تیری طلب میں

تعارف و تبصرہ : وصیل خان  

نام کتاب : تیری طلب میں ( شعری مجموعہ)

کمال احمد بلیاوی (موبائل: 9224232770)

قیمت:  150روپئے۔ صفحات :  128

صورت حصول: مکتبہ جامعہ لمٹیڈ ،پرنسس بلڈنگ ،ابراہیم رحمت اللہ روڈ،

جے جے کارنرممبئی ۸۔کتاب دار،جلال منزل ،ٹیمکر اسٹریٹ ممبئی 8

کمال احمد بلیاوی کا تعلق مشرقی یوپی سے ہے لیکن عرصےسے عروس البلاد ممبئی میں مقیم ہیں ۔حصول معاش کے بعد ان کا سب سے زیادہ مرغوب مشغلہ شعر گوئی ہے ۔فرصت کے لمحات میںوہ غور وفکر کرتے ہیں ۔ شاعری سے بے انتہا دلچسپی اور غوروفکر کی گہرائی کے سبب ان کے یہاں ایک خاص طرح کی وجدانی کیفیت ابھرتی ہے اور اسی کیفیت جذب میں جب وہ شعر کہتے ہیںتو ان کے بیشتر اشعار قارئین کی توجہ مبذول کرلیتے ہیں ۔ایک عرصے سے ملک کے مختلف ادبی جرائد و رسائل میں ان کی غزلیں نہ صرف شائع ہورہی ہیں بلکہ خراج تحسین بھی حاصل کررہی ہیں ۔شاعری دراصل احساسات و جذبات کے وسیلہ ٔ اظہار کا نام ہے جس میں بیک وقت متعدد محرکات کارفرما ہوتے ہیں ،ندرت فکر اور سحر انگیز لفظوں کے اتصال سے جو خوبصورت اور جاذب اشعار وجود میں آتے ہیں وہ قاری کی تمام تر توجہ اپنی جانب مبذول کرلیتے ہیں۔

اگر شاعری ان صفات سے تہی دامن ہو تو وہ محض تک بندی تک ہی محدود ہوکر رہ جاتی ہے جس سے نہ کوئی حظ اٹھاسکتا ہے نہ ہی اپنے فکری رجحانات میں کوئی تموج پیدا کرسکتا ہے ۔بد قسمتی سے آج ہمارے آس پاس ایسی ہی شاعری کا انبار لگا ہوا ہے ۔ایسے میں اگرکمال بلیاوی ان کمزوریوں سے بڑی حدتک محفوظ نظر آتے ہیں تو اہل ادب کیلئے یہ بہرحال ایک خوش آئند لمحہ کہا جاسکتا ہے۔  ان کی شاعری قارئین کی سماعتوں پر بار نہیں بنتی بلکہ انہیں ایک کارآمد اور لطیف احساس سے ہم کنار کرتی ہے ۔مشہور نقاد و محقق شمیم طارق موصوف کا فنی تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ غزل رمزو کنایہ سے عبارت ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیانیہ اشعار متاثر نہیں کرتے ،باکما ل شعرا کے بیانیہ اشعار بھی فکر کے کئی زاویوں کو روشن کرتے ہیں ۔کمال احمد بلیاوی کی شاعری میں کوئی ایسا حسن تلاش کرنا جو ان کی شناخت ہو کار عبث نہیں ہے ۔ ان کے کلام میں ایسے شعر اور مصرعے ہیں جو ان کے جینے کی ادا کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔وہ محنت مزدوری کے ساتھ شعر کہہ رہے ہیں اور تھوڑا بہت ’’ مشاعرہ بازی ‘‘ میں مبتلا ہونے کے باوجود فیشن زدگی سے محفوظ ہیں اس لئے میں نے انہیں ’’ کمال کا شاعر ‘‘ کہا ہے ۔میری نگاہ میں ایسے کئی درجن شاعر ہیں جنہوں نے شاعر ہونے کے زعم میں اپنا سب کچھ گنوادیا مگر شاعر نہیں تسلیم کئے گئے ۔کمال احمد بلیاوی محبتوں کی سوغات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہیں اور اپنی پہچان بنارہے ہیں ۔‘‘

کمال بلیاوی کا ادبی سفر اگرچہ اپنے ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ان کی مسلسل محنت اور ادبی ذوق انہیںیقینا ً اس مقام پر ضرور فائز کردے گا جس کا خواب کوئی بھی فنکاردیکھنےکا متمنی رہتا ہےلیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنا سفر اسی ذوق و شوق کے ساتھ جاری رکھیں ۔کچھ شعری نمونے آپ بھی دیکھ لیں

کرم کی بھیک میں جس روز مانگوں ناخداؤں سے

 خدا میرے ڈبودینا اسی د ن کشتیاں میری 

  ہمارا نقش قدم جس زمیں سے ملتا ہے

  پیام امن کا سب کو وہیں سے ملتا ہے 

قیامت کا سبب پوچھا کمال احمد نےجب اس سے 

  کہا اس نے کہ آکر دیکھ لے انگڑائیاں میری 

کمال شعر میں وہ فکر چھوڑجاؤں گا

زمانہ یاد کرے گا مجھےزمانے تک 

تبصرے بند ہیں۔