تیسری جنگ عظیم: آغاز، اختتام اور وجوہات

شہباز رشید

دنیا میں جاری حالات و واقعات ایک زبردست جنگ کا بگل بجا رہے ہیں۔ جس طرح سے ایک آ تش فشاں پک کر پھٹنے کے قریب ہوتا ہے عین اسی طرح دنیا کے ہر قسم کے حالات اور انسانوں کا ہر قسم کا رویہ اپنی شدت کو پہنچ کر اب ایک سانحہ عظیم کا منتظر ہے۔ نفسیاتی اور روحانی طور پر دیکھا جائے تو یہ دنیا ایک اضطراب کا شکار ہے جس کی وجوہات کا ادراک و شعور دنیا کی اکثریت کو حاصل نہیں البتہ اس سے پیدا ہونے والے درد کا احساس ضرور ہے۔ اس درد کی دوا چونکہ کسی کیمیائی دوا کی صورت میں دستیاب نہیں ہے اس لئے اس سے چھٹکارا عالم انسانیت کو کسی بہت بڑی قیمت چکانے کے بعد ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ انفرادی سطح پر ایک انسان شدید ذہنی و نفسیاتی بحران کے نتیجے میں جس طرح خود کشی کے ذریعے راہِ فرار تلاش کرتا ہےبعینہ مجموعی سطح پر یہ دنیا بھی جاری عالمگیر ذہنی و نفسیاتی دباو سے حریت حاصل کرنے کے لئے ایک عالمگیر خودکشی کرنے کا مستحق ہو چکی ہے۔ یہ عالمگیر خودکشی صرف اور صرف ایک عالمگیر جنگ کے قالب میں ڈھل کر انسانیت کو حاصل ہو سکتی ہے۔ موجودہ دور میں ممالک کے مابین آپسی سرد جنگ کی نوعیت کے اختلافات دراصل وہ خطرناک دراڑیں ہیں جو عنقریب انھیں آپس میں ایک دوسرے سے لڑانے کی اصلی وجوہات بنیں گیں۔ یہ لڑائی ان ممالک کی خدائی نافرمانی و بغات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اعلیٰ حماقت کا مظہر ہوگا۔ عنقریب ہونے والی یہ عالمگیر جنگ بلا شک و تردد آخری اور تیسری جنگ عظیم ہوگی۔ اس جنگ عظیم میں مختلف فریق آپس میں نبرد آزما ہونگے لیکن ایک فریق ایسا بھی ہوگا جو حق کی سربلندی کے لئے اٹھ کھڑا ہوگا۔ چونکہ اس جنگ عظیم کی پیشنگوئی مذہب کی سطح پر معروف مذہبی صحائف میں اور تجزیے کی سطح پر ماہرین کی زبانی تقاریر، قلمی تحاریر اور کتابوں میں کی گئی ہے اس لئے اس جنگ کا اب شاید اس باغی دنیا کے لئے تقدیرِ مبرم ہونا طے ہے۔

اب ہم اس موضوع کے ٹیکنیکل پہلو کی طرف آتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دنیا سرد جنگ کے طویل المیعاد بادلوں میں گھری رہی۔ نوے کی دھائی میں روس کے خاتمے کے ساتھ ہی تیسری جنگ عظیم کا دیباچہ بننے کا باب نائن الیون سے شروع ہوا۔ اس کے بعد تاہنوز یہ خون ِ مسلم سے رنگا ہوا  جنگی باب جو ایک دیباچے کی حیثیت رکھتا ہے تکمیل کے آخری مرحلے پر پہنچ چکا ہے۔ جس طرح سے جنگ عظیم دوم سے پہلے جرمنی میں یہودیوں پر ظلم روا رکھا گیا اور بعد ازاں یہی مظلوم یہودی فلسطین پر ناجائز قبضہ کرنے کے بعد سفاک اور ظالم بنے۔ اسی سے ملتا جلتا ایک ایپیسوڈ اب شروع امت مسلمہ کی مظلومیت سے شروع ہوگا۔ لیکن جنگ عظیم کے بعد یہ امت پوری دنیا پر عدل و انصاف کا فریرا لہرائے گی۔ مستقبل میں پیش آنے والے ان تمام احوال کی پیشنگوئی صادق المصدوق پیغمبر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں اور اس موضوع پر علمائے دین کی بے شمار تقاریر سنی اور تحاریر پڑھی جا سکتی ہے۔ زمینی سطح پر تجزیے کی دوربین اور خوردبین سے اگر جائزہ لیا جائے تو دنیا میں آج کچھ ایسے مسائل ہیں جو اس جنگ کے آغاز کے لئے ہاٹ سپاٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ہاٹ سپارٹس میں سب سے اہم ترین مسئلہ کشمیر  اور مسئلہ بیت المقدس  مستقبل میں ایک بہت بڑی جنگ کی وجہ بننے والے ہیں۔ مشرقی وسطی میں مسئلہ فلسطین دن بدن ایک گھمبیر مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت گریٹر اسرائیل کے خواب کی تکمیل کے لئے مغربی کنارے پر روزانہ اپنے ظالمانہ کارروائیوں کو تیز کر رہا ہے اور فلسطینی شہریوں کو انخلاء کرکے بے دخل کیا جارہا ہے۔ روزانہ فلسطینیوں کے مکانات کو گرایا جا رہا ہے، کھیتوں میں پکی ہوئی لہلہاتی فصلوں کو نذر آتش کر دیا جا رہا ہے۔ فلسطین میں حالات مسلسل کشیدگی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے انکسزیشن پلان کی زبانی مخالفت توعرب ممالک کی طرف سے ہوئی لیکن وہ مخالفت کسی بھی موئثر و مثبت جواب حاصل کرنے کا مستحق نہیں ٹھہرتی اس لئے کہ یہ مخالفت کسی مضبوط ارادے کے ساتھ نہیں کی گئی تھی۔ اس ظمن میں غزہ کی پٹی، مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم کی 53ویں سال برسی کے موقعہ پر عرب اور اسلامی ممالک کی سرد مہری پر حماس نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "عرب اور دیگر مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں حالانکہ اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کو مسلسل ہتھیانے کی کوشش کر رہا ہے”.اس انکسزیشن پالیسی کا اصلی ہدف بیت المقدس ہے جس کو ڈھا کر اسرائیل ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ یہ حقائق اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں لیکن عرب ممالک کی آپسی چپقلش اسرائیل کو اپنے شیطانی منصوبوں کے مطابق کام کرنے کا حوصلہ فراہم کر رہے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین تیسری جنگ عظیم کا قوی متوقع سبب بننے والا ہے لیکن اس کی باری دوسرے نمبر پہ آنے کا امکان ہے۔

فلسطین سے پہلے جو تیسری جنگ عظیم کے آغاز کا متوقع مرکز ہے وہ ہے جنوبی ایشیاء میں پکے ہوئے لاوے کی مانند جلتا ہوا کشمیر ہے۔ مسئلہ کشمیر دو مضبوط نیو کلائی طاقتوں کے مابین ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کو جان بوجھ کر عالمی قوتوں نے ناقابلِ حل بنا کر پورے شمالی ایشیاء کو خطرے میں مبتلا کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر نے ابھی تک لاکھوں کشمیری جانوں کا خون جذب کیا ہے لیکن تا حال یہ مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔ اگر آج کا انسان چاند پر چڑھ کے اپنے بہت سارے مسائل کا حل تلاش کر پایا تو کیا زمین پر رہ کر بھارت، پاکستان اور اقوامِ متحدہ مسئلہ کشمیر حل نہیں کر سکتے ؟ یہ مسئلہ حل ہو سکتا اگر پوری عالمی برداری دلچسپی لیتی خصوصاََ مغربی ممالک لیکن وہ کبھی بھی ایسا نہیں چاہیں گے کیونکہ پھر ان کا ثالث بننا،  مشرق کی سیاست میں بلا وجہ دخل دینا، اپنی چودھراہٹ کی دھونس جمانا اور یہاں پر بد نیتی کے قدم جمانا محال ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پچھلے 70سالوں میں کشمیر کے متعلق جتنی بھی مذاکرات کا انعقاد ہوا وہ صرف کرسیوں پر براجمان چودھریوں کی چودھراہٹ کی نمائش ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ چین اور بھارت کے مابین حالیہ تنازعہ اسی معاملے کا ایک پہلو ہے۔ چین اور بھارت کی لداخ میں کشیدگی بارود پر چنگاری لگنے کے مترادف ہے۔ چین اور بھارت دونوں کا جنوبی ایشیاء میں ایک خواب ہے جس کی تکمیل کے لئے چین بھی کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے کہ جس سے چین کا خطے میں نام نامی ہو اور بھارت بھی اسی نیت کا حامل ہے۔ چین چونکہ بھارت کے ساتھ جو کہ ایک طاقتور ملک کی حیثیت رکھتا ہے کئی بنیادوں پر الجھنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں چین اپنے آپ کو دنیا کاسپر پاور ڈیکلئر کرے۔ چین چونکہ بھارت سے بلا مبالغہ طاقتور ملک ہے اور بھارت چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کا اندازہ کئی بھارتی مبصرین کو بھی ہے۔ اس کے بارے میں میرا ایک مضمون بعنوان "چین بھارت تعلقات ضرور یا مجبوری "پہلے بھی شائع ہو چکا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات اس کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس مضمون میں  ایک بھارتی تجزیہ نگار کے الفاظ میں بھارت کی پوزیشن کو بمقابلہ چین اچھی طرح سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سی۔ راجہ۔ موہن لکھتے ہیں :

"طاقت کا یہ عدم توازن سفارتی سطح پر ایک تلخ حقیقت میں تبدیل ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ چین کا بھارت کو خوش کرنا کوئی مجبوری نہیں ہے  یا زیادہ صحیح یہ ہے کہ چین بھارت کو ناراض کرنے کی عادت رکھتا ہے۔ چاہے یہ مخالفت چین کی طرف سے بھارت کی جوہری سپلائر گروپ میں مستقل ممبرشپ حاصل کرنے کے ظمن میں ہو یا مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں چین کی مداخلت ہو "

خیر بھارت اور چین کے مابین پاور ڈیفسٹ یا طاقت کا عدم توازن تو عیاں ہے لیکن چین کا اب اقدام ریجنل پاور کا اعلان کرنے کے ساتھ عالمی طاقت بننے کا اعلان بھی قریب تر معلوم ہو رہا ہے۔

اسکندر یونانی اسکندرِ اعظم تب بنا جب اس نے لڑائیاں لڑی کیونکہ یہ قانونِ فطرت ہے کہ کسی بھی طاقت کو اپنے اظہار کے لئے مقابلے کی قوت پر برتری حاصل کرنی پڑتی ہے۔ اسی لئے چین بھی بھارت کے ساتھ  متنازعہ علاقوں اپنی فوجیوں داخل کر چکا ہے۔ رپورٹس کے مطابق چین نے لداخ کے علاوہ اتراکھنڈ اور سکم میں بھی لائن آف ایکچول کنٹرول پر بھاری تعداد میں فوجیں تعینات کی ہیں۔

بھارت نےاگست میں دفعہ 370کو ہٹا کے خطے میں سیاسی تناو کا آغاز کیا۔ پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر گرما گرم سیاسی مباحث کا موضوع بن گیا۔ سیاسی سطح پر فی الحال بھارت اپنے اس تاریخی فیصلہ کو صحیح ثابت کرنے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ اپنے اس یکطرفہ فیصلے کی وجہ سے بھارت نے احمقانہ طور پر اپنے آپ کو ایک دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ دفعہ 370چونکہ جموں وکشمیر کو بشمول لداخ کے ایک خصوصی پوزیشن فراہم کرتا تھا جس کی وجہ سے مسئلہ جموں وکشمیر بین الاقوامی اداروں کی مباحثی کاروائیوں کا ایک مناسب و موزوں موضوع کی حیثیت سے چل رہا تھا۔ جموں و کشمیر کی عوام کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان بھی ایک امید لئے ہوئے تھے کہ کبھی نا کبھی یہ مسئلہ حل ہو ہی جائے گا۔ چین براہ راست اور کھلم کھلا امیدوار نہیں تھا البتہ پاکستان کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات ہونے کے مناسبت سے لداخ کے معاملے میں مثبت دکھائی دے رہا تھا۔ جموں و کشمیر کا مسئلہ اگر بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق حل ہوتا تو اس کے بعد چین بآسانی پاکستان کے ساتھ گفت وشنید کرکے لداخ کا مسئلہ حل کر سکتا تھا۔ لیکن اب جب کہ دفعہ 370کو ختم کر دیا گیا ہے تو مذکورہ بالا مواقع محال ہو چکے ہیں۔ اسی لئے چین اب جارحانہ طور پر بھارت کے ساتھ لداخ میں سامنے آچکا ہے۔ رپورٹس کے مطابق بھارت اور چین کے درمیان فوجی مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ دونوں ممالک کسی ایک حل پر متفق نہیں ہیں۔ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کے بجائے دونوں طرف سے فوج کو بھاری ہتھیار کے ساتھ حرکت میں لایا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں دونوں ممالک جنگ کے قریب ہیں۔ دوسری طرف کشمیر میں عوام حکومت کی پالیسیوں کے خلاف زبردست ناراض ہے۔ کیونکہ حکومت نے کشمیر میں حال ہی میں کچھ ایسے اقدامات اٹھانے کا ارادہ کر لیا ہے جس کی وجہ سے کشمیری عوام حکومت سے سخت نالاں ہے۔ ان اقدامات میں ڈومیسائل قانون اور کشمیر میں فوج کے لئے ایک بہت بڑا رقبہ خریدنے کی پیشکش غور طلب ہیں۔ دوسری طرف پاکستان نے  بھارت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر دفعہ 370کو ختم کرنے کے بعد احتجاج کیا جس کا فی الحال تاہنوز کوئی بھی اثر بھارت پر نہیں پڑا لیکن قانون فطرت کے تحت کہیں نا کہیں اس کا اثر پڑچکا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین روز بروز کشیدگی بڑھتی جارہی اور حال ہی میں کئی مرتبہ دونوں ممالک جنگ کے دھانے تک پہنچ چکے تھے اور زمینی سطح پر ابھی بھی جنگ کے قریب تر ہیں۔ دونوں ممالک پچھلے 80سالوں کی مسئلہ کشمیر پر ڈپلومیٹک ناکامی کے تناظر مزید کسی بات چیت سے اکتا گئے ہیں اس لئے اب دونوں ممالک بات چیت کے بدلے اکثر ہتھیار کے ذریعے ایک دوسرے کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ بھارت تو بات چیت کو بالکل مسترد کرتا جا رہا ہے اور صرف جنگ کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی بات کرتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان بھی اس قسم کا بیانیہ د بے الفاظ میں دیتا آرہا ہے۔ چین اور بھارت کے مابین مستقل جنگ پاکستان کو بھی کشمیر کے لئے جنگ میں دھکیل دے گی۔ جس کی وجہ سے بھارت اپنے دوست ممالک سے مدد طلب کرے گا۔ امریکہ، اسرائیل وغیرہ بھارت کا ساتھ دینے کے لئے آگے بھڑے گیں۔ دوسری طرف چین اور پاکستان کی مدد کے لئے روس وغیرہ سامنے آئیں گے۔ یہ جنگ ایک طرف کپٹلزم اور کمیونزم کی بھی جنگ ہوگی اور دوسری طرف مذاہب کے درمیان بھی ہوگی۔ مذہب کے اس پہلو سے اس جنگ میں کئی عرب ممالک بشمول ترکی اور ملیشیاء اور طالبان افغانستان بھی اس میں حصہ لیں گے۔ اس طرح سے یہ جنگ عالمی جنگ کی صورت اختیار کرے گی۔ اس جنگ میں انسانیت شدید نقصان سے دوچار ہو کر مفلوج ہو کے رہے گی۔

اس جنگ کا آغاز جنوبی ایشیاء سے ہو گا اور اختتام میڈل ایسٹ میں ہوگا۔ جہاں پر مسجد اقصیٰ پر یلغار کے نتیجے میں پوری عرب دنیا اسرائیل کے خلاف ہو کر آخری جنگ لڑے گی۔ اس جنگ میں کئی ممالک اپنا حصہ ڈال کر پراکسی جنگ جنوبی ایشیاء اور میڈل ایسٹ میں لڑیں گے۔ تیسری جنگ عظیم کے متعلق ماہرین کی مختلف آراء ہیں لیکن اس جنگ کی وجوہات کو مذہبی سطح پر تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جانی چاہئے۔ کیونکہ اس جنگ میں مذہب ایک اہم محرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس جنگ کو جسے ہم تیسری عالمی جنگ کہتے ہیں احادیث میں الملحمۃ العظمی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس جنگ کا ذکر احادیث کی کتب کے علاوہ بائبل میں بھی ارمئگاڈان کے نام سے ہوا ہے۔ یہ جنگ دینی و سیاسی جنگ ہوگی۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی بدترین جنگ ہوگی۔ امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن کا قول ہے کہ موجودہ نسل بالتحدید ہر مجدون کا معرکہ دیکھے گی۔ "عمر امۃ الاسلام و قرب ظھور المہدی "امین محمد جمال الدین کی ایک معرکۃ الآراء کتاب ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے؛

"عجیب بات ہے ہر مجدون کے ثبوت کے لئے اہل کتاب کے اقوال تواتر کے ساتھ کثرت سے وارد ہوئے ہیں مگر بہت سے مسلمان تو جانتے ہی نہیں کہ یہ ہرمجدون کیا ہے اور اس لفظ کے اہل کتاب کی ڈکشنری میں معنی کیا ہیں۔ ہرمجدون بطور لفظ اتنا اہم نہیں بلکہ بطور مدلول اور رمز اس میں بہت سے معانی چھپے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے بعض لکھاریوں نے اس معرکہ کی طرف توجہ دینی شروع کی ہے اور ان کے قلم سے اہم مقالات نکلے ہیں جو تجزیاتی فراست، تاریخی حس، اور سیاسی سوجھ بوجھبکے زور پر لکھے گئے ہیں۔ انبمقالات نے طے کیا ہےکہ یہ فیصلہ کن معرکہ جلد ہونے والا ہے،اب اس کا سٹیج تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ حکمت عملی کی جنگ ہوگی ایٹمی اور عالمی ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ معرکہ عالمی اور اتحادی ہوگا۔ مسلمان اور اہل روم (یورپ اور امریکہ)  اس کے لازماً فریق ہونگے۔ ۔ ۔ "

دلچسپی رکھنے والے حضرات مزید تحقیق کر سکتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر ایک مختصر سا تجزیہ قارئین کے سامنے رکھنے کی جسارت کی ہے۔ حقیقی علم تو صرف اللہ کی ذات کو ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. بہت عمدہ اور نایاب تحریر ھے انفارمیشن سے بھر پور اور زبردست دستک ھے، اگر ھم نہ جاگیں تو یہ نیند یقینا” عام نہ نہیں ابدی شعوری نیند ھے، مضمون کی اشاعت اور شیئر کرنے پر شکر گزار ہوں

تبصرے بند ہیں۔