تپتے صحرا میں ایک گھنا درخت رخصت ہوا

معز الحق

عشائیہ کے وقت اپنے کام میں مصروف تھا کہ اچانک ریاض بھائی کے کال نے بے چین کردیا، زباں سے اناللہ واناالیہ راجعون ادا ہونے لگا۔ پاس موجود ساتھیوں کو خبر دیتے ہوئے مولانا کے ساتھ بیتے لمحات زہن میں منقش ہوگئے۔

         مولانا جلال الدین عمری صاحب سے میری پہلی تفصیلی ملاقات2019 کے موسم سرما میں ہوئی پھر مولانا سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جب کبھی موقع ملتا میں مولانا کے گھر پہنچ جاتا گھنٹوں بیٹھا رہتا، شروع میں رفیق شاہد بھائی ہوا کرتے تھےپھر اکیلے ہی جانے لگا۔ اتفاق سے شاہد صاحب خواتین کے حقوق کے تعلق سے مولانا پر کام کر رہے تھے۔ اس میں ایک باب مولانا کی شخصیت تھی جس پر شاہد صاحب سوالات بناتے اور میں مولانا سے دریافت کرتا۔ مولانا فرماتے تھے کہ پہلے کبھی کسی کے سامنے اتنی تفصیل سے باتیں نہیں رکھا جو آپ دونوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتا رہا ہوں۔ مولانا اس کام سے بہت خوش ہوتے اور اس خوشی کا اظہار متعدد مرتبہ استاد رضی الاسلام صاحب و استاد انیس الرحمن صاحب سے  کرتے تھے اور کہتے کہ "آپ کے شاگرد بڑے کام ہے-” وہ تمام معلومات شاید صاحب جمع کر رہے تھے اور ہمارا اکیڈمی میں آخری semester تھا اس میں استاد خان یاسر کے تقریباً ہر ہفتے لمبے لمبے Assingment  مزید استاد حارث کے روزانہ دو سے تین گھنٹے عربی ادب و قرآنی متن کو حل کرنا الفاظ و معانی پہلے عربی سے اردو پھر عربی سے عربی پورا وقت قاموس کے نام ہوجاتا ان سب کے علاوہ مزید7 مضامین اور پڑھنے تھے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ساتھ میں Dissertation بھی لکھنا تھا جس میں میرا عنوان  تصور سنت پر تھا، جس کی تیاری کے لیے عربی کی قدیم کتابوں کو پہلے تو تلاش کرنا پھر اسے سمجھتے ہوئے پڑھنے کی کوشیش کرتے رہنا۔۔۔۔۔۔کل ملا کر بہت مصروفیت کا زمانہ تھا، جب شاہد صاحب مولانا پر لکھ رہے تھے  تو  میں نے مزید لکھنے کی کوشش نہیں کی افسوس!! اور وہ سب زہن تک ہی محدود رہا بعد میں مولانا سے جب بھی کسی نے پرسنل انٹرویو لینے کی بات کہی آپ نے یہ کہے کر منع کردیا کہ میں بہت تفصیل سے آپ نے شاگرد کو لکھا چکا ہوں اب بار بار وہی سب باتیں نہیں دہرانی ہیں۔ شاہد صاحب گھر جانے کے بعد گھریلوں مصروفیات میں اس قدر منہمک ہوے کہ وہ کام ادھورا رہے گیا۔

       اپنا کورس مکمّل کرنے کے بعد دوبارہ دہلی آیا تو پھر مولانا سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا، کبھی زیادہ وقت ہوجائے تو مولانا فون پر کہتے "کیوں بھائی آپ کافی دنوں سے آئے نہیں”  میں جلدی سے تشریف لے جاتا سلام دعائیں اور مصافحہ کے بعد مولانا فرماتے "آپ کی باتیں اور سوال  اچھے لگتا ہے” مختلف موضوعات پر سوال کرتا جس پر مولانا مختصراً روشنی ڈالتے اور اس موضوع پر مختلف کتابیں دیکھنے کا کہتے مولانا مجھے زیادہ سے ذیادہ مطالعہ کرنے کی طرف اس طرح سے متوجہ کرتے، مُسلسل یکسوئی سے کام کرنے کی تاکید کرتے۔ عمرآباد سے فراغت کے بعد مولانا نے تصنیف وتالیف کا جب ارادہ کرلیا تو مستقل اسی میں لگے رہے ابتداء میں بہت سی جماعت کی ذمہ داریاں آپ پر ڈالی جاتی آپ صاف منع کرتے یہاں تک کے فراہی اسکول کے بڑے عالم مولانا اختر احسن اصلاحی رحمۃاللہ علیہ نے مولانا کی ابتدائی تحریریں دیکھی تو اس نوجوان قلم کار کو اپنا شاگرد بنانے کا سوچا اور امیرِجماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی رحمتہ اللہ سے خواہش کا اظہار کیا، جب یہ بات مولانا عمری صاحب کو معلوم ہوئی تو آپ نے اپنے مقصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے انکار کردیا، مولانا عمری جانتے تھے اگر میں اپنا کام چھوڑ کر چلاجاتا ہوں تو پھر اُدھر کا ہی ہو جاؤ گا ، میں نے ایک کام طے کر رکھا ہوتو پہلے وہی کرنا ہے۔ اس طرح سے استقلال کم ہی دیکھنے میں آتا ورنہ مشہور اساتذہ کا کون نوجوان شاگرد نہیں ہونا چاہتا! مولانا کو بہت سی قربانیاں دینی پڑی طرح طرح کی آزمائشوں کا سامنا صبر واستقامت سے کرتے رہے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔ مجھ سے کہتے "بیٹا نوجوان میں قربانی دینے کا جذبہ کم ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے بزرگ نے کیسی کیسی قربانیاں دیں!” مولانا مجھے لکھنے پر بھی کافی زور دیتے۔ میں نے جب عہد مکی کے حوالے سے یٰسین مظہر صاحب پر کام کرنے کا بتایا تو بہت خوش ہوئے مزید طبعیت ناساز ہونے کے باوجود یٰسین صاحب اور ادرہ تحقیقات اسلامی کے تعلقات، مولانا کے ذاتی روابط وغیرہ پر خوب باتیں بتائی ساتھ اردو سیرت نگاروں کے منہاج پر مختصراً روشنی ڈالتے رہے۔ تحریر کے حوالے سے میں نے ایک مرتبہ ڈاکٹر رضی الاسلام صاحب، اجمل فاروق صاحب اور خان یاسر صاحب کا نام لیا اور کہا کہ ان سے اپنی تحریر چیک کرتا ہوں تو مولانا بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے "اگر مسلسل محنت کرتے رہے اور ان حضرات سے تصحیح کراتے رہے تو آگے تک جائے گے” مزید کہاں” تابش صاحب  بتا سکتے تو بہت اچھا رہے گا”۔ مولانا سے بات جب شروع ہوتی تو آزان کی آواز پر ہی ختم ہوتی۔

       مولانا سے بے تکلفی اتنی بڑھ گئی کہ ایک سنجیدہ مزاج بزرگ کو اپنے شوخی انداز سے مسکراہٹ سے ہنسی تک لے آتا، مولانا مجھ سے لطیف مذاق بھی کرتے۔ ان تمام باتوں کے دوران دادی جان (مولانا کی اہلیہ) جب حیات تھی تو تاکید سے کہتی "بچوں کو کچھے کھلائے گے بھی یہ صرف باتیں ہی کرتے رہے گے "اور خود کھانے کے لیے بہت سی چیزیں لے آتے۔ دادی کے انتقال کے بعد مولانا اکثر کہا کرتے تھے جب آپ آتے تھے تو میری اہلیہ بہت خوش ہوا کرتی تھی۔ دیگر لوازمات کے ساتھ اگر نمکین رہے تو مولانا میرے ذوق کے مطابق کہتے یہ تو ”تمہارے کے شایانِ شان ہے۔” اس عمر میں بھی مولانا کے سر کے بال کالے اور بہت مضبوط تھے جس کے تعلق سے مولانا نے کسی صاحب کے دریافت کرنے پر کہاں تھا ” میری داڑھی میرا ظاہر ہے اور سر باطن” داڑھی سفید تھی جو کے بوڑھے ہونے کی ایک علامت ہے اور سر کے بال کالے مطلب اندرون میں نوجوان ہے۔ابھی کچھ دن پہلے  طبعیت جب ذیادہ ناساز ہوئی تو  آپ کو ہسپتال منتقل کردیا گیا ،وہاں جب مولانا کی خیریت دریافت کرنے گیا تو مولانا وہی بلند آواز سے میری خیریت پوچھنے لگے کچھ دیر بعد رخصت کرنے لگا تو  کہنے لگے "بیٹے معز تمہارے لیے تو دل سے دعا نکلتی ہے” اس کے بعد بھی مولانا کی خیریت دریافت کرنے اسپتال چلا جاتا جمعرات کے دن جانا تھا، لیکن کسی وجی سے نہیں جا سکا پھر جمعہ کے دن بھی ملاقات نہیں اور پھر آپ کی یہ خبر سنا عجیب سی کیفیت طاری رہی۔

      قحط الرجال کے اس زمانہ میں مولانا کی مثال نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ ملت اسلامیہ کے لیے ایک گھنے سائے کی طرح تھی جس کے سائے سے راہ حق کے بے شمار مسافر مستفید ہوئے۔

اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ مولانا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، عالم اسلام کو مولانا کا نعم البدل عطا کرے، آمین۔

تبصرے بند ہیں۔