سے انمول رتن ایورڈ عطا کیا گیا۔تمام محبان اردونے اس موقع پردونوں حضرات کی گلپوشی اورشال پوشی انجام دی اور اپنی نیک تمنائوں کااظہار کیا۔تہنیتی پروگرام کے بعد محسن خان اور حلیم بابر نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔اس محفل سے صلاح الدین نیئر‘ ایس کے افضل الدین‘ منظور علی ناغڑ‘ ڈاکٹرشیخ سیادت علی‘ ارشدحسین‘ ڈاکٹرناظم علی‘ فاروق طاہر‘ ڈاکٹرمحامدہلال اعظمی‘ ڈاکٹرعبدالقدوس، سراج انصاری (بنارس)نے بھی خطاب کیا۔

اس موقع پربزرگ شاعر یوسف روش کاارسال کردہ قطعہ تمام حاضرین محفل میں ورقیہ کی شکل میں تقسیم کیاگیا۔ بعدازاں ممتاز شاعرو صحافی ڈاکٹرمحسن جلگانوی کی زیرصدارت مشاعرہ انعقاد عمل میں آیاجس میں جناب صلاح الدین نیئر‘ حلیم بابر‘ سردار سلیم‘ لطیف الدین‘ ڈاکٹرفرید الدین صاق‘ محبوب خان اصغر‘شکیل حیدر‘ ڈاکٹرمعین افروز‘ سہیل عظیم‘زاہد ہریانوی‘ باقرتحسین‘جدت اسلوبی ‘ محی الدین خلیل اور درخشاں انجم (کلکتہ) نے کلام پیش کیا۔

ادبی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر عزیز سہیل نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دی جبکہ مشاعرہ کی کاروائی جناب محبوب خان اصغر نے برجستہ اشعار کے استعمال کے ذریعہ بحسن خوبی انجام دی۔رات دیر گئے مشاعرہ کا اختتام ڈاکٹر عزیز سہیل کے شکریہ پر ہوا۔اس موقع پر معززین شہرحیدرآباد اعجاز علی قریشی‘ آصف علی(روبی)‘ معظم راز‘سید زین ‘ ظفرمحی الدین‘ الحاج سید یوسف علی بابو‘ معین الدین خان‘مجید خان‘ سمیع الدین‘محمدعبدالباسط‘ محمدسلیم‘ادب ذوق سامعین کی کثیرتعدادموجود تھی۔

تبصرے بند ہیں۔