شہر خموشاں کے مکیں

حضرت مولانا سید جلال الدین عمری رحمۃ اللّٰہ علیہ

ابو سفیان بن محمد مہراللقاء

(دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)

آہ ہم سے ہوگئے رخصت ہمارے پاسباں !

مولانا سید جلال الدین عمری ایک طویل عرصے سے علیل چل رہے تھے ، کل ٢٦/ اگست ٢٠٢٢ء کو دیر شام تقریباً پونے نو بجے ٨٨ سال کی عمر میں ” الشفا ” اسپتال میں اپنی آخری سانس لی اور اپنے تمام عقیدت مندوں اور اعزاء و اقارب کو سوگوار کرگئے، نماز جنازہ آج صبح دس بجے مرکز جماعت اسلامی ہند کیمپس میں ہوئی اور تدفین شاہین باغ قبرستان میں عمل میں آئی، اللہ مولانا کی قبر کو نور سے بھر دے _

مولانا مرحوم بهت ہی خردنواز ، فراخدل ، سادہ لوح ، پاک طینت اور شریف الطبع انسان تھے ، آپ کا شمار عصر حاضر کے بڑے عالم دین میں ہوتا تھا ، آپ ایک بلند پایہ مصنف ، صاحب نظر محقق ، زمانہ شناس داعی اور ہمہ جہت صلاحیتوں کی حامل شخصیت تھے ، آپ جماعت اسلامی کے سابق امیر اور تحریک کے اہم ستون تھے آپ کا وصال اس قحط الرجال کے دور میں بڑا خلا چھوڑ گیا۔

مولانا مرحوم کی ولادت ١٩٣٥ء میں جنوبی ہند تمل ناڈو کے ضلع شمالی آرکاٹ کے ایک گاؤں پتّگرم میں ہوئی ، والد صاحب کا نام سید حسین تھا ، آپ نے ابتدائی تعلیم گاؤں ہی کے اسکول میں حاصل کی ، پھر عربی تعلیم کے لیے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں داخلہ لے کر ١٩٥٤ء میں فضیلت کا کورس مکمل کیا، اسی دوران مدراس یونیورسٹی کے امتحانات بھی دیے اور فارسی زبان و ادب کی ڈگری ” منشی فاضل ” حاصل کی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے (اونلی انگلش) پرائیوٹ سے پاس کیا ، اس کے بعد جماعت اسلامی ہند کے مرکز رام پور آکر اس کے شعبۂ تصنیف سے وابستہ ہوگئے۔

 آپ ١٩٨١ء سے ٢٠٠١ء تک ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے سکریٹری ، اس کے بعد اس کے صدر بنے ، آپ سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی کے مدیر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی سپریم کونسل کے صدر ، جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ اور سراج العلوم نسواں کالج کے منیجنگ ڈائریکٹر اور ١٩٩١ء سے ٢٠٠٧ء تک جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر اور اس کے بعد اپریل ٢٠١٩ء تک اس کے امیر بھی رہ چکے ہیں ، طویل عرصہ سے جماعت کی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔

مولانا مرحوم کا شمار عالم اسلام کے ان چند ممتاز علماء میں ہوتا ہے جنھوں نے مختلف پہلوؤں سے اسلام کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور اسلام کی تفہیم و تشریح کے لیے قابل قدر لٹریچر تیار کیا ہے ، اسلامیات کے مختلف گوشوں ” عقائد ، قرآنیات ، علوم سیرت ، انسانی حقوق ، عصری مسائل اور اسلامی معاشرت ” پر آپ کی ٦٠ سے زائد تصانیف موجود ہیں ، جن میں سے ” اسلام کی دعوت "، ” عورت اور اسلام "، ” عورت اور اسلامی معاشرہ ” ، ” عائلی زندگی ” اور ” جماعت اسلامی ہند کی خدمات”، آپ کی قابل قدر تصانیف ہیں۔

اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی خدمات کو شرف قبولیت نوازے ، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے ، لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور تحریک اسلامی کو ان کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے، آمین۔

لےکے حاصل ؔ گر کبھی فانوس ڈھونڈے دہر میں

پر نہ پائے گا کبھی بھی ان سا یکتائے زماں

تبصرے بند ہیں۔