عالِم کی موت عالَم کی موت ہے!

  مولانا سید جلال الدین عمری

ندیم احمد میر

    مولانا سید جلال الدین عمری صاحب(ولادت:1935) دورِ حاضر کے ایک جید عالم دین، عظیم محقق اور اسلامی مفکر خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ ان چیدہ افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے ساری کشتیاں جلا کر ہی تحریکِ اسلامی میں داخلہ لیا تھا اور تب سے آج تک برابر علم کے نور سے ملتِ اسلامیہ کو منور کرتے رہے۔ ان کی تحریروں نے بہت سارے نوجوانوں کے اندر ایک ہمہ گیر انقلاب بپا کیا اور انہیں ہمہ وقت کارکن بنا کے ہی رکھ دیا۔ مولانا عمری صاحبؒ کی مختلف موضوعات پر تقریباً چار درجن تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان میں تجلیات قرآن، اوراقِ سیرت، معروف و منکر، غیرمسلموں سے تعلقات اوران کے حقوق، خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں، احکامِ ہجرت و جہاد، انسان اوراس کے مسائل، صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات، اسلام اور مشکلاتِ حیات، اسلام کی دعوت، اسلام کا شورائی نظام، اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور، انفاق فی سبیبل اللہ، اسلام انسانی حقوق کا پاسباں، کم زور اور مظلوم اسلام کے سایے میں، غیراسلامی ریاست اور مسلمان، تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث جیسی علمی تصانیف مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی متعدد کتابوں کے ترجمے عربی، انگریزی، ترکی، ہندی، ملیالم، تلگو، مراٹھی، گجراتی، بنگلہ، اور تمل میں بھی ہو چکے ہیں۔ اسلام کا معاشرتی نظام ان کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے۔ عورت اسلامی معاشرے میں، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، عورت اوراسلام، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں اور اسلام کا عائلی نظام جیسی وقیع کتابیں اس کا بہترین ثبوت پیش کرتی ہیں۔

    مولانا عمری صاحبؒ کے چہرے پر نظر پڑتے ہی یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ دنیا کے حریص کے بجائے آخرت کے عاشق ہیں۔ اپنی شعلہ بیانی میں بھی وہ اکثر آخرت کی تیاری کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرتے تھے۔ اپنے دروس میں اکثر کہا کرتے تھے کہ امت مسلمہ سوئی ہوئی ہے اسے جاگ کر اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئیے۔ امت کے شیرازہ کو بکھرنے والے علماء سوء کو وہ اپنے بیانوں میں جنجھوڑتے تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی دین قائم کرنے کی جدوجہد میں گزاری اور زندگی کے آخری سانس تک لوگوں کو اپنی ایمانی حرارت سے فیضیاب کرتے رہے۔ ان کی سادگی سے طبیعت بہت متاثر ہوتی تھی۔ واقعتاً ملتِ اسلامیہ ایک عظیم راہنما سے محروم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمایے اور پسمانگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ آمین

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

  ذاتی طور پر مجھے جب سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی وفات کی خبر موصول ہوئی تو مجھے ایک جھٹکا سا لگ گیا۔ میں اپنے گریبان میں جھانک کر اندر ہی اندر سوچنے لگا اور موازنہ شروع کیا تو کچھ وقفہ کے بعد میں بہت شرمندہ ہوا اور سوچا کہ کہاں ہمارے علماء حق کا غیر متزلزل یقین، پہاڑ جیسی استقامت، دریا جیسی روانی، زمین جیسی حِلم، سمندر جیسی گہرائی، آسمان جیسی وسعت اور بلندی، شاہین جیسی پرواز اور کہاں ہم کہ بس دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہمارے دل مختلف خواہشوں اور آرزوؤں سے لبریز ہیں۔ ہمارے دماغ پر مختلف مصلحتوں کا پہرہ ہے اور ہمارا ہر قدم کئی قسم کے اندیشوں سے گراں بار ہے۔ ہم اللہ کے دین اور اس کے قرآن سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ وہ احساسات ہیں جنہیں ذہن میں رکھ کر ہمیں بے چین ہونا چاہئیے۔ مولانا عمری صاحبؒ کی وفات پر مجھے نبی اکرمﷺ کی ذیل کی دو حدیثیں ذہن میں گردش کرنے لگے، جنہیں پڑھ کے انسان ایک خوف سا محسوس کرکے احتسابِ نفس پر مجبور ہو ہی جاتا ہے:

”نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا نیک لوگ یکے بعد دیگرے گزر جائیں گے اس کے بعد جَو کہ بھوسے یا کھجور کے کچرے کی طرح کچھ لوگ دنیا میں رہ جائیں گے جن کی اللہ پاک کو کچھ ذرا بھی پروا نہ ہوگی۔ “(بخاری:6434)

”حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ  فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ(پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ “(بخاری:100)

   تقریباً ہر روز ہم اپنی آنکھوں کے سامنے جنازے کا مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے ہمیں بُری طرح قابو کر کے اپنے جال میں پھنسایا ہے۔ ہم جیسے بے عمل مسلمانوں کو قرآنِ پاک ان الفاظ میں مخاطب ہے:

يٰۤاَيُّهَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الۡكَرِيۡمِ۞(انفطار:6)

”اے انسان! تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے اپنے ربّ کریم کے بارے میں۔ “

    ظاہر ہے یہ کام شیطان لعین ہی کرتا ہے۔ وہی انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں دھوکے میں ڈالتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں بنی نوع انسان کو باربار خبردار کیا گیا ہے، مثلاً سورة لقمان میں فرمایا:{وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَـرُوْرُ۔ }کہ وہ بڑا دھوکے باز تم لوگوں کو اللہ کے بارے میں کہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے! لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام تر تنبیہات کے باوجود اکثر انسان شیطان کے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے شیطان مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف چالیں اور حربے آزماتا ہے۔ مثلاً ایک دیندار شخص کو اہم فرائض سے ہٹانے کے لیے وہ نوافل اور ذکر و اذکار کا پُرکشش پیکج پیش کرسکتا ہے کہ تم اقامت دین اور دوسرے فرائض دینی کا خیال چھوڑو اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے راتوں کو جاگنے اور تہجد کی پابندی پر توجہ دو۔ عام مسلمانوں کے لیے اس کی بہت ہی تیر بہدف چال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفورٌ رحیم ہے، وہ کوئی خوردہ گیر نہیں کہ اپنے مومن بندوں کو چھوٹی چھوٹی خطائوں پر پکڑے۔ وہ تو بہت بڑے بڑے گناہگاروں کو بھی معاف کردیتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بےعملی کی سب سے بڑی وجہ شیطان کی یہی چال ہے، بلکہ اس دلیل کے سہارے اکثر لوگ گناہوں کے بارے میں حیران کن حد تک جری اور بےباک ہوجاتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ ہم میں سے ہر ایک کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ اے اللہ کے بندے! تمہاری بےعملی کی وجہ کہیں یہ تو نہیں ہے کہ شیطان نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی شان غفاری کے نام پر دھوکے میں مبتلا کردیا ہے؟(بیان القرآن)

      قرآنِ پاک میں دوسری جگہ بعینہٖ ہمیں ان الفاظ میں متنبہ کیا گیا ہے:

يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ۞(فاطر:5)

”اے لوگو! اللہ کا وعدہ سچا ہے تو دیکھو دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ ہی تمہیں دھوکے میں ڈالے اللہ کے بارے میں وہ بڑا دھوکے باز۔ “

    لفظ”غرور“اگر”غ“کی پیش کے ساتھ ہو تو مصدر ہے اور اگر”غ“کی زبر کے ساتھ فَعول کے وزن پر ہو تو یہ مبالغے کا صیغہ ہوگا۔ چناچہ”الـغَرُور“کے معنی ہیں بہت بڑا دھوکے باز، یعنی ابلیس لعین جو اکثر لوگوں کو اللہ کے بارے میں اس طرح بھی ورغلاتا ہے کہ اللہ بڑا رحیم، کریم، شفیق اور مغفرت کرنے والا ہے۔ تمہیں کا ہے کی فکر ہے؟تم نے کون سے ایسے بڑے گناہ کیے ہیں۔ اور یہ سودی کاروبار! اس کا کیا ہے؟یہ تو سب کرتے ہیں۔ اور وہ فلاں غلط کام اگر تم سے ہوگیا ہے تو کیا ہوا؟اللہ غفورٌ رحیم ہے، وہ تو بڑے بڑے گناہگاروں کو بخش دیتا ہے، چناچہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، تم جو کچھ کر رہے ہو کرتے جاٶ اور جس راستے پر چل رہے ہو چلتے جاٶ!

 اللہ کی شان کریمی اور صفتِ غفاری کے نام پر انسان کو دھوکے میں ڈالنے کا یہ ایک ابلیسی حربہ ہے جس سے یہاں خبردار کیا گیا ہے کہ دیکھو! یہ ابلیس بہت بڑا دھوکے باز ہے، یہ کہیں تمہیں اللہ کی رحمت کے حوالے سے ہی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بہلاوے میں آکر تم دنیوی زندگی کی رنگینیوں میں گم ہو کر اللہ کو بھول جاٶ اور اس طرح تمہاری یہ زندگی تمہارے لیے ایک بہت بڑا دھوکہ بن جائے۔ اور دیکھو! دُنیوی زندگی کے بارے میں یہ حقیقت کبھی تمہاری نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے:{وَما الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ} آل عمران”اور دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔ “(بیان القرآن)

    ایک عالِم کی موت ایک عالَم کے موت کے مترادف ہوتی ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے اور سر کی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرتے ہوئے بھی ہم خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اب بھی بیدار ہونے کا موقع ہے۔ مولانا عمری صاحبؒ کا موت ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ ہمیں چاہئیے کہ ہم اس فانی دنیا میں موت کو زیادہ سے زیادہ یاد رکھیں اور تقویٰ کی زندگی گزاریں چونکہ قرآن نے دنیا و آخرت میں اہل ایمان کی کامیابی کا راستہ یہ بتایا ہے کہ وہ تقویٰ کی زندگی گزاریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی سے سرفراز فرمائے، آمین۔

تبصرے بند ہیں۔