تین طلاق بل کالعدم

مسعود جاوید

تین طلاق بل جسے موجودہ حکومت نے  لوک سبها میں اکثریت میں ہونے کی وجہ سے پاس کرایا تها اس کے بعد دوسرا مرحلہ راجیہ سبھا میں پاس کرانے کا تها مگر جیسا کہ گمان کیا جارہا تها کہ راجیہ سبها میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ بل ریجیکٹ ہو جائے گا اسی خدشہ کے پیش نظر حکومت نے بل پیش نہیں کیا اور اس طرح بل لیپس ہو گیا۔اگر راجیہ سبھا میں پاس بهی ہوجاتا تو تیسرا مرحلہ صدر جمہوریہ کی موافقت یا عدم موافقت کا تها ۔ وہ بل راجیہ سبھا میں حکومت نے پیش نہیں کیا جس کی وجہ سے دوسرے مرحلہ میں ہی لیپس ہو گیا اور اس کی وجہ سے ایک بڑی راحت یہ ملی کہ اب حسب نظام دوبارہ لوک سبها سے پاس کرانا ہوگا مگر اب یہ ممکن نہیں ہے  اس لئے کہ آئندہ انتخابات کے مد نظر پارلیمنٹ کا اب اور کوئی سیشن منعقد نہیں ہوگا۔

بل پیش نہیں کئے جانے کے بارے میں مختلف لوگوں کی مختلف آراء ہیں۔ ہر شخص یا طبقہ اپنے اپنے اینگل سے اسے دیکھ رہا ہے۔ پریشر بنانے والے اور شکتی پردرشن کرنے والے اسے مسلمانوں کی فتح قرار دے رہے ہیں اور یہ دعویٰ کرنا بجا ہے اور ان کا حق ہے اس لئے کہ مسلمانوں کے ہر طبقے نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ یکجہتی اور بجا طور پر ملی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔

مگر دوسرے لوگ اسے اپوزیشن کی جیت کہ رہے ہیں یہ کہنا بهی درست ہے۔ اپوزیشن نے واضح اشارہ دے دیا تها کہ اس بل کی شدت سے مخالفت کی جائے گی۔

سیاسی شعبدہ بازی 

دراصل حکومت کو اس کا احساس ہو گیا تها کہ بل پاس کرانا اتنا آسان نہیں ہوگا پهر بهی اس کا راگ الاپتی رہی تاکہ اکثریتی طبقہ کے فرقہ ہرست عناصر خوش ہوں ۔  یہ بالکل ویسا ہی تها جیسا کہ کانگریس نے 2014 میں اپنی میعاد حکومت کے پارلیمنٹ کے آخری سیشن میں فرقہ وارانہ فسادات مخالف پیش کرنے والی تهی مگر پیش نہیں کیا۔ وقت ختم ہو گیا۔ اس وقت اس کے مدنظر بهی شاید یہی چال تهی کہ بل پاس بهی نہ ہو اور اقلیت خوش بهی رہے کہ بل پاس کرانا چاہتی تهی۔

اس وقت دو باتیں قابل غور ہیں۔  پہلی بات یہ کہ طلاق کا تعلق مسلمانوں سے ہے اس کے پاس ہونے یا نہ ہونے کا غیر مسلموں پر کیا اثر پڑے گا۔  ظاہر ہے کچھ بھی نہیں سوائے متعصب ذہن کی آسودگی کے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ہندو سماج سدهاروں کی کوشش سے ستی پرتها پر قانوناً پابندی لگائی گئی اسی طرح مسلم سماج میں بهی اصلاح کی ضرورت ہے اور تین طلاق پر پابندی لگائی جائے۔  ایسے لوگوں کو مہاتما گاندھی کی وہ بات یاد رکهنی چاہئے۔ ایک بار گاندھی جی سے ہندوؤں نے پوچها کہ آپ ہمیشہ ہندو مذہب اور تہذیب میں اصلاح کی بات کرتے ہیں کبهی مسلمانوں یا عیسائیوں کے مذہب اور کلچر میں اصلاح کی بات کرتے آپ کو نہیں سنا۔ کیا ان کے سماج میں سدهار کی ضرورت نہیں ہے؟  گاندھی جی نے جواب دیا ضرورت تو ان کے سماج میں بهی ہے مگر میں ایک ہندو ان، مسلم یا عیسائی سماج ، میں اگر اصلاح کی بات کروں گا تو یہ counterproductive ہوگا ان کو ایسا لگے گا گویا میں ان کے مذہب کی اہانت کر رہا ہوں۔ان کے اندر چڑ پیدا ہو جائے گی۔ مسلمانوں اور عیسائیوں میں باصلاحیت لوگ ہیں وہ اپنے اپنے سماج میں اصلاح کریں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اب جبکہ مسلمانوں کو تین طلاق بل سے نجات مل گئی کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر ملی تنظیمیں ائمہ و خطباء کیا اپنے اپنے پلیٹ فارم محراب و منبر سے  طلاق دینے کا صحیح طریقہ ، جو کہ مرحلہ وار پروسیس ہے،  عام مسلمانوں کو اسی طرح سکهائیں گے جس طرح نماز روزہ حج اور زکوٰۃ حلال اور حرام سکهاتے ہیں۔ کیا پرسنل لاء بورڈ ایسا کوئی میکانزم بنائے گا کہ طلاق کا do and don’t نکاح نامہ کا حصہ بنے۔ کیا تین طلاق بیک وقت نہ دینے کی شرط لڑکی والوں کی طرف سے لکهائی جا سکتی ہے اگر ہاں تو کیا اس کے لئے حقیقی بیداری مہم چلائی جائے گی ؟

باہر سے مسلط اصلاح کارگر نہیں ہوتی۔ باہر سے تهوپنے سے سدهار نہیں ضد میں اور کام خراب ہوتا ہے۔ اصلاح خود معاشرہ کے اندر سے ہو۔ ہر سماج کے لوگ اس کا بیڑہ خود اٹهائیں تو اس میں زیادہ پائداری ہوتی ہے۔

اللہ سبحانه وتعالى کا ہزارہا احسان ہے کہ اس نے اس قانون سے نجات دلایا اس لئے کہ اگر تین طلاق جو شرعا واقع ہو جاتی ہے اگر قانوناً ایک یا کالعدم تسلیم کی جاتی تو ظاہر ہے قانون کے ڈر سے میاں بیوی نہ رہتے ہوئے بھی میاں بیوی رہتے یعنی حرام کاری میں ملوث زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے۔ اب ہمیں اپنی اصلاح کا بیڑہ اٹهانا چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔