ترکی ایک بار پھر عرب قوم پرستی کے نشانے پر

ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی

سعودیہ عربیہ کا اب یہ حال ہے کہ اس کے حکمراں دن بدن اپنی خفیہ کمین گاہ  سے باہر آتے جا رہے ہیں، کل تک یہ ملک قومی سیکورٹی کے نام پر جو کچھ  پردے کے پیچھے سے کرتا تھا اب برملا کرنے میں اسے کوئی جھجھک نہیں۔ اس نے شرم و حیا اور اسلامی غیرت کی ہر چادر اتار پھینکنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ اس کے حکام نے  بیچ ، بکنی اور بے حیائی کے ہر تھیٹر کے ساتھ ترکی دشمنی کو بھی  اپنے ایجنڈے کا مستقل جز بنا لیا ہے۔

اب سعودی ولی عہد  محمد ابن سلمان نے ترکی کو "شیطانی اتحاد” کا حصہ قرار دے کر یہ اعلان کر دیا ہے کہ سعودیہ اس وقت کن قوتوں کے ساتھ کھڑا ہے۔، ۔ اس ماہ ریاض میں منقعقد ہونے جارہی عرب سربراہ کانفرنس کےحوالےسےگفتوکرتے ہوئےمیڈیاسے مخاطب ہوتے ہوئے محمد بن سلمان نے کہا:

’’ایران، قطر، ترکی دہشت گرد گروپوں کا ‘سہ فریقی وہشت ناک اتحاد’ ہے‘‘۔

  ترکی کا ایران کے ساتھ اتحاد تو کسی کو معلوم نہیں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ دونوں ممالک شام کے معاملے میں ایک دوسرے کی حکمت عملی کے کھلے مخالف ہیں۔ اسی طرح داعش اور کرد دہشت گردوں کے خلاف ترکی مسلسل بر سر پیکار ہے اور خود اس کا ملک ان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔۔۔۔۔ اس  پس منظر میں ترکی کو دہشت گرد  گروپوں  کا حمایتی یاکسی دہشت گردانہ مثلث کا حصہ کہنا  خود شرپسندی پر مبنی ہے اور اس قسم کے بیانات  خودایک دہشت پسند اور فسادی سازش کاحصہ ہیں۔۔۔۔ دنیا اس سہ فریقی  فسادی گروپ سے توواقف نہیں جس کا الزام  ترکی پر لگایا جا رہا ہے  ، البتہ  وہ اس دہشت گرد شیطانی گروپ سے ضرور واقف ہے جس کےعناصر اربعہ   میں   مسلمانوں کےدشمن اول اسرائیل،  امریکہ، مصرکے علاوہ سعودیہ عربیہ  بھی اس وقت شامل ہے، بلکہ  کہنا چاہیے کہ وہ اس کااٹوٹ حصہ ہے۔

یہ وہی الزامی تفریقی لہجہ ہے  جو اس وقت ہندوستان کے بعض مسلک پرست و تحزبی تعصب کے شکار عناصر اخوان و تحریک اسلامی کے  تعلق سے آج کل اپنائے ہوئے ہیں  اور یہان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ مسلکی  خمار کے ماروں  کی لے ظاہرا  مذہبی و مسلکی  ہے اور سعودیہ کی لے سفارتی و سیاسی۔، اس کا  مقصد  مسلمانوں میں تفرقہ و انتشار پیدا  کرنے کے سوا کچھ اور  نہیں  ہے۔۔۔۔۔۔  جمال الدین افغانی، "نوجوان ترک” کے قائدین،  محمد علی جوہر اور ، علامہ اقبال جیسے مسلم زعماء نے عربوں کو شیطانی قوتوں کی اس چال اور اس کے خطرناک نتائج سے اسی وقت  باخبر کیا تھا جب جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ہاتھوں بھڑکائی گئی عرب قومیت کی اگ نے عالم اسلام کو جھلسا دیا تھا اور عرب کے چند زر خرید قبائل کی مکر و ریا نے ناموس دین مصطفی کے ساتھ عثمانی خلافت کی بھی قبا چاک کردی تھی۔

سادگی اپنوں کی دیکھ اور وں کی عیاری بھی دیکھ

جو لوگ حالات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں وہ ان بیانات کی صرف ظاہری کراہیت سے ہی واقف ہو پاتے ہیں لیکن ذرا ٹھہر کر غور کرنے پر اندازہ ہو جائے گا  کہ  چاہے ترکی کے خلاف  سعودیہ اور اسرائیل کے بیانات می بڑھتی مماثلت ہو یو  یا  ترکی و صدر ترکی کے خلاف امریکہ کی موجودہ  دھمکیاں،   یہ بدلتے تیور در اصل  یورپ کی ایک اور گہری چال  کی ظاہری علامتیں ہیں جس کا مقصد  ہے مشرق وسطی کو اسرائیل کے لئے لقمہ تر بنا دینا۔  اس ایجنڈے کا ہدف یہ ہے کہ عرب قومیت کو ایک بار پھر  پرانے انداز میں جگا کر عالم اسلام کی کی تقسیم  نو کے ساتھ  مسلمانوں کے دینی و ملی اتحاد و یکجہتی کے امکانات کو بالکل ختم کر دیا جائے۔۔۔۔ افسوس کہ  اس وقت ایران و سعودی عربیہ دونوں اس سازش کا آسان مہرہ بنے ہوئے ہیں۔۔۔   عربوں کی اس نئی سوچ کا محرک پان عرب ازم کو بنایا گیا ہے جسے پان اسلام ازم کے مقابل نئے اہداف و مقاصد کے تحت  کھڑا کیا جا رہا ہے۔اس شر کی بنیاد شریف مکہ کے خانوادہ  اور بعض دیگر عربوں کو اپنا مہرہ بنا کر  انگریزوں نےجون  1916  میں ہی  ڈال دی تھی اور  ایک معاہدہ کے بموجب  ترک خلافت کے خلاف عرب بغاوت  کو عسکری مدد  فراہم کی تھی، اسی مسلح بغاوت کوArab Revolt یا "الثورة العربية الكبرى” كہا جاتا ہے۔

ایک طرف اسی مدت میں فرانس اور انگلینڈ اپنے درمیان عرب کو تقسیم کرنے کا معاہدہ  کر رہے تھے اور اس سمجھوتے (Sykes-Picot Agreement۔)  کا مقصد عرب ریاست کی بجائے عرب کو چھوٹی چھوٹی قومیتوں میں بانٹ کر اس کا حصہ بخرہ کرنا  تھا، تو دوسری طرف فلسطین   کو تحفتا  یہودیوں کو سونپنے کی سازش چل رہی تھی، یعنی حجاز سے شام تک  عرب کے پرزے اڑانے اور فلسطین کو تقسیم کر کے اس کی سر زمین پر یہودیوں کے لئے اسرائیل کے نام سے ایک وطن کی داغ بیل ڈالنے کا کام خبیث استعماری طاقتوں کے ذریعہ  تقریبا  ایک ساتھ اور ایک ہی وقت میں شروع کیا گیا۔۔۔ واضح رہے یہ تمام علاقے اس وقت عظیم عثمانی خلافت کا حصہ تھے۔ حجاز سے عراق تک کا خطہ درج بالا معاہدے  کے تحت ترکوں کے خلاف عرب بغاوت کی آگ بھڑ کا حسب منصوبہ تقسیم ہوا اور فلسطین کا خطہ 1917 میں بریطانیہ اورعالمی یہودی انجمنوں کے بیچ خفیہ بالفور سمجھوتہ کے تحت ترکوں کے احتاج کے باوجود (Balfour Declaration) یہودیوں کو دے دیا گیا۔۔۔بیت المقدس کے تعلق سے اقوام عرب 1967 میں جس وقت عرب قومیت کے خمار سے باہر آئیں اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی، ایک طرف ان عربوں نے اسراییل سے جنگ ہار کر اپنا رہا سہا بھرم بھی کھو دیا، دوسری طرف مغرب کی مسلط کردہ طوائف الملوکی اور عرب قومیت نے انہیں بہادر ترکوں سے دور کردیا۔ قومیت کی بنیاد پر  خطے کی نئی تقسیم  کا ہی اثر تھا کہ ان کے وہ  جفاکیش ترکی بھائی جو امتحان کی اس گھڑی میں ان کی مدد کو آسکتے تھے،  وہ نہیں آسکے  کیوں کہ عرب قومیت کی فصیلوں نے ان کی راہ پہلے ہی مسدود کردی تھی اور عرب بغاوت نے ان کی  کمر  پہلے ہی توڑ دی تھی۔ یہی وہ  اندھی عرب قومیت ہے جس کے مہلک نتائج سے بے پروا ہو کر اس وقت نئی آب و تاب کے ساتھ زندہ کیا جا رہا ہے۔

اس وقت حال یہ ہے کہ مصر سے سعودیہ تک تمام عرب ممالک میں عرب قومیت کا سبق ہر عرب بچے کو ذہن نشین  کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کی افادیت و فضیلت میں بڑے مقالے لکھے جارہے ہیں، قدیم کتابوں کو جدید طباعت سے آراستہ کیا جا رہا ہے، اور اس موضوع پر خود عربوں کے ذریعہ نئی کتابیں لکھوانے کا اہتمام ہورہا ہے ۔ اسی نوعیت کی ایک کتاب جس پر   انگلینڈوامریکہ کے معروف اخبارا ت میں بڑے شدو مد سے تبصر ے آئے تھے، انگلینڈ میں مقیم عرب پروفیسر عدید دعویشا
(Adeed Dawisha) کی کتاب "عرب قومیت بیسویں صدی میں "۔ ہے۔یہ تقریبا350 صفحات پر مشتمل ایک  مبسوط کتاب ہے، اس میں مصر سے حجاز تک عرب قومیت کے معالم  کا  تاریخی و علمی جائزہ لیتے ہوئے  اس کے فوائد پرروشنی ڈالی گئی  ہے اور ساتھ ہی اس کے مسقبل  کی  تصویرکشی  بھی کی گئی ہے۔ استدلال کی بنیاد مسخ شدہ تاریخ کے مفروضات پر رکھی گئی ہے، تجزیہ و تحلیل کا پیمانہ مشرق وسطی کے تعلق سے مغربی فکرو منصوبہ کو بنایا گیا ہے۔۔کتاب اصلاانگش میں ہے،اس کا پورا نام یہ ہے :

Arab Nationalism in the 20th Century: From Triumph to Despair.

اس كتاب میں  عربوں کو عرب قومیت کی جڑوں کو مضبوط کرنے  اور اسے نقصان پہنچانے والے عناصر کو کسی بھی حال میں پنپنے نہ دینے کی نصیحت کی گئی ہے۔

اسی طرح کا ایک مقالہ مطبوعہ (Critical Review, vol,22,2010, Issue: 1) (John Myhill) جسے معرروف مغربی اسکالر  جون مائیہل ” نے "عرب نیشنلزم کا اسلامی کرن”(THE ISLAMIZATION OF ARAB NATIONALIS )   کے عنوان سے لکھا ہے اور  عربوں کو عرب قومیت پر غالب آتی اسلامیت سے خوفزدہ کیا گیا ہے، اس قسم کے انگنت مقالات میں عربوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ ان کی بقا،بے آمیز عربیت میں ہے نہ کہ اسلامیت میں۔

  اس مختصر وضاحت  کے بعد اس نکتے کو یہاں ایک بار پھر یاد دلانا ضروری   ہے کہ جنگ عظیم کے بعد  عثمانی خلافت اور ترکوں کے خلاف یورپ نے عربوں میں قومیت کی بنیاد پر جو منافرت پیدا کی تھی اور جس نے ترک خلافت کو کمزور و منتشر کرنے کا کام کیا تھا اسے شام و عراق کی موجودہ خانہ جنگی کی آڑ میں بڑی عیاری سے دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے، یہ عرب قومیت نئے خدوخال اور نئے نعروں کے ساتھ ایک بار پھر ہر سطح پر سامنے آرہی ہے۔ ادب و صحافت کے ذریعہ اسے ہوا دی جا رہی ہے۔ حالانکہ عربوں اور تمام مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جنگ عظیم کی کوکھ سے نکلی عرب قومیت عالم اسلام کے لئے اتنی ہی خطرناک ہے جتنی جدید لادینیت یا مشرق وسطی میں اسرائیل کی بالادستی۔

اس کا احساس بھی کم ہی لوگوں کو ہے کہ  مقاصد و نتائج کے لحاظ سے عرب قومیت اور اسلام دشمن صہیونیت دونوں ایک ہی سوچ کے دو الگ الگ پہلو ہیں۔اس عرب قومیت  کی چیرہ دستیوں اور وحدت اسلامی پر لگائے گئے اس کے گہرے زخموں نے  نظام  خلافت اور عالم اسلام کو جو نقصان پہنچایا تھا یہ امت اج بھی اس کے اثرات سے باہر نہیں آ سکی   ہے، یہی وجہ ہے کہ دشمن اس آزمودہ نسخے کو ہمارے خلاف ٹھیک اسی طرح ایک بار پھر آزما رہا ہے اور مزید  آزمانے کی تیاریاں کر رہا ہے، جس طرح عثمانی خلافت کے خاتمے سے پہلے اس نے کی تھی۔۔۔۔۔۔ علامہ اقبال نے اس وقت بڑی دردمندی سے اس مرض کے مہیب و مہلک  نتائج سے امت کو آگاہ کیا تھا لیکن آج عالم اسلام میں وہی ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہیئے، ۔۔۔۔۔۔ آئیے علامہ کے ان مصرعوں پر ایک بار نظر ڈال لیں اور  امت کو ان نئی سازشوں کے شرور  سے محفوظ رہنے کی دعا کریں، جس کا مسلم حکام و ملوک پوری طرح  مہرہ بنے ہوئے ہیں۔

ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک
نوجواں اقوامِ نَو دولت کے ہیں پَیرایہ پوش

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیؐ
خاک و خُوں میں مِل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش

آگ ہے، اولادِ ابراہیمؑ ہے، نمرُود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصُود ہے

مشرق وسطی کے تعلق سے صہیونی سازشوں کی  ایک اہم شق یہ  ہے کہ عرب کی سیکورٹی ایجنسیز پر ان اقوام کے خیر خواہ کے طور سے  صہیونی دسیسہ کاروں کو مسلط کردیا جائے ۔ان دشمنان اسلام کا یہ باہمی مشورہ ہے کہ ایک بار ان خفیہ اداروں کو وہ اپنے اعتماد میں لے لیں پھر جو وہ چاہیں گے یہ ملوک وہی کریں گے،  ہم کہیں گے حماس و آزادی فلسطین کا ساتھ دینے کا مطلب ہے عرب قومیت کو کمزور کرنا  تو وہ اس سے نہ صرف فورا الگ ہو جائیں گے بلکہ اپنے محبوب مجاہدین آزادی کو دہشت گرد کہنے سے بھی نہیں چوکیں گے،  ہم  کہیں گے صدر مصر محمد مرسی کی منتخب جمہوری حکومت کو ختم کرنا اور صہیونیت نواز عبد الفتاح سیسی کو ہیرو بنا کر اس کے تمام جبرو ظلم کی حمایت کرنا ، قطر کو اسرائیل سے مزاحم اخوان المسلمین و حماس کی حمایت کی پاداش میں الگ تھلگ کرنا ان کی اپنی بادشاہت  کو مضبوطی و تحفظ فراہم کرے گا اور یہ ان کے اپنے محفوظ مستقبل کے حق میں ہے تو یہ احمق وہی قدم اٹھائیں گے جس کا ہم صہیونی انہیں مشورہ دیں گے۔

افسوس  صد افسوس کہ آج ہمارے بیشتر عرب حکمراں اسی ابلیسی جال میں پھنس چکے ہیں، اور ان کے لئے”۔ جو تھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا” ۔ اللہ تعالی اسلام و اہل۔اسلام کی حفاظت فرمائے اور انہیں اعدائے اسلام کے مکر و فریب  کو سمجھنے کی صلاحیت دے اور اس سے محفوظ رہنے کی راہ سجھائے۔

تبصرے بند ہیں۔