آسمانی آلہ آزمائش اور ہم

اللہ بخش فریدی

انبیائے کرام علیہ السلام کی ہر امت کو ایسے امتحانات سے گزرنا ہوتا ہے جن میں ان کے جذبہ ایمانی اور ان کے صبر و شکر کی آزمائش ہوتی ہے اور اس طرح ہوتی ہے کہ وہ ہل ہل جاتے ہیں ۔ اور تو اور نبی بھی اس وقت پکار اٹھتے ہیں کہ کب آئے گی اللہ کی مدد؟یہ ایسا امتحان ہوتاہے کہ رسولوں کو بھی بظاہر حالات مایوسیوں میں گھیر لیتے ہیں ۔ دراصل اسی وقت کامیابیوں کی بنیاد پڑتی ہے، مسلسل کامیابیوں اورکامرانیوں کا دور شروع ہوتا ہے۔ آزمائش کی یہ بھٹی ہی امت کو دنیا میں عزت ووقار، عظمت و سربلندی عطا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنائیتوں کا حقدار بناتی ہے۔

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰاتِط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اَولٰٓءِکَ عَلَیْہِمْ صَلٰٓوتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَo (البقرۃ 155:2)

’’اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے ( دشمنوں کے مقابلہ میں کمزور معیشت) سے، اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا دو صبر کرنے والوں (ثابت قدم رہنے والوں ) کو۔ کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کا رب درود بھیجتا ہے اور رحمت، اور یہی لوگ راہ پر ہیں ۔ ‘‘ پھر فرمایا

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَo ( التوبہ 24:)

’’ تم فرماؤ ! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ چیزیں جن کے نقصان کا تمہیں اندیشہ ہے اور تمہارے پسند کے مکان، یہ سب چیزیں اگر تمہیں اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺاور ان کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو راستہ دیکھو (انتظار کرو) یہاں تک اللہ اپنے (بد ترین عذاب) کا حکم بھیجے، اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دکھاتا۔ ‘‘

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوا مِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ‘ مَتٰی نَصْرُاللّٰہِط اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌo (البقرۃ 214:2)

’’کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم سے اگلوں کا سا ماجرا پیش نہ آیا کہ انہیں سخت سختی اور شدت پہنچی اور ہلا ہلاکر رکھ دئیے گئے یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے ایمان والے پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ؟ سن لو، بیشک اللہ کی مدد قریب آن پہنچی ہے۔ ‘‘

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّقُوْلُوْآ اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَo

’’کیا لوگ اس گمان میں ہیں کہ اتنی سی بات پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے، اوران کی آزمائش نہیں ہو گی، اور بیشک اللہ نے ان سے اگلوں کو جانچا (ان کی آزمائش کی) تو اللہ ضرور (تمہاری بھی آزمائش کرے گا )دیکھے گا سچوں کو اور ضرور دیکھے گا جھوٹوں کو۔ ‘‘ (العنکبوت 2)

اَمْ حَسِبْتُمْ اِنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ o

’’کیا اس گمان میں ہوکہ جنت میں چلے جاؤ گے ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں (جہاد کرنے والوں ) کاامتحان نہ لیا، اور نہ صبر کرنے والوں کی آزمائش کی۔ ‘‘ (العمران 142:3)

وَلَنَبْلُوْنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ وَنَبْلُوَا اَخْبَارَکُمْ o

’’اور ہم ضرور تمہیں جانچیں گے یہاں تک کہ دیکھ لیں گے تمہارے جہاد کرنے والوں کو اور صابروں کو اور تمہاری خبریں لیں گے (کہ تم میں سے کون اطاعت واخلاص کے دعوے پر قائم رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے )۔ ‘‘ (محمد 31:47)

مَاکَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَالْخَبِیْثَ مِنَ الْطَّیِّبِط

’’اللہ عزوجل مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑنے والا نہیں جس پر تم ہو، جب تک جدا نہ کر دے گندے (منافق کو ) ستھرے سے (مخلص مومن ) سے۔ ‘‘ (العمران 179:3)

لَتُبْلَوَنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ مِنْقَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا ط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِن
ذِِٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (العمران 186:3)

’’بیشک ضرور تمہاری آزمائش ہوگی ( کہ تم میں سے کون اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے، مصائب اور تکالیف برداشت کرتا ہے اور کون اس سے جی چراتا ہے ) تمہارے مال اور تمہاری جانوں میں ، اور بیشک ضرور تم اگلے کتاب والوں ( یہود ونصاریٰ )اور مشرکوں سے بہت کچھ سنو گے اوراگر تم صبر کرو گے اور ثابت قد م رہو گے (تقویٰ اختیار کرو گے ) تو یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔ ‘‘

تاریخ گواہ ہے کہ ہر قوم آزمائش کی بھٹی سے ضرور گذری ہے۔ قدرت نے نوازنے سے پہلے، رفعتیں عطا کرنے سے پہلے ضرور ان کا امتحان لیا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں ؟ کتنے ثابت قدم ہیں ؟ کتنے اپنے مقاصد کے حصول پر پختہ و کار بند ہیں ؟ کہیں مصیبتیں ، تکلیفیں اور سختیاں دیکھ کر پھر جانے والے تو نہیں ؟کہیں ہمت اور حوصلہ ہار جانے والے تو نہیں ؟ کہیں شدت سے گھبرا کر باطل سے مفاہمت و سمجھوتہ کر کے چین سے بیٹھ جانے والے تو نہیں ؟قدرت نے ہر قوم کو شدید آزمائش میں ڈال کر ضرور جانچا ہے، ضرور پرکھا ہے، ضرور ان کی آزمائش کی ہے۔ اگر وہ ثابت قدم رہے تو ان پر اپنے انعام واکرام کی بارش کی اور انہیں قوموں کی صفوں میں عزت و وقار، عظمت و سربلندی عطا کی۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں مٹھی بھر باہمت، باحوصلہ مسلمان ہر آزمائش میں پورے اترے، ہر مصیبت کا جوانمردی سے مقابلہ کیاتو خدا نے انہیں ہر میدان میں سرخرو کیا، ہر معرکہ میں کامیابی عطا فرمائی اور انہیں قوموں کی صفوں میں سربلند کیا اور اپنی زمین کا وارث بنایا۔ شرق تا غرب، شمال تک جنوب ہمارا راج تھا اور ہمارا سکہ چلتا تھا، چار سو ہمارا رعب اور دبدنہ تھا۔

آج ہم مسلمان تعداد میں اربوں ہونے کے باوجود حوصلہ شکن ہیں ، ذرا سی مصیبت آتے دیکھ کر گھٹنے ٹیک دینے والے ہیں ۔ ہم جیسے جیسے تعداد میں بڑھتے گئے مغلوب ہوتے گئے، نہ ہم میں وہ ہمت رہی، نہ وہ حوصلہ رہا، نہ وہ پختگی رہی، نہ وہ اخوت و بھائی چارہ رہا، نہ ہماری اپنی صفوں میں اتحاد رہا۔ سب مل کر دشمن کا مقابلہ کیا کرتے جب یہ اپنی صفوں میں اتحاد کھو بیٹھے اور ایک دوسرے کے دست و گریباں ہو گئے۔ ہم اغیار کی ہر سازش کا شکار ہوئے، دشمن کے سب ہتھکنڈے ہم پر کار گر ثابت ہوئے اور ہماری قوت و طاقت کو بہا لے گئے۔ آج ہم دنیا میں ہر جگہ ذلیل و رسواء ہیں ، خواری و ناداری ہم مسلط ہے۔ دنیا میں چار سو جس سمت نظر دوڑائیں ہم مسلمان ہی ذلت و رسوائی کا شکار ہیں اور ظلم و جفاکی کی چکی میں پس رہے ہیں۔

ہمارا یہ حال کیوں نہ ہوتا جب ہم نے اپنے اسلاف سے منہ موڑ کر اغیار کی طرف دیکھا، ضمیر فروش بنے، اپنے اسلامی کلچر، تہذیب و تمدن، اصول و روایات سے غداری کی اور اغیار کی تہذیب و کلچر کو اپنایا۔ آج ہمارے اسلامی معاشرہ میں زندگی کے ہر شعبہ میں اغیار کا کلچر غالب نظر آتا ہے خواہ وہ معاشرت و رہن سہن ہو، لباس ہو یا واضح قطع، یا ظاہری شکل و صورت۔ جب ہم نے اپنے اسلاف سے منہ موڑ کر اغیار کی طرف دیکھا تو انہوں نے ہمیں اپنے ہر رنگ میں رنگ لیا، بلکہ ہم تقلید و نقل میں اخلاقیات کی سب حدیں پار کر کے ان سے بھی آگئے۔ ہم نے استقامت و ثابت قدمی کا دامن چھوڑ دیا۔ ہم یہاں تک ڈرپوک ہو گئے کہ آج ہم اغیار کے ڈر سے اپنے ایک اہم دینی رکن جہاد، سعی، کوشش و ثابت قدمی کا نام لینے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں دشمن کی طرف سے ہم پر کوئی مصیبت نہ آ جائے۔

آج ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کی باتوں کو اس دور میں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ہمارے صدر صاحب جنرل مشرف نے تو ہمت کرکے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’جہاد کا نام لینے سے امریکہ ہم پر چڑھ دوڑے گا۔ ‘‘ کیا تمہارے ماٹو میں جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے؟کیا جہادسے انکار کرنے سے، اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں ، ماؤں بہنوں ، بیٹیوں کی مدد نہ کرنے سے اللہ عزوجل واحدالقوی القہار تمہیں معاف کر دے گا؟کیاوہ تم پر نہیں چڑھ دوڑے گا ؟‘‘

ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ عزوجل کی نسبت دجالی قوت امریکہ کا خوف زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مظلوم کی بجائے ظالم کاساتھ دیا اور دنیا سے ایک امارت اسلامی کی بربادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ صرف اس لیے کہ انہوں نے آج سے چودہ سو سال پہلے کی خلافت راشدہ کو جلا بخشی تھی اور اپنے ملک میں ایک حقیقی اسلامی فلاحی نظام کیلئے کوشاں تھے جو امریکہ اور اس کے حلیفوں کو گوارہ نہ تھی۔ اے ظالمو! بتاؤ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ۱۱ستمبر کے واقعات میں ملا عمر کا ہاتھ تھا یا اسامہ بن لادن کا ؟ صدام پر جنگی جرائم اور کیمیائی ہتھیاروں کا الزام لگایا گیا، کیا عراق پر جنگ صدام نے مسلط کی یابش لعین نے، سامراجی و طاغوتی گماشتوں نے؟اور پھر وہاں سے کتنے کیمیائی ہتھیار ملے، لیبیا سے خطرناک ہتھیاروں کا کتنا ذخیرہ ملا جن کا بہانہ بنا کر عراق و لیبیا کو روند ڈالا؟ عراق و لیبیا کے ہتھیار دنیا کے کیلئے خطرہ تھے اور جو ان کے گماشتوں کے پاس انبار لگے ہیں کیا وہ دنیا کیلئے خطرہ نہیں ہیں ؟

آج کوئی ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنے کیلئے تیار نہیں ، سب خدا کے خوف سے زیادہ سر کش شیطان، بدمست ہاتھی سامراج کے خوف میں پس رہے ہیں ۔ قوم کے ٹکڑوں پر پلنے والے بزدل حکمران آج قوم کو آنکھیں دکھا رہے ہیں ۔ ہمیں امریکہ سے نہیں بلکہ اس کی پالیسیوں سے نفرت ہے جو مسلمانوں کے خون کا پیاسا بنا ہوا ہے اور نام نہاد دہشت گردی کے الزام میں بے گناہ مسلمانوں کاقتل عام کر رہاہے۔

تبصرے بند ہیں۔