تیرے غم سے جو ہم کنار نہیں

جمالؔ کاکوی

تیرے غم سے جو ہم کنار نہیں
زندگی اس پہ آشکار نہیں

زندہ رہنا ہو، ناگوار نہیں
زندگی اتنی سازگار نہیں

اہل سروت کی ہے رسائی بس
کوئی مزدور جی وقار نہیں

سارا عالم ہی غم کا شاکی ہے
تیرا دیوانہ دل فگار نہیں

میرے خط کا جواب کیوں آئے
میرا نامہ تھا زر نگار نہیں

آپ ہی میرے دل کے مالک ہیں
دل پہ میرا خود اختیار نہیں

مشکلوں میں وہی گھرا ہے جو
اپنی بیگم کا تابعدار نہیں

زلف ہے دام آنکھ اک قاتل
کون لیلا ترا شکار نہیں

مجھ سے دیوانے ہوں گے بس دو چار
ساری دنیا میں سو ہزار نہیں

دل میں رہتا ہے ایک پردہ نشیں
اور محرم نہیں ہے، یار نہیں

عشق میں کس کو ڈر خسارے کا
عاشقی کوئی، کاروبار نہیں

میری آنکھوں میں میرا چہرا ہے
آئینے پر کوئی ، غبار نہیں

سانس رکنے سے پہلے آجاتے
ایک پل کا بھی ، اعتبار نہیں

حالِ دل سے جمالؔ واقف ہے
ساری دنیا، پہ آشکار نہیں

تبصرے بند ہیں۔